پاکستان میں امریکہ کے سفیر ڈیوڈ ہیل نے یقین دہانی کرادی ہے کہ امریکہ پاکستان میں پھلنے پھولنے والی جمہوریت کا زبردست حامی ہے۔ امر یکی سفیر کے اس بیان کے بعد جہاں ان عناصر کی ڈھارس بند ھی ہو گی جو ہر وقت اس خو ف میں مبتلا رہتے ہیں کہ جمہوریت پر شب خون مارنے کی بھرپور تیاریاں ہو رہی ہیںوہیں وہ لوگ کچھ مایوس ہوئے ہونگے جو سمجھتے ہیں کہ امریکہ کی رضامندی کے بغیر پاکستان میں پتا بھی نہیں ہلتا لہٰذا ان کو یہ غم ستا ئے جا رہا ہو گا کہ اب تو میاں صاحب کی ستیں خیراں ہیں لیکن وہ یہ سوچ کر دل کو تسلی بھی دے رہے ہونگے کہ اکتوبر 1999ء میں پرویز مشرف کے 'کُو‘سے صرف دوماہ پہلے میاںنواز شریف نے اپنے برادر خورد شہباز شریف کو واشنگٹن روانہ کیا تھا جہاں انھوں نے امریکی سرکار کی طرف سے اس قسم کا بیان دلوایا تھا کہ امریکہ پاکستان میں جمہوریت کی حمایت کرتا ہے۔ پاکستان میں جمہوریت بیچاری ہمیشہ ہی مظلوم رہی ہے۔ نوابزدہ نصر اللہ خان کے ، اللہ انھیں کروٹ کر وٹ جنت عطا فرمائے ، بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ ہر جمہوری حکومت کو توڑنے کے لیے اپوزیشن کا اتحا د بنا نے کے لیے فعال ہو جاتے تھے وہ اکثر کہتے تھے اس جمہو ریت سے تو انگریز کا 1935ء کا ایکٹ بہتر تھا لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ جب بوٹوں کی چاپ تلے جمہوریت کو روندا جاتا تھا تو وہ فوجی آمروں کے خلاف بھی سینہ سپر ہو جاتے تھے اور مارشل لاء کو جنگل کا قانون قرار دیتے تھے۔ لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ انھوں نے 1977ء کے مارشل لاء کے بعد نہ صرف ضیا ء الحق کی کا بینہ میں اپنی جماعت پاکستان جمہوری پارٹی کو شامل کرایا بلکہ بھٹو کی پھانسی کی بھر پور حما یت بھی کی ۔ جب جنرل ضیاء الحق نے بھٹوکی پھانسی کے بعد پاکستان قومی اتحاد کو ٹشوپیپر کی طرح استعمال کرکے پھینک دیا تو نوابزادہ کو یہ احساس ہو گیا کہ انھوں نے غیر جمہوری قوتوں کا ساتھ دے کر فاش غلطی کی ہے۔ اب بھی ہمارے بہت سے دانشور اور شیخ رشید جیسی تانگہ پارٹی کے سر برا ہ اور علامہ پروفیسر ڈاکٹر طاہر القادری جیسے شعلہ نوا اسی کام پر لگے ہو ئے ہیں ۔جہاں تک عمران خان کا تعلق ہے تو وہ ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کر پائے کہ انھوں نے پا رلیمانی جمہوری نظام کا حصہ بننا ہے یا جمہو ریت کا تانابانا بکھیر کر چور دروازے سے ایوان اقتدار میں داخل ہو ناہے ۔
