آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے ایک بار پھر اس عزم مصمم کا اظہار کیا ہے کہ دہشتگردوں اور ان کے مدد گاروں کا آخری حد تک پیچھا کیا جائے گا اور انہیں بھاگنے نہیں دینگے۔ ان کے مطابق دہشتگردوں اور ان کے مددگاروں پر زمین تنگ ہو چکی ہے،ملک میں نسبتاً امن اور سکون فوج اور عوام کی قربانیوں سے ممکن ہوا ہے۔یقیناً جنرل صاحب درست فرماتے ہیں، جون 2014ء میں شروع ہونے والے 'ضرب عضب‘ اور اس سے پہلے کراچی آپریشن نے دہشتگردوں کی طرف سے پاکستان کے چہرے پر لگائے گئے خون کے دھبے بہت حد تک صاف کر دئیے ہیں۔ اگرچہ دہشتگردی کے واقعات اور کراچی میںٹارگٹ کلنگ اب بھی ہو رہی ہے لیکن اس تواتر کے ساتھ نہیں‘ جیسے پہلے معمول ہی بن گیا تھا ۔پشاور آرمی پبلک سکول اور چارسدہ یونیورسٹی جیسے سانحات ہو رہے ہیں‘ نہ کراچی میں بعض سیاسی جماعتوں کے کرمنل ونگز یا مذہب کے نام پر دہشتگردی کرنے والے لوگ اب پہلے کی طرح دندناتے پھر رہے ہیں، اس کے ساتھ بڑی حد تک عروس البلاد کی روشنیاں بحال ہو چکی ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سانپ کچلا جا چکا ہے بلکہ دہشتگردی کا سانپ محض زخمی ہوا ہے اور بری طرح پھنکار رہا ہے۔ افواج پاکستان اور قانون و امن قائم کرنے والے اداروں کی کاوشوں اور بہتر انٹیلی جنس کے ذریعے دہشتگردی کے واقعات پر بڑی حد تک قابو تو پا لیا گیا ہے لیکن اب بھی وطن عزیز میں ملک دشمن عناصر گھناؤنا کھیل کھیلنے کے درپے ہیں اس لئے قوم کو بنیان مرصوص بننے کی ضرورت ہے کیونکہ دہشتگرد ہماری معمولی سی بھول چوک سے فائدہ اٹھا کر نہتے شہریوں کو نشانہ بنانے کی بزدلانہ واردات کر سکتے ہیں۔
2003ء سے اب تک اکیس ہزار سویلین اور سکیورٹی اداروں کے تقریباً ساڑھے چھ ہزار اہلکار دہشتگردوں کے ہاتھوں جام شہادت نوش کر چکے ہیں۔2011ء سے 2013ء تک کا عرصہ اس حوالے سے بدترین تھا۔ 2012ء اور 2013ء میں تین ہزار شہری دہشتگردوں کا نشانہ بنے لیکن جاری سال کے دوران جولائی تک ان کی تعداد کم ہو کر 325 رہ گئی ہے۔ان اعدادوشمار سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان شاید وہ واحد ملک ہے جس نے دہشتگردوں کو ناکوں چنے چبوا کر سویلین حکومت کی رٹ کو بحال کیا ہے اور یہ امریکی فوجیوں ،اقوام متحدہ کی کسی فورس یا محض ڈرون حملوں کے ذریعے نہیں ہوا۔اس حوالے سے ہماری عسکری قیادت کو پورا کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت کو دہشتگردی کے گرداب سے نکال لیا۔ یقیناً سویلین قیادت بھی کریڈٹ کی مستحق ہے کہ اس نے قانون اور امن عامہ قائم کرنے والے اداروں کی دامے درمے سخنے مدد کی‘ ان کے راستے میں رکاوٹیں نہیں ڈالیں اور ملک کے اندر عمومی طور پر قومی اتفاق رائے قائم کیا،اسی لئے جنرل راحیل شریف نے شندور میں جو کچھ کہا، سچ کہا۔ جب ہم مجموعی طور پر دنیا اور بالخصوص اسلامی ملکوں میں دہشتگردی کی حالیہ لہر کی طرف دیکھتے ہیں تو ہمیں پاکستان تمام تر مشکلات کے باوجود بہتر صورتحال میں نظر آتا ہے۔
