ابھی آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے اس بیان کہ '' مودی ہو، 'را‘ہو یا کوئی اور، دشمن کی چالوں کو سمجھ چکے ہیں، دہشتگردی کے طوفان پرجس طرح ہم نے قابو پایا ایسا کوئی اور نہیں کرسکا ‘‘ کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ دہشتگردوں نے خیبر پختونخوا میں کارروائی کر دی جس میںمردان کچہری میں خود کُش حملے میں قریباً ایک درجن کے لگ بھگ وکلا سمیت شہریوں نے جام شہادت نوش کیا اور بیسیوں زخمی ہوگئے جبکہ پشاور کرسچن کالونی میں خودکُش حملہ آور فورسز سے مقابلے میں مارے گئے۔تحریک طالبان پاکستان سے منسلک تنظیم ـ 'جمعیت الاحرار‘ نے پشاور کی کرسچن کالونی اور مردان کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ پر حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔دہشتگرد تنظیم کا کہنا ہے کہ انہوں نے یہ کارروائی پاک فوج کے دہشتگردی ختم کرنے کے دعوے کے جواب میں کی ہے۔ 'ضرب عضب‘ کے دوران یقیناً فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے عظیم قربانیاں دی ہیں اور خاصی حد تک وطن عزیز کو دہشتگردی سے پاک بھی کیا ہے لیکن جیسا کہ خیبر پختونخوا میں ہونیوالے بزدلانہ حملوں سے واضح ہے ، ابھی اس میدان میں بہت کچھ کرنا باقی ہے۔یہ کہنا کہ دہشتگردوں کی دُم بھی جلد کاٹ دی جائیگی، ضرورت سے زیادہ خوش فہمی کا اظہار ہے۔ہماری سکیورٹی فورسز دہشتگردی کے خاتمے کیلئے انتہائی مستعد ہیں اور اسی بنا پر پشاور کی کرسچن کالونی میں دہشتگردوں کا حملہ ناکام بنا دیا گیا۔کوئٹہ کے بعد مردان میں ایک ماہ کی مدت کے دوران دہشت گردی کے دو بڑے حملوں سے ایک بات واضح ہے کہ دہشتگرد قانون اور انصاف کی بات کرنے والوں کے درپے ہیں، اسی لئے دونوں حملے وکلا پر کئے گئے۔
دہشتگردوں کی تازہ یلغار کے ساتھ ساتھ پاک فوج کا کومبنگ آپریشن جاری ہے۔ڈی جی، آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ نے دہشتگردوں کے خلاف کارروائیوں میں پیش رفت اپنی تفصیلی پریس کانفرنس میں بیان کی تھی۔ان کے مطابق پنجاب میں بھی رینجرز کو اختیارات دینے کے بارے میں پیش رفت ہو رہی ہے۔لیکن اصل میں پنجاب حکومت صوبے میں رینجرز کی کارروائی کیخلاف مسلسل مزاحمت کر رہی ہے۔خادم اعلیٰ شہباز شریف اور وزیر داخلہ رانا ثنا ء اللہ کا دعویٰ ہے کہ پولیس صوبے میں بڑے موثر انداز سے دہشتگردوں کی سرکوبی کر رہی ہے ۔تاہم عسکری ذرائع کا اصرار ہے کہ نہ صرف جنوبی پنجاب بلکہ صوبے کے دیگر حصوں میں بھی دہشتگرد اپنے خفیہ ٹھکانوں میں گھات لگائے بیٹھے ہیں۔اس صورتحال سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ نیشنل ایکشن پلان اور اس کے تحت بننے والی اپیکس کمیٹیوں کے باوجود اس کے نکات پر جزوی طور پر ہی عمل درآمد ہو رہا ہے۔ لیکن جہاں بہت سے کام سویلین حکومت کے کرنے کے ہیں ،کچھ کام فوج کے کرنے کے بھی ہیںجن کے بغیر دہشتگردی کے پھنکارتے ہوئے سانپ کو کچلا نہیں جا سکتا۔ 'جمعیت الاحرار ‘کے کلابے یقیناً افغانستان سے ملتے ہیںاور کچھ افغان موبائل سمیں جائے واردات سے ملنا اس بات کا ثبوت ہے کہ افغانستان، پاکستان مخالف دہشتگردوں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔دوسری طرف مودی نے بھارت کے یوم آزادی کے موقع پر یہ سوچا سمجھا پالیسی بیان دے کر کہ وہ بلوچستان اور گلگت بلتستان میں نام نہاد علیحدگی پسندوں کی حمایت کرینگے، کھلم کھلا پاکستان کو للکارا ہے۔میاں نواز شریف تو حسب عادت منہ میں گھنگھنیاں ڈالے بیٹھے ہیں۔ان کے منہ سے بھارت اور مودی حکومت کی ہرزہ سرائیوں پر دوٹوک مذمت کرنے کا ایک لفظ بھی نہیں نکلتا اور یہ فریضہ فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کو ادا کرنا پڑتا ہے۔
ابھی چند روز قبل ہی انہوں نے گلگت میں سی پیک کے حوالے سے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے خاصے جارحانہ انداز میں بھارت کو وارننگ دی کہ دشمن کی سب چالیں سمجھ چکے ہیں،اصولی طور پر ایسی باتیں کرنا سویلین حکومت کا کام ہے۔ ادھربھارت کی وزیر خارجہ سشما سوراج نے تو واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ پاکستان سے اس وقت تک مذاکرات نہیں ہونگے جب تک وہ پٹھان کوٹ حملے کی تحقیقات میں تعاون نہیں کرتا۔اس موقع پر امریکی ہم منصب جان کیری ان کی پشت پر کھڑے تھے۔سشما نے یہ بھی بھاشن دیا کہ پاکستان کو جیش محمد،جماعت الدعوۃ اور ڈی کمپنی جیسی دہشتگرد تنظیموں کو اس کی سرزمین سے مبینہ سرگرمیوں کو روکنا ہو گا۔دوسری طرف پاکستان اور چین کیلئے بھارت اور امریکہ کے درمیان ہونے والے دفاعی معاہدے 'لاجسٹکس ایکسچینج میمورنڈم آف ایگریمنٹ‘(LEMOA ) باعث تشویش ہونا چاہیے۔اس معاہدے کے تحت دونوں ممالک کو ایک دوسرے کے فوجی اڈوں پر دسترس حاصل ہو گی اور اس کا مقصدایک دوسرے کے تعاون سے دہشتگردی کا خاتمہ کرنا ہے۔امریکی مجلہ 'FORBES‘ تو کہہ رہا ہے کہ اس معاہدے پر پاکستان اور چین کو تشویش ہونی چاہیے لیکن ہماری وزارت خارجہ کے ترجمان نفیس زکریا نے اس پر ردعمل کے طور پر انتہائی پُھس پُھسا بیان دیتے ہوئے محض اس امیدِ موہوم کا اظہار کیا ہے کہ امریکہ اور بھارت کے درمیان ہونے والے معاہدے سے جنوبی ایشیا میں طاقت کا توازن خراب نہیں ہوگا۔بھارت اور امریکہ کے بارے میں اس معذرت خواہانہ رویے کو ہمارے دشمن ہماری کمزوری ہی سمجھیں گے۔ادھر ہماری سویلین حکومت بھی اس ضمن میں اپنے انتہائی کمزور موقف پر نظر ثانی کرنے کو تیار نظر نہیں آتی ۔کشمیر کاز کیلئے 20 سے زائدپارلیمنٹرین کو سیر سپاٹاکرانے کا کیا فائدہ؟ جبکہ ہماری کشمیر پالیسی واضح ہی نہیں۔اس تناظر میں عسکری ادارے اور سویلین حکومت کے کارندے ہر وقت یہ رونا روتے رہتے ہیں کہ 'را‘ اور افغان انٹیلی جنس کے گٹھ جوڑ سے پاکستان میں دہشتگردی کی کارروائیاں کی جا رہی ہیں اور اس امر کے باوجود کہ پاک فوج کے سربراہ مسلسل یہ کہے جا رہے ہیں کہ ہم اچھے اور برے دہشتگردوں میں کوئی تمیز روا نہیں رکھتے پھر بھی افغانستان اور بھارت کی طرف سے پاکستان پر الزام تراشی کی بوچھاڑ کی جاتی ہے اور امریکہ بھی اس کورس میں شامل ہے۔ اس دعوے کہ ہم تو خود دہشتگردی کا شکار ہیں،ان ممالک میں دہشتگردی کیونکر کرائیں گے،ہمارے دوست بھی اس موقف کو ماننے کیلئے تیار نہیں ہیں۔کشمیر میں تازہ تحریک اور اسے کچلنے کیلئے وہاں متعین پانچ لاکھ بھارتی فوج کے مظالم سے جو صورتحال بنی ہے،پاکستان یقیناً اس میں ملوث نہیں ہے۔
بعض بھارتی سیاستدان،جرنیل حتیٰ کہ فاروق عبداللہ کے بیٹے عمر عبداللہ بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ مسئلے کا سیاسی حل نکالا جائے لیکن مودی سرکار ٹس سے مس ہونے کو تیار نہیں۔اگرفی ا لحال بھارت، پاکستان کے ساتھ مذاکرات سے انکاری ہے تو دہشتگردی کے خاتمے کیلئے ہمیں افغانستان کو انگیج کرنا چاہیے اور اس حوالے سے ایک دوسرے کے ممالک میں گھات لگائے ہوئے دہشتگردوں کی بھرپور سرکوبی کرنی چاہیے۔افغانستان کو بھی پاکستان کے خلاف پراکسی وار کو ختم کرنا ہوگا۔لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ نے افغان بارڈر پر گیٹ لگانے اور اس کی مانیٹرنگ کیلئے فرنٹیئر کانسٹیبلری کی ایک فورس تیار کرنے کا عندیہ بھی دیا ہے،یہ ایک اچھا اقدام ہے لیکن محض میکانکی اقدام سے دہشتگردی ختم نہیں ہو گی، اس کیلئے سیاسی،انتظامی اور سفارتی اقدامات کرنا ہونگے۔میاں نواز شریف کی ساری توجہ سڑکوں، پلوں اور پاور پراجیکٹس پر ہے اور خارجہ امور کو ثانوی حیثیت حاصل ہے، لہٰذا انہیں چاہیے کہ وہ خارجہ امور کی اہل شخصیت کو وزیر خارجہ مقرر کریںورنہ حکمران جماعت ایسی سرگوشیاں نہ کرے کہ فوج نے خارجہ امور چلانے شروع کر دئیے ہیں۔