لیجئے روس کو بغیر جھگڑا کئے ہی گر م پا نیوں تک رسا ئی مل گئی ۔1979میں جب سوویت یو نین نے افغانستان پر لشکر کشی کی تو اکثر دفا عی ماہر ین کا کہنا تھا کہ وہ افغا نستان کے بعد پاکستان پر حملہ آور ہو کر بحیرہ عرب تک رسائی حا صل کر نا چا ہتا ہے ۔لہٰذا اس کا اگلا ٹا رگٹ پاکستان ہو گا لیکن اس سے پہلے کہ یہ نو بت آ تی امر یکہ نے سوویت یونین کے خلاف لڑنے والے افغان مجا ہد ین کی پاکستان کے ذریعے فو جی ،سیاسی ،مالی اور اخلا قی امداد کر نے کا فیصلہ کر لیا۔سوویت یونین کو 14 اپریل 1988 ء کوجنیوا مذاکرات کے بعد اسی ما ہ فو جی لحا ظ سے بھی منہ کی کھانا پڑ ی ،جس کے بعد اس خطے اور دنیا کا نقشہ ہی بد ل گیا ۔جنر ل ضیا ء الحق نے افغان جنگ کے حوالے سے اپنے اقتدار کو دوام بخشا اور اربوں ڈالر اینٹھے اور اس وقت کے کئی جر نیلو ں کی پشتوں کی بھی قسمت ہی بد ل گئی ۔ 1990ء میں دیوار بر لن مسما ر ہو گئی اور اگلے بر س 25دسمبر1991ء کو سوویت یونین ٹو ٹ گیا اور اس میں شامل ریا ستوں نے آزادی کا اعلان کر دیا ۔ا س وقت کے پاکستانی جرنیل دعویٰ کرتے تھے کہ سو ویت یو نین کو ہم نے توڑا ہے۔ لیفٹیننٹ جنر ل حمید گل 1987ء سے 1989ء تک آئی ایس آ ئی کے سر بر اہ رہے۔ انھوں نے اپنے گھر میں مسما ر شدہ دیوار بر لن کا ایک ٹکڑ ا سجا رکھاتھا اور بڑ ے فخر سے بتا یا کرتے تھے کہ دیو ا ر برلن میں نے تو ڑی ہے حا لا نکہ افغان خفیہ جنگ جس میں بظا ہر کو ئی پاکستانی فو جی افغا نستان میں متعین نہیں تھا کی سٹرٹیجی اور اس پر عمل درآمد کا کریڈٹ یا ڈس کر یڈٹ ان کے پیش رو جنر ل اختر عبد الر حمن کوجا تا ہے ۔شاید اس وقت کی قیا دت یہ سمجھتی ہو کہ پاکستان نے سوویت یو نین اور بھا رت کی ملی بھگت سے 1971ء میں پاکستا ن کو دولخت کرنے کا بد لہ لے لیا ہے۔ افغا نستان سو ویت یونین سے تو آزاد ہو گیا لیکن اس کے بعد خطے میں ہیر وئن وکلا شنکو ف کلچر اور دہشت گر دی کے جو مسائل پید ا ہو ئے ان کے اثرات سے نہ صر ف پاکستان بلکہ پو ری دنیا اب تک نبر د آزما ہو رہی ہے۔یقینامیاں نواز شر یف کا سوویت یونین کی باقیات کو گوادرپو رٹ کے استعمال اور 'سی پیک‘ میں شمولیت کی دعوت دینا ایک تا ریخی قدم ہے۔یہ دعوت اس امر کی بھی غما زی کر تی ہے کہ ان تین دہائیوں میں دنیا کس قدر بدل چکی ہے۔ پاکستان کو اس کا ادراک قدرے دیر سے ہوا ہے لیکن دیرآید درست آید کے مصداق اس کے سوا کو ئی چارہ کار بھی نہیں تھا ۔
عالمی منظر نامے پر چو نکا دینے والی خبر یہ بھی ہے کہ روس اور طالبان کے آ پس میں سفارتی سطح پر رابطے شر وع ہو گئے ہیں ۔تجز یہ کا رو ں کا کہنا ہے کہ یہ دونوں افغا نستان میں' داعش‘ کے وجو د اور بڑ ھتی ہوئی کا رروائیوں سے خا ئف ہیں۔ تا ہم طالبان کا دعو یٰ ہے کہ جو بھی ان کے ملک افغانستان کو غیرملکیوں یعنی امر یکہ کی ما لی اور فو جی امدادکے سہارے قا ئم افغا ن حکومت جس کی رٹ کا بل تک ہی محد ود ہے سے نجا ت دلا ئے گا ،ہم اس کے ساتھ ہیں ۔اس صورتحال سے امر یکہ اوربھا رت کو تشو یش لا حق ہو گی کیو نکہ پاکستان ، روس، چین کے ما بین بڑ ھتے ہو ئے تعاون اور افغا ن طا لبان کے ساتھ افغانستان کے مستقبل کے بارے میں مذاکرات ان کے لیے کوئی اچھی خبر نہیں ہے ۔جہاں تک پاکستان کا روس کی طر ف دوستی اور سٹر ٹیجک تعاون کے لیے ہا تھ بڑ ھانے کا تعلق ہے اس سے خطے میں بنیا دی تبدیلیاں آ سکتی ہیں ۔ روس اور بھا رت کی دوستی خاصی پرانی ہے اور اس کے سٹر ٹیجک ،اقتصادی اور فو جی محرکات بھی ہیں ۔لیکن امر یکہ جو پاکستان کابہت پر انا اتحا دی ہے ،بھارت کوجپھی ڈال سکتا ہے تو ہمیں بھی اپنے آپشن بہت پہلے کھو لنے چاہئیں تھے ۔
میاں نواز شر یف کی حال ہی میں ترکمانستان میں روس اور دیگر ملکوں کو سی پیک میں شمو لیت دینے کے اعلان کی ٹا ئمنگ کئی لحا ظ سے دلچسپ ہے ۔یہ اعلان عین اس وقت کیا گیا جب پاکستان میں سپہ سالا ر کی تبد یلی زیر عمل تھی۔ جنر ل راحیل شر یف کامیا بی سے اپنی مدت ملازمت پو ری کر چکے ہیں اور ان کی جگہ جنرل قمر باجوہ لے رہے ہیں ۔جنر ل را حیل شر یف اپنے پیش رو فو جی سر برا ہوں کے بر عکس عام قسم کے جرنیل نہیں ۔ انھوں نے اپنی کا رکر دگی کی بنا پر پاکستان کی تا ریخ پر گہرے نقوش چھوڑے ہیں اور وہ پاکستان کو دہشت گرد ی کے خلا ف جنگ میں خا صی کامیا بیاںدلا کر رخصت ہوگئے ہیں لیکن یہ کہنا ہے کہ ہم نے جنگ جیت لی ہے ،مبنی برحقا ئق نہیں ہو گا، ابھی عشق کے امتحا ں اور ابھی ہیں۔بلو چستان میں دہشت گر د'داعش ‘کی پشت پنا ہی سے دند نا تے پھر رہے ہیں اور حا لیہ تین ما ہ میں دہشت گرد ی کے تین بڑ ے واقعات ہو ئے جن کا ابھی تک سر ا بھی نہیں مل پایا ۔ فو جی اور سو یلین حکمران مسلسل یہ رٹ لگا تے رہے ہیں کہ پاکستان میں' داعش‘ کا کو ئی وجو د نہیں ہے لیکن بعد ازخر ابی بسیا ر یہ ثابت ہو گیا کہ داعش، بعض طالبان گر وپو ں کی پشت پناہی کر کے دہشت گر دی کی وارداتیں کر رہی ہے ۔ نیز داعش کے تر بیت یافتہ افراد شام کی خانہ جنگی میںاس کے شانہ بشانہ لڑ رہے ہیں اور یہ عجیب طرفہ تماشا ہے کہ مو جو دہ افغان حکومت نے ایسے لوگوں کو پنا ہ دے رکھی ہے جو داعش کا آ ہنی مکابنے ہو ئے ہیں ۔اس تنا ظر میں نئے فوجی سر برا ہ کے سامنے بہت سے چیلنجز ہو نگے ۔
جنر ل را حیل شر یف کے دور میں خا رجہ حکمت عملی کے حوالے سے فو جی قیا دت نے 'ویٹو پا ور‘اپنے پا س رکھی ہوئی تھی ۔ امر یکہ وافغان پالیسی اور بھا رت کے ساتھ تعلقا ت جیسے معاملا ت کے حوالے سے اس کا کلیدی رو ل رہا ۔ میاں نواز شر یف پر یہ الزام اکثر عائد کیا جا تا ہے کہ انھوں نے وزارت خا رجہ کا قلمدان ذاتی مقاصد کے لیے اپنے پاس رکھا ہوا ہے اور مشیر برائے خا رجہ سرتاج عزیز اور خصوصی معاون طارق فاطمی کو آپس میں لڑاتے رہتے ہیں ۔اکثرمطالبہ کیا جاتا ہے کہ پاکستان کو ایک کل وقتی وزیر خا رجہ کی ضرورت ہے اور بلا ول بھٹو نے اس حوالے سے حکومت کو الٹی میٹم بھی دے رکھا ہے ۔ لیکن اگر خا رجہ پالیسی کے فیصلے اسلام آباد کے بجائے راولپنڈی میں ہو تے ہیںمحض وزیر خا رجہ کی تعینا تی سے کیا فر ق پڑے گا؟حا لا نکہ نو از شر یف کے نا قد ین کو تو زور دے کر یہ کہنا چاہیے سو یلین حکومت کو خا رجہ پالیسی پارلیمنٹ اور افواج پاکستان سے مشا ورت کے ساتھ تیا ر کر نی چاہیے ۔ ویسے بھی خا رجہ امو ر میں وزیر اعظم کاکلیدی رو ل ہو تا ہے ۔ گز شتہ روز میر ی بر طانو ی ہا ئی کمشنر کے گھر پر بر طانو ی وزیر خا رجہ بورس جانسن سے ملاقات ہو ئی ۔مو صوف لا ابالی طبیعت کے ما لک اور بر یگزٹ کے پر زور حامی ہیں۔ انھوں نے مجھ سے مذاقاًکہا کہ پاکستان کو بھارت اور افغانستان سے خو شگوار تعلقا ت قائم کر نے چاہئیں لیکن مشتر کہ کرنسی جیسے جھمیلو ں میں نہیں پڑ نا چاہیے ۔ویسے بھی برطانوی خا رجہ حکمت عملی کی تشکیل اور اس پر عمل درآمد وزیر اعظم تھریسامے کاکام ہے اور وزیر خا رجہ محض ونڈو ڈریسنگ ہیں ۔
چند روز قبل سابق صدر آصف زرداری نے بر ادرم حامد میر کے ساتھ انٹر ویو میں انکشاف کیا کہ انھوں نے وزیر اعظم ہا ؤس اور بعدازاں ایوان صدر میں پاکستا ن اور چین کے درمیان زمینی راستے کا نقشہ لگا رکھا تھا اور سی پیک ان کا خواب تھا اور اسی مقصد کے لیے انھوں نے متعد د بار چین کا دورہ بھی کیا۔یقینا ان کی یہ با ت درست ہے، ایک مر تبہ جب بے نظیر بھٹو