عمران خان 7اگست سے تحر یک چلانے کے لیے سامان باند ھ رہے ہیں۔ 'پاناما گیٹ ‘ کے حوالے سے نواز شریف کی چھٹی کرانے کے لیے اپنی اس جدوجہد کا آغاز وہ تحریک انصاف کے حکومتی گڑھ پشاور سے راولپنڈی تک کر یں گے۔دوسری طرف میاں نواز شریف یہ تاثر دینے کی کو شش کر رہے ہیں کہ وہ ملک کو ترقی کی معراج کی طرف لے جا رہے ہیں جمعہ کو مری میں میراتھن اجلاس میں انھوں نے ملک کے طول وارض میں جا کر تر قیا تی منصوبوں کی نگرا نی کر نے کا فیصلہ کیا ہے گویا ان کے نزدیک سب سے بڑا مسئلہ اگلے انتخابات کی تیاری کر نا ہے جن میں اگر ان کی حکومت مدت پو ری کرتی ہے تو زیادہ سے زیادہ بائیس ماہ رہ گئے ہیںشاید میاں صاحب کو یہ احساس ہی نہیں کہ 'پانامالیکس ‘پر ٹی او آرز اور کمیشن کی تشکیل نہ ہونے سے اپوز یشن کے ہا تھ میں ایک استرا آگیا ہے جس سے وہ ان کی گردن کاٹنے کی پو ری کوشش کر ے گی۔ میاں صاحب کو پارلیمنٹ کے اندر ہی اس مسئلے کا حل نکالنا چاہیے تاکہ جمہو ریت کی دال جو تیوں میں بٹنے سے بچ جائے ۔ہمارے جسد سیاست کی یہ بدقسمتی ہے کہ جیسے ہی کو ئی جمہو ری حکومت تشکیل پا تی ہے اس کی بساط لپیٹنے کے لیے بہت سی قوتیں مجتمع ہو کر اس کی چھٹی کرانے کے درپے ہو جا تی ہیں ۔عمران خان کا 2014ء کاناکام دھرنا یکسر بلا جو از تھا اس سے سیاست میں بد تمیزی اور ہتھ چھٹ رو ئیے کا ایک نیا عنصر داخل ہو گیا ۔اس کے بعد سیاستدانوں کو 'اوئے‘ کہہ کر بلا نا اور سوشل میڈیا میں گالیاں دینے کی روایت پڑ گئی جو اب بھی جا ری ہے۔ اس مو قع پر جی ایچ کیو کی طرف دیکھنے کی پرانی روایت کا اعادہ بھی کیا گیا لیکن اس میںنہ صرف خان صاحب بلکہ طاہر القادری اور شیخ رشید کو بھی سخت مایوسی ہو ئی۔ اب 7اگست کو' سومنات کے مند ر ‘پر دوسرے حملے کی تیا ری ہے اس حوالے سے طاہر القا دری بھی پاکستان پہنچ کر کمر بستہ ہوچکے ہیں اور شیخ رشید نے بڑے معنی خیز انداز میں کہا ہے آ ئند ہ نو ے روز بہت اہم ہیں ۔ آ خر کیوں؟۔غالباً ان لو گوں کو یہ امید ہے کہ آرمی چیف جنرل راحیل شر یف اپنی ریٹا ئر منٹ سے قبل میاں نواز شریف کی چھٹی کرادیں گے بشر طیکہ سڑکوں پر 'ساز گار ماحول ‘پید اکر دیا جا ئے حا لا نکہ فوج جنر ل کیا نی کے دور سے ہی یہ فیصلہ کر چکی ہے کہ گھی انگلی ٹیڑ ھی کیے بغیر نکل سکتا ہے تو کیوں کر حکومت کر نے کے بھاری پتھر کو اٹھا یا جائے، لیکن ڈوبتے کو تکنے کا سہا را تو ہو تا ہی ہے ۔
آزاد کشمیر کے حالیہ انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کی سویپ نے ایک بار پھر شر یف برا دران کی بہتر سیاسی حکمت عملی پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے۔ یہ بات اصولی طور پر درست ہے کہ جو بھی وفاق میں حکمران ہو تا ہے آزاد کشمیر میں حکومت بھی اسی سیاسی جماعت کی ہوتی ہے۔ لیکن اگرکامیابی کا مارجن اتنا زیا دہ ہو کہ وہاں حکمران جماعت پیپلز پارٹی اور تحر یک انصاف کو بھرپور جد وجہد کے بعد بھی دو،دو، تین تین نشستیں ملیں تو یہ ان کے لیے یقینا لمحہ فکر یہ ہے۔ لیکن لگتا ایسے ہے کہ خان صاحب بڑی ڈھٹائی کے ساتھ اس بد تر ین شکست کو پی گئے ہیں۔ ان کے برعکس بلاول بھٹو نے آزاد کشمیر میں دھاندلی کی نیم دلا نہ شکا یت کرنے کے باوجود اپنی پارٹی کی سیاسی پوزیشن کو مستحکم کر نے کا فیصلہ کیا ہے۔ جس کا اظہا ر سند ھ میں ایک نسبتاً روشن خیال اور پڑ ھے لکھے وزیر اعلیٰ سید مرا د علی شاہ کی نامزدگی اور انتخاب ہے ۔لگتا ہے کہ آ ہستہ آہستہ بلاول پارٹی کو تنظیمی اور سیاسی طور پر پرانے مقام پر لا نے کی کوشش کریں گے اس ضمن میں ان کے لیے سب سے بڑا امتحان پنجاب ہو گا جہاں ان کے اباجان کے دور حکومت میں 2013ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کا دھڑن تختہ ہو گیا تھا ۔اس کے برعکس خان صاحب کی پا رٹی اندرونی طور پر انتشار اور خلفشار کا شکا ر ہے۔ حال ہی میں مو صوف نے آئندہ عام انتخابات کے تناظر میںپنجاب کو چار زونز میں تقسیم کیا ہے ان کی قیادت کے لیے جن شخصیات کو چنا گیا ہے ان میں سے علیم خان، اسحق خاکوانی اور چوہدری اشفاق ماضی میںمسلم لیگ (ق) کا حصہ تھے ان میں سے بعض اس قا بل بھی نہیں کہ اپنے حلقوں سے بلدیاتی امید وار جتوا سکیں، یہ خان صاحب کو الیکشن کیا جتوائیںگے ۔ تحریک انصاف کے ایک بانی رکن عبدالقیوم کندی کا، جو ای میلزاور مضامین کے ذریعے اکثر اپنی رائے کا اظہا ر کر تے رہتے ہیں ، کہنا ہے کہ ان کی جماعت پر تحر یک انصاف (کیو ) نے قبضہ کر لیا ہے ،عملی طور پر صورتحال ایسی ہی ہے ۔چوہدری سرورجو بڑے طمطراق کے ساتھ تحر یک انصاف میں شامل ہوئے تھے مایوس ہو کر کئی ما ہ سے لندن میں بیٹھے ہوئے ہیں، شنید ہے کہ وہ جلد واپس لوٹ رہے ہیں۔دوسری طرف شاہ محمود قریشی امریکہ میں ہیں لیکن جنو بی پنجاب جہا ں قر یباًپچاس سے زیا دہ قومی اسمبلی کی سیٹیں ہیں وہاں کا فیصلہ قر یشی صاحب کی عدم مو جو دگی میں ہی کر لیا گیا ہے۔ یہ مقام افسوس ہی ہو گا کہ اس وقت تحر یک انصاف ،مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی کے بعد ملک کی تیسر ی بڑی سیاسی جماعت ہے اور خان صاحب سے زیا دہ پر رونق اور بھر پور جلسے شاید ہی کو ئی دوسراسیاست دان کر سکتاہولیکن وزیر اعظم بننا تو کجا ان حالات میں تو شاید ان کی جما عت 2013ء میں جیتی گئی نشستیں بھی حاصل نہ کر پا ئے ۔یہ جمہو ریت کے لیے بہت بڑ ی ٹریجڈی ہو گی۔ جہاں تک میاں صاحب کا تعلق ہے انھیں مغل اعظم کے بجائے وزیر اعظم بننے کے لیے محض تر قیاتی منصوبوںکی نگرانی کے علاوہ کچھ بنیا دی فیصلے بھی کر نے چاہئیں انھیں 'پاناماگیٹ ‘ کے بارے میں اپنی شفافیت کا سرٹیفکیٹ حا صل کر نے کے لیے پارلیمنٹ کے علاوہ عوام کو بھی مطمئن کر نے کی سعی کر نی چاہیے ورنہ گھر چلے جاناچاہیے۔