بر طا نیہ کے عوام نے ریفر نڈم کے ذریعے 43سال بعد یورپ سے انخلاکا فیصلہ کر کے پو ری دنیا کو تو ہلا کر رکھ ہی دیا ہے لیکن خو دبر طانیہ کی اشرافیہ اور پڑ ھا لکھا طبقہ بھی شد ید مایو سی شکا ر ہو گیا ہے اورانہیںاپنے ملک کا مستقبل تاریک نظر آرہا ہے۔ بی بی سی کی شہرہ آ فاق رپو رٹر لیس ڈوسے Lyse Doucet نے ‘ جن کانام پاکستان میں بھی کافی معروف ہے ‘ ٹو یٹ کے ذریعے اس صورتحال پر دلچسپ تبصر ہ کیا ہے ۔ان کا کہنا ہے : کیا وقت آ گیا ہے کہ جب بہت سے ملک تشدد کے ذریعے تبا ہ ہورہے ہیں وہاں دوسر ے ملکوںنے اپنے آ پ کو ووٹنگ کے ذریعے تبا ہ کر لیا ہے ۔ ایسا لگتاہے کہ بھونچال آ گیا ہے ۔ظا ہر ہے کہDoucet Lyse بر طانیہ کی مو جودہ صورتحال پر نوحہ گر ی کر رہی ہیں ،یقینا صورتحال ابترہے۔ 1985ء کے بعد برطانو ی پاؤنڈ اتنا نہیںگراجتنی اس ریفر نڈ م کے بعداس کی قیمت میں کمی ہوئی ہے۔بین الاقوامی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی مو ڈیز نے بر طانو ی ریٹنگ مثبت سے منفی کر دی ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ سوائے لند ن اور سکاٹ لینڈ کے ریفر نڈم میں ہر جگہ ووٹ یورپی یونین کو خیر باد کہنے کے حق میں پڑا ہے ۔ سکا ٹ لینڈکی انڈیپنڈنٹ پارٹی نے جو پہلے سکا ٹ لینڈ کی بر طا نیہ سے علیحد گی کا ریفر نڈم ہا ر چکی ہے ‘ دوبارہ ریفر نڈم کرانے کا مطالبہ کردیا ہے کیو نکہ اس کے نزدیک سکا ٹ لینڈ کا مستقبل بر طا نیہ کے ساتھ نہیںبلکہ یو رپی یو نین کے ساتھ ہے۔ایسا لگتا ہے کہ' گر یٹ بر ٹن‘ اب' لٹل بر ٹن‘ ہو تا جا رہا ہے۔ بہت سے لوگ اس صورتحال کا ذمہ دار برطانوی وزیر اعظم ڈیو ڈ کیمرون کو ٹھہراتے ہیں کہ انھوں نے ایسے حسا س معاملے پر ریفر نڈم کرانے کا پنگا کیونکر لیا۔اس ناکامی کے باعث کیمرون کو خو د بھی مستعفی ہونا پڑگیا ہے۔ لیکن اب معاملہ محض کیمرون یا کنزرویٹوپا رٹی کے اقتدار کا نہیں بلکہ بر طا نیہ کے مستقبل کا ہے ۔برطانیہ دنیا کی پانچو یں بڑ ی اکانومی ہے لیکن نئی صورتحال میں اس کے لیے یہ پوزیشن بر قرار رکھنا شاید مشکل ہو ۔ادھر یو رپی یو نین کا استد لال ہے کہ اب بر طانیہ جلد از جلد اسے خیرباد کہہ دے اور دوسال کی معینہ مدت کاانتظار نہ کرے۔
ووٹ کی طاقت اور بعض اوقات اس سے ہونیوالے نقصان کا انداز ہ Brexitسے لگا یا جا سکتا ہے لیکن زیادہ نقصان اس وقت ہو تا ہے جب عوام کے مینڈ یٹ کو تسلیم کر نے سے انکا ر کردیا جائے ۔جیسا کہ جب پاکستان میں 1970ء کے انتخابات کے نتا ئج تسلیم نہ کئے گئے تو عوامی لیگ کے رہنما شیخ مجیب الر حمن نے اسے مشر قی پاکستان کی علیحدگی کے لیے استعمال کیا اور آ دھا ملک ٹوٹ گیا ۔یقینا Brexitکو بر طا نیہ کے عا م آ دمی کا ایلیٹ کے خلاف اعلان بغا وت کہاجا سکتا ہے۔کمیو نزم کے خا تمے کے بعدسے گلو بل ڈھانچے میں عام آ دمی محسو س کرتا ہے کہ وہ پس کر رہ گیا ہے۔جبکہ دوسر ی طرف ملٹی نیشنل اور یو رو سینٹر ک کمپنیوںاور بز نس ایلیٹ کے وارے نیارے ہو رہے ہیں‘ کچھ اس قسم کی سوچ رفتہ رفتہ امر یکہ میں بھی پروان چڑ ھ رہی ہے۔رواں بر س نو مبر میں ہو نے والے صدارتی انتخا بات میں ری پبلکن پارٹی کے امیدوار کے طور پر ڈونلڈ ٹر مپ کی کامیابی اس قسم کی صورتحال کی مظہر ہو سکتی ہے ۔ ٹرمپ عام نیم خو اندہ ،بین الاقوامی امور سے کم واقف اور اقتصادی طور پر کمز ور امر یکیو ں کے منفی جذبات کی عکاسی کرتا ہے وہ اس حد تک آگے چلا گیا ہے کہ اس نے یہ بھی کہہ دیا ہے کہ میکسیکو اور دیگر ممالک سے آ نے والی سستی لیبر نے امر یکیوں کی نوکر یاں ختم کر دی ہیں ۔ اس طر ح گلوبلائزیشن کے نئے رجحان کی وجہ سے بہت سی امر یکی کمپنیاں چین اوردیگر مما لک میں فیکٹریا ں لگا رہی ہیں۔ خارجہ پالیسی کے میدان میں بھی امریکی لیڈر شپ کمزور ی دکھا رہی ہے ۔ٹرمپ اسلام کو دہشت گرد مذہب قرار دیتے ہوئے مسلمانوں کی امر یکہ میں امیگر یشن کے بھی خلا ف ہے۔ وہ مصنوعی اور اصلی دیواریں بنانے کی بھی بات کرتا ہے ۔ اگر چہ وہ بر ملا طور پر نہیں کہتا لیکن اشا روں کنایوں میں یہ تا ثر دینے کی کو شش کرتا ہے کہ بارک اوباما دراصل خود مسلمان ہے ۔ دوسری طرف ہیلر ی کلنٹن ڈیمو کر یٹک پارٹی کی صدارتی امیدوار توبن گئی ہیںلیکن ان کے مدمقابل برنی سینڈرزنے انھیں بڑ ی بڑی امر یکی کارپوریشنوں کا گماشتہ قراردیتے ہو ئے قریباً ناکوںچنے چبوا دیئے ہیں۔ان تمام تر مبا حثو ں کے باوجو د امر یکی الیکٹرول سسٹم میں اتنی چھلنیاں لگی ہو ئی ہیں کہ ٹر مپ جیسا 'پا گل ‘ مشکل سے صدارتی الیکشن جیتے گا لیکن محض ایک پراپرٹی ٹائیکون کا چر ب زبانی اور دولت کی بنیا د پر ری پبلکن پا رٹی کا صدارتی امیدوار بن جانا از خود اس خطرناک رجحان کی نشا ند ہی کرتا ہے جو امر یکی الیکٹورل کی کثیر تعداد کیلئے پر کشش بنتا جا رہا ہے۔کچھ اس قسم کی صورتحا ل برطانیہ میں بھی ہے۔ یو رپی یو نین میں مشر قی یورپ کے ممالک کی شمولیت کے بعد لا کھوں افراد ان ملکوں سے تلا ش روزگار کے لیے بر طانیہ آ ئے تھے ۔ عام خیال یہ ہے کہ ان افراد نے بر طا نو ی شہر یوں کے روز گار کا حق مارا۔ اسی طر ح برطانیہ کی بعض صنعتیں جن میںآٹو موبا ئل کی صنعتیں بھی شامل ہیں ،یو رپی یونین پورٹ کی بناپر متا ثر ہوئی ہیں ۔یورپی ٹیکنالوجیکل تعاون کا سب سے بہتر ین نمو نہ ائیربس جہا ز ہے جس کے مختلف پارٹس سپین‘ برطانیہ، فرانس اور جرمنی میں تیا ر ہوتے ہیں لیکن جہاز ائیربس کے ہیڈکوارٹرز Toulouseمیں اسمبل کیا جا تا ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ائیربس طیا روں کے انجن عمومی طور پر امریکہ سے آ تے ہیں، اس وقت ائیربس اپنے آ رڈرز میں امر یکی طیارہ سازوں کو پیچھے چھوڑ گئی ہے۔اب ائیربس کو بھی یہ فکر لا حق ہو گئی ہے کہ اس کا کیا بنے گا؟ ۔
دولت مشتر کہ کے رکن دیگر ممالک کی طر ح حالیہ دہائیوں میں برطا نیہ کا فوکس یو رپ کی طرف بڑ ھ گیا تھا ۔ لیکن یو رپی یونین چھوڑنے کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ بر طانیہ یو رپ سے الگ ہوگیا ہے۔جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے ،ذہنی طورپر پاکستا نیوں کے لیے ہمیشہ بر طا نیہ یو رپ سے الگ ہی رہا ہے ۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ انگریز نے یہاں نوے سال حکومت کی ہے لیکن خو دبر طانیہ نے بھی یو رپ میں شامل متصل جز یرے کے طور پر اپنا الگ تشخص بھی برقرار رکھا ہے ۔وہ یو رپی کر نسی یونٹ میں شامل نہیں ہو ااور اس کی کرنسی یورونہیں بلکہ بد ستو ر پاؤنڈ ہی ہے۔تمام یورپ میں گاڑیا ں لیفٹ ہینڈ ہیں جبکہ بر طانیہ رائٹ ہینڈ ڈرائیونگ والاملک ہی ہے۔ یورپ میں سفر کیلئے شینگن ویزے کے بر عکس بر طانیہ کے لیے الگ ویز ا لینا پڑ تا ہے۔ برطانیہ بہر حال ایک بہت قدیم اور بڑ ی تہذ یب ہے ؛ لہٰذا اس وقت پید ا ہونے والی تمام تر مایوسی کے با وجو د اس پرمحض Brexit سے سورج غروب نہیں ہوجائے گا ۔