مغرب اس وقت داعش کی بھرپور قسم کی یلغار کا شکار ہے، اس ضمن میں یورپی ممالک میں جولائی کا مہینہ انتہائی خونریز تھا،آئی ایس آئی ایس نے اس دوران فرانس،جرمنی،سپین اور امریکہ میں خون کی ہولی کھیلی ہے۔جہاں تک عراق، شام، لیبیا اور افغانستان کا تعلق ہے‘ ان کو تو امریکہ نے اپنے مخصوص ایجنڈے پر عمل پیرا ہوتے ہوئے تباہ کر دیا ہے۔ صدام حسین کا عراق اور کرنل قذافی کا لیبیا امریکہ کو کچھ نہیں کہہ رہا تھا لیکن ان مملکتوں میں خانہ جنگی امریکی فوجوں کی براہ راست مداخلت کا شاخسانہ ہے۔اسی طرح بشارالاسد آمر مطلق تو ضرور ہونگے لیکن وہ شام میں کوئی ایٹم بم بنا رہے تھے اور نہ کوئی زہریلی گیس جس کا ان پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ اس سے امریکی مفادات کو نقصان پہنچنا تھا۔ اسرائیل کی آشیرباد سے مغرب کی شام پر چڑھائی کے نتیجے میں داعش معرض وجود میں آئی۔ اب جوں جوں عراق اور شام میں داعش کے زیر قبضہ علاقوں کوآزاد کرایا جا رہا ہے توں توں داعش کی مغرب میں دہشتگردی بڑھتی جا رہی ہے۔ ترکی کا معاملہ بھی کچھ عجیب ہے، طیب اردوان کی دوغلی پالیسیوں کے تحت ایک طرف تو نیٹو کا رکن ہونے کے حوالے سے داعش پر حملہ آور ہونے والے امریکی طیاروں کو اڈے فراہم کئے گئے لیکن درپردہ داعش کی مدد بھی کی گئی‘ حتیٰ کہ اقتدار اور طاقت کے نشے میں طیب اردوان نے روس کے ایک جنگی جہاز جو داعش کے خلاف استعمال ہو رہا تھا کو مار گرایا۔اب ترکی دہشتگردی اور ناکام فوجی بغاوت کے بعد بدترین خلفشار کا شکار ہے۔
اس تنا ظر میںدیکھا جا ئے تو جہاں ایک طرف ہمیں شکر اداکرنا چاہیے کہ پاکستان دہشت گردی کے حوالے سے نفسا نفسی کا شکا ر نہیں ہے وہاں ہمیں آئندہ کی فکر بھی کر نی چاہیے۔ہمارے حکمران اور عسکر ی طبقے پاکستان میں داعش کے وجو د سے مسلسل انکاری ہیں لیکن عسکری انٹیلی جنس کے بعض تجزیہ کار جو خاصے باخبر ہیں‘ نے مجھے بتایا کہ یہ طرز عمل بالکل شتر مرغ کی طر ح ہے۔ ان کے مطابق نائن الیون سے پہلے پاکستان'القا عدہ ‘کے وجو د کو بھی تسلیم نہیں کر تا تھا۔یہ الگ ستم ظریفی ہے کہ القا عدہ کا سر برا ہ اسامہ بن لا دن دس سال بعدامر یکی کما نڈوز کے ہاتھوں ایبٹ آباد میں ہی مارا گیا۔ اب بھی یہ ورد کر نے کے بجا ئے کہ سب ٹھیک ہے اور دہشت گردی پر قا بو پا لیا گیا ہے ہمیں اپنی عسکر ی قوت ،انٹیلی جنس اور ویجی لینس کو بڑ ھانے کی ضرورت ہے۔آپر یشن 'ضر ب عضب‘کے حوالے سے جو نیشنل ایکشن پلان بنا تھا اس پر اب بھی عمل درآمد نہیں ہو رہا اور اس حوالے سے ہمارے سویلین ادارے زیادہ قصوروار ہیں۔ حال ہی میں نیپ (NAP) سست رفتاری پر فوج نے تشویش کا اظہا ر بھی کیا ہے۔اس حوالے سے گز شتہ روز وزیر اعظم نے اعلیٰ سطح کا اجلاس بھی طلب کیا تھا۔ چوہدری نثار علی خان نے اجلاس کے بعد پر یس بر یفنگ میں بڑی مہا رت کے ساتھ نیپ پرعمل درآمد نہ ہو نے کا سارا ملبہ صوبوں پر ڈال دیا۔نیشنل ایکشن پلان کے تحت بیانیہ بد لنے کی بات محض فیشن کے طور پر توکی جا تی رہی لیکن عملی طور پر حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔ اسی بنا پر اب بھی آپ کا پالاایسے حضرات سے ضرور پڑتا ہو گا جو اصرار کرتے ہیںکہ مسلمان تو دہشت گرد ہو ہی نہیں سکتے بلکہ یہ سب 'را‘ کے ایجنٹ ہیں۔
ادھر تحر یک انصاف کی خیبر پختونخوا کی حکومت دارالعلوم حقا نیہ کے لیے کثیر رقم مختص کر نے پرذرا بھی معذرت خواہ نہیں بلکہ ان کاکہنا ہے کہ وہ بڑا نیک کام کر رہے ہیں۔ جب تک وطن عزیز میں جدید علوم کی تعلیم عام نہیں کی جاتی اور غریب تک اس کی رسائی نہیں ہوتی۔ تعلیم دینے کے نام پر قائم کردہ متعدد مدرسے دہشت گردی کی فیکٹریاں بنے رہیں گے۔ اسی طر ح مو ٹر ویز ،ہا ئی ویز ، میٹرو ٹرینیں اور بجلی فرا ہم کر نے سے حکمران شاید الیکشن تو جیت جا ئیں لیکن خدشہ ہے کہ خدانخواستہ کہیں پاکستان کی جنگ نہ ہار جائیں۔