شایدمیاں نواز شر یف معاملات کی سنگینی کو بھانپ گئے ہیںاور انھوں نے ایک بار پھر مخصوص نورتنوں کے علا وہ اپنے ساتھیوںاور اپوزیشن سے وسیع تر رابطے شروع کر دیے ہیں۔ انھیں غالباً تھو ڑا بہت یہ احساس بھی ہو گیا ہے کہ فوج اور اپوزیشن سے بیک وقت لڑ ائی کے نتیجے میں حالات مزید خراب ہوئے تو ان کا اقتدار قبل از وقت بھی ختم ہوسکتا ہے۔خواجہ آ صف کی لن ترا نیا ں اوردانیال عزیزکی گالی گلو چ جلتی پر تیل کاکام کر رہی ہے ۔خو اجہ آصف کے بارے میں تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ مشکل وقت میں میاں نواز شر یف کے ساتھ کھڑے رہے ہیں،تاہم چو ہدری انورعزیز کے برخوردار تو پرویز مشرف دور میں اسی انداز اور شد ومد سے میاںنواز شریف اور شہبازشریف کو گالیاں دیتے تھے جس جوش سے وہ آج کل عمران خان کو لتاڑ رہے ہیں۔میاں نواز شریف اور ان کے برادر خورد کا یہ وتیرہ رہا تھا کہ وہ عمران خان کانام لیے بغیر ان کو ہلکا پھلکا رگڑا لگاتے تھے گویا کہ وہ خود تو گالی گلوچ کی سیاست سے بالا تر رہے لیکن یہ کام اپنے نائبین پر چھوڑ رکھا تھا۔ لیکن حال ہی میں دونوں بھائیوںنے پارٹی کے مرکزی اور صوبائی صدر منتخب ہو نے کے بعد اپنی تقاریر میں خان صاحب اور ان کے سیاسی ساتھیوںکو خوب رگیدا۔لیکن اصل تڑکا میاں صاحب کے سمدھی اور عملاً نائب وزیر اعظم محترم اسحق ڈار نے لگایا ہے۔انھوں نے عمران خان کو للکارتے ہو ئے کہا کہ قسمت میں اقتدار نہیں تو مت جلو سڑو۔ان کے مطابق کنٹینر پر چڑ ھنے والوں کوملک کی تر قی ہضم نہیں ہو رہی۔
یہ انوکھی منطق ہے کہ جو لوگ حکومت کے خلا ف صف آرا ہوں، وہ وطن عزیز میں ترقی اور خوشحالی کے دشمن ہیں۔ اس بودی دلیل کو اگر سچ مان لیا جائے تو انگریز دور میں آزادی کا نعر ہ لگا نے والے بھی ترقی دشمنی کے ناتے غدار کہلائے جا سکتے تھے کیو نکہ انگر یز بہادرنے برصغیر میں سڑکوں،ڈیموں، آ بپاشی، ریلوے جیسے انفراسڑکچر اور نظام حکومت کا جو جال بچھایا،شر یف برادران اس کا عشر عشیر بھی نہ کر پائیںگے۔ مو جودہ حکومت نے اب تک کو ن سی دودھ اور شہد کی نہریں بہا دی ہیں جن سے
مخالف جلیںسڑ یں؟ اس کا مطلب یہ نہیں کہ عمران خان کے موجودہ طرز سیاست سے اتفاق کر لیا جائے۔ عدالت عظمیٰ نے خان صاحب اور ان کے سا تھیوں کی درخواستوں پر 'پاناما لیکس ‘ کیس کی سماعت کے لیے یکم نومبرکی تاریخ مقرر کر دی ہے۔ عین اس سے اگلے روز تحر یک انصاف اسلام آباد شٹ ڈاؤن کرنے کا پروگرام بنائے بیٹھی ہے۔اس روز اسلام آباد میں عجیب مضحکہ خیز صورتحال ہوگی۔ ایک طرف تو خان صاحب کی یلغار کو روکنے کے لیے ہر طرف کنٹینر وں،پو لیس اور قانون نافذ کر نے والے اداروں کے اہلکا روں کا دور دورہ ہوگا ، شہر یوں اور ٹرانسپورٹ کی آمدورفت پر بھی قدغن ہوگی اور دوسری جانب اس ماحول میں سپر یم کورٹ 'پانامالیکس‘ کا کیس سنے گی۔خان صاحب کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ آیا وہ سڑکوں پر 'پانامالیکس‘کا فیصلہ چاہتے ہیں یا عدالت اور پارلیمنٹ کے ذریعے! دونوں کا ساتھ ساتھ چلنا مشکل نظر آتا ہے لیکن موصوف بضد ہیں کہ وہ ہر حا ل میں شٹ ڈاؤن کر یںگے۔
خان صاحب اور ان کے حواریوں کی میاں نواز شریف کو غیر جمہوری طریقوں سے نکالنے کے لیے جلد بازی قابل فہم ہے۔ غالباً انھیں ان کے بعض مشیر اسٹیبلشمنٹ کے قریب ہونے کے ناتے یہ سبق پڑھا رہے ہیں کہ میاں نو از شریف کے اقتدارکی گرتی ہوئی دیوارکو دوچار دھکے دینے کا اس سے بہتر کوئی ٹائم نہیں ہے، اب دیر ہوگئی تو بات آئی گئی ہو جائے گی کیونکہ فوج کے موجودہ سربراہ جنرل راحیل شریف ایک ماہ بعد ریٹائر ہو نے والے ہیں،جب تک ان کا جانشین خود کو مستحکم کر پائے گا، دیر ہو چکی ہوگی۔ اس منطق کی رو شنی میں تحریک انصاف کی قیادت کو یہ احساس ہے کہ اگر2018ء میں عام انتخابات وقت کے مطابق ہوئے تو موجودہ سیاسی اور انتخا بی کلچر میں میاں نواز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ(ن) کو پنجاب میں ہرانا ناممکن ہوگا کیونکہ حلقہ جاتی سیاست کے حوالے سے اس کی سیاسی گرفت بہت مضبوط ہے اور گز شتہ تین برسوں میں ہو نے والے ضمنی انتخابات میں قریباً تمام حلقوں میں پی ٹی آئی کو شکست اس حقیقت کا بین ثبوت ہے۔لہٰذا بہترین نسخہ یہی ہے کہ اسلام آباد میں اتنی گڑ بڑ مچائی جائے کہ ف ج نہ چاہتے ہوئے بھی اس حد تک میدان میںآجائے کہ جنرل راحیل شریف، میاں نواز شریف سے استعفیٰ مانگ لیں۔ کڑے اور بے لاگ احتساب کے لیے ایک عبوری حکومت تشکیل دے دی جا ئے۔ اسی امید پر بعض سیاستدانوں نے اپنی اچکنیں بھی استری کرانا شر وع کر دی ہیں ۔ یہ عبوری حکومت جب شریف فیملی، الطاف اینڈ کمپنی،زرداری اور چوہدری برادران جیسے سیاستدانوں کا احتساب مکمل کرے گی تو پھر خان صاحب کو وزیر اعظم بننے سے کو ئی نہیںرو ک سکے گا۔ یہ وہی سو چ ہے جو1977ء میں تھی، جب ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف تحریک کے بعد بھٹو اور قومی اتحاد کے درمیان مذاکرات کامیاب نہیں ہو پائے تھے کیونکہ در پردہ جنرل ضیاء الحق اور ان کا سازشی ٹولہ پاکستان قومی اتحاد (PNA)سے ساز بازکر رہا تھا۔ بالآخر بھٹو کی چھٹی کر ادی گئی اورجنر ل ضیاء الحق نے پاکستان کی مقبول ترین جماعت کے سربراہ کو پھانسی دینے کے فورا ًبعد قومی اتحاد کے نمائندوںکو جو اس کی حکومت میں شامل تھے، ٹھڈ ے مارکر باہر نکال دیا تھا اور11برس تک بلا شرکت غیرے اسلام کے نام پر اس ملک پر حکمرانی کی تھی۔ مقام شکر ہے کہ جنرل راحیل شریف، ضیاء الحق نہیں ہیں اور نہ ہی عمران خان قومی اتحاد کے لیڈروں جیسے۔ آ ج کا دور بھی مختلف ہے جمہوریت اور جمہوری ادارے کسی حد تک کام کر رہے ہیں اور جرنیلوںکو بھی غالباً یہ احساس ہو چکا ہے کہ براہ راست حکمرانی ان کے بس کا رو گ نہیں۔ ماضی میں فوجی سر براہوں نے کر پشن کے الزامات کے تحت حکومتوں کوگھر بھیجا لیکن جوں جوں دوا کی مرض بڑ ھتا گیا اور اس سے بڑی ستم ظریفی کیا ہو سکتی ہے کہ کرپشن کا صفایا کر نے کے لیے جمہوریت کو بوٹوں تلے روندا جاتا تھا لیکن انہی کرپٹ سیاستدانوں کو ساتھ ملاکر اقتدارکو دوام بخشا جاتا رہا۔اس صورتحال میں عمران خان کو ٹھنڈی کر کے کھانی چاہیے۔ یقیناً وہ ملک کے مقبول ترین لیڈر ہیں، ان سے بڑ ے جلسے اور کوئی نہیں کر سکتا۔انھیں سڑکوں کی سیاست کے بجائے تنظیمی اور انتخا بی سیاست پر اپنا زور صرف کرنا چاہیے۔
موجودہ نظام تمام تر خرابیوں کے باوجود ایک جمہوری سسٹم ہے،انھیںصدق دل سے سسٹم میں رہ کر چلنا چاہیے،مذاکرات کی ٹیبل پر آنا چاہیے۔عدلیہ اور پارلیمنٹ میں اپنی جد وجہد کو جا ری رکھنا چاہیے۔ لیکن بنیادی ذمہ داری میاںنواز شریف پر عائد ہوتی ہے کہ وہ 'پانامالیکس‘کے بارے میں جیسا کہ انھوں نے کہا تھا کہ سب سے پہلے خودکو احتساب کے لیے پیش کرتے ہیںکو حقیقت بنا ئیں،محض یہ تقر یرکر دینا کہ اقتدار آنی جانی چیز ہے اور غر یبوںکے مسائل نظر اندازکر نے والے حکمرانوںکی آخرت میں جوابدہی کے ذکر پر آبد یدہ ہو جانا کافی نہیں ہے۔ میاں نواز شریف نے رحیم یار خان میں قومی صحت کے پر وگرام کے تحت ہیلتھ کارڈز تقسیم کرنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہو ئے کہا: ''غریب آدمی بچوں کا پیٹ پالے گا یا اپنے کسی گھر کے فردکا علاج کرائے گا، یہ سب چیزیں سو چنے والی ہیں خاص طور پر حکمرانوں کے لیے سوچنے والی چیزیں ہیں ۔ آگے جاکراللہ کو سب سے پہلے حکمرانوں نے جواب دینا ہے، فائدے کیلئے اقتدار میں آنے والے سیاستدان اپنی عاقبت خراب کرتے ہیں‘‘۔ فی الحال تو میاں صاحب کو جمہوری اداروںکے آگے صدق دل سے جواب دہ ہونا چاہیے۔ اللہ کے سامنے جوابدہی کا معاملہ یوم حساب کو ہی دیکھا جائے گا۔