مشیر برا ئے خا رجہ امور سرتا ج عزیز نے بڑے پتے کی بات کی ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف بیک وقت تمام محاذ نہیں کھو لے جا سکتے، ان کے مطابق تمام عسکریت پسند وں کے خلاف بڑے پیمانے پر کا رروائی میں بہت سی مشکلات حائل ہیں، جن سے وطن عزیز میں دہشت گردوں کے حملے بڑھ سکتے ہیں، لہٰذا ہمیں فیصلہ کن انداز میں آ گے چلنا ہوگا۔ دنیا بھرمیں دہشت گردی کی نئی لہر کے تناظر میں دیکھا جا ئے تو مشیر خارجہ کی بات میں کچھ وزن نظر آتا ہے۔ حالیہ چند ماہ میں برادر اسلامی ملک ترکی دہشت گردوںکا ہدف بن چکا ہے۔ چند روز قبل داعش ( آ ئی ایس آئی ایس) سے ناتا جوڑنے والے دہشت گردوں نے استنبول کے اتا ترک ائیر پورٹ پر شب خون مارا جس کے نتیجے میں کم از کم 45 افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہوگئے ۔ یہ ماہ جون کے دوران استنبول میں دہشت گردی کا دوسرا بڑا واقعہ ہے، جس تواتر سے ترکی میں عسکریت پسند کھل کھیل رہے ہیں اس پر بعض مغر بی تجز یہ کاروں نے انوکھا فقرہ چسپاںکیا ہے: '' ترکی کی پاکستانائز یشن ہو رہی ہے‘‘۔ ترکی جو صرف چند برس قبل یورپی یونین کی مکمل رکنیت کے لیے اس کے دروازے کھٹکٹا رہا تھا، جس کی اقتصادی ترقی قابل رشک تھی اور جہاں دنیا بھر سے سیاحوں کا تانتا بندھا رہتا تھا، طیب اردوان کی کوتاہ اندیشانہ پالیسیوں کی بنا پر اب تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔ اردوان نے پہلے علیحدگی پسند کردوں سے معاہدہ کیا اور پھر انہی کی پٹائی شروع کر دی۔ اسی طرح شام کے صدر بشارالاسدکو نیچا دکھانے کے لیے داعش سے عملی طور پر الحاق کر لیا اور داعش پر بمبا ری کرنے کے لیے جانے والے رو سی طیارے کومار گرایا جس سے تر کی کے روس کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہو گئے اور اب بعد از خرابی بسیا ر صلح ہوئی ہے۔
پاکستان کے ماضی کے حالات اور افغانستان کے معاملات میں ہماری حکومتوں اور فوجی قیادتوں کی پالیسیوں ، ترکی کے موجودہ حالات اور پاکستان کے ماضی قریب کے حالات میں کچھ نہ کچھ مماثلت ضرور پائی جاتی ہے۔ جنر ل ضیاء الحق نے دامے درمے سخنے پاکستان اور اس کے سکیورٹی اداروں کو سوویت یونین کے خلا ف لڑنے والے مجاہدین کی مدد کے لیے مامور کر دیا تھا۔ سوویت یونین کے انخلا کے بعد پاکستان طالبان کی پشت پنا ہی کے مشن پر گامزن ہو گیا، حتیٰ کہ متحدہ عرب امارات کے علاوہ پاکستان واحد ملک تھا جس نے طالبان حکومت کو تسلیم کیا۔ مجھے یاد ہے کہ پرویز مشرف کے دور میں پاکستان کے مشیر خارجہ عبدالستار نے عین نا ئن الیون سے قبل امر یکہ کے دورے پر جاتے ہوئے لاہور میں رک کر فرمایا کہ وہ امر یکی انتظامیہ کو باورکرائیں گے کہ طالبان سے بات چیت کریں، یہ لو گ اتنے بر ے نہیں جتنا آپ انھیں سمجھتے ہیں۔ یعنی ایسی سوچ جڑ پکڑ چکی تھی جس سے وطن عزیز ہر قسم اور ہر برانڈ کے جہادیوں کی آماجگاہ بن گیا۔ دنیا میں کہیں بھی دہشت گردی کا واقعہ ہوتا تو اس کا کھرا پاکستان میں تربیت پانے والے دہشت گرد گروپوں سے جا ملتا تھا۔ قر یباً سب کچھ لٹا کر ہمیں دوسال قبل ہوش آئی کہ دہشت گردوں کی توپوں کا رخ اب پاکستان کی سالمیت، یکجہتی اور اندرونی استحکام کو تباہ کر نے کی طرف ہے۔ملک میں بیرونی سر مایہ کاری صفر ہو چکی تھی۔ غیر ملکیوں کے لیے پاکستان کا سفر خطرناک قرار دیا جا چکا اور اس حوالے سے ٹریو ل ایڈ وائز ر ی جاری ہو چکی تھی، حتیٰ کہ 2009ء میں لاہور میں سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر حملے کے بعد غیر ملکی ٹیمو ں نے بھی پاکستان میں کرکٹ کھیلنے سے انکار کر دیا تھا۔ مقام شکر ہے دوبرس قبل پاک فو ج نے جنرل راحیل شریف کی قیادت میں میاں نواز شریف کی سول حکومت کی آشیر باد سے آپریشن 'ضرب عضب‘ شروع کیا۔ اس آپریشن کے نتیجے میں حالات آئیڈیل تو نہیں لیکن پہلے سے بہت بہتر ہیں۔ دہشت گردی کے واقعات میں 70فیصد سے زائد کمی ہو ئی ہے۔ اس وقت دنیا میں دہشت گردی کی نئی لہر میں بنگلہ دیش میں روشن خیال مسلمانوں اور ہندوؤں کو نشا نہ بنایا جا رہا ہے، جمعہ کو ڈھاکہ میں ایک ریستوران پر حملہ اور وہاں لوگوںکو یرغمال بنا کر تین سفارتکاروں سمیت متعدد افراد کا سفاکانہ قتل اس بات کا بین ثبوت ہے کہ جنگجو ڈھاکہ میں کھل کھیل رہے ہیں۔ قبل ازیں برسلزکو بھی نشانہ بنایا جا چکا ہے۔ حتیٰ کہ افغا ن نثراد شہر ی کے ہا تھوں امریکہ کے ایک کلب میں حملہ ہوا ہے۔ اس لحا ظ سے وطن عزیز ماضی کے مقابلے میں نسبتاً پرامن ہے لیکن یہ دعویٰ کرنا مبنی برحقائق نہیں ہوگا کہ سب اچھا ہے،ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں ۔ حال ہی میں کراچی میں عالمی شہرت یافتہ قوال امجد صابری کا بہیمانہ قتل اور چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ کے صاحبزادے کا اغوا اس امر کی طرف اشارہ کرتے ہیںکہ دہشت گرد زخمی سانپ کی طر ح پھنکار رہے ہیں۔ ایسے حالات میں ان عناصر کو نہ توکھلی چھٹی دی جا سکتی ہے اور نہ ہی ان سے نرم رویہ اختیار کیا جا سکتا ہے۔
مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز چند روز قبل جب وزیر خزانہ اسحق ڈار اور وزیر دفاع خواجہ آصف کی معیت میں جی ایچ کیو میں فوجی قیادت سے ملے تھے تو باخبر حلقوں کے مطابق اس مو ضوع پر بھی تبادلہ خیال ہوا تھا کہ وہ جہادی جو افغانستان سے مذاکرات کے حق میں نہیں اور یہاں بیٹھ کر گڑ بڑ پھیلا رہے ہیں، انھیں افغا نستان واپس بھیج دینا چاہیے۔ جنرل راحیل شریف کئی مرتبہ کہہ چکے ہیںکہ پاک فو ج بلا تخصیص اور بلاکم وکاست ہر قسم کے دہشت گردوںکے خلا ف کارروائی کر رہی ہے۔ یقیناً ایسا ہی ہوگا لیکن امر یکہ اور بھارت تسلسل سے الزام ترا شی کر رہے ہیں کہ ابھی اس پالیسی پر عمل درآمد نہیں ہو رہا۔ 'جادو وہ جو سر چڑ ھ کر بولے‘ حکومت پاکستان کو ایسی دو ٹوک پالیسی اختیار کرنا چاہیے کہ کو ئی بھی انگشت نمائی نہ کرسکے۔ داعش کا اژدھا بڑ ی تیز ی سے سر اٹھا رہا ہے۔ اس سے پہلے کہ وہ بھارت اور پاکستان میں نہتے شہریوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنائے افغانستان، بھارت ،پاکستان ، بنگلہ دیش اور سری لنکا کو مل بیٹھ کر اس ضمن میں مر بوط حکمت عملی وضع کر لینی چاہیے۔
تحر یک انصا ف کے چیئرمین عمران خان صاحب کو بھی ہوش کے نا خن لینے چاہئیں،ان پر انگلیاں اٹھ رہی ہیںکہ آخر 30کروڑ روپے کی خطیر رقم خیبر پختونخواکے خزانے سے دارالعلوم حقانیہ کے لیے کیونکر مختص کی گئی۔ بجائے اس کے کہ وہ اپنی غلطی تسلیم کرتے ان کا اصرار ہے کہ وطن عزیز میں وہ مثبت مدرسہ کلچر کو فروغ دے کر انہیں قومی دھارے میں لانا چاہتے ہیں۔'طالبان خان ‘ کا یہ مو قف بودا ہے، اسے کوئی ہوش مند شخص تسلیم کر نے کو تیار نہیں ہوگا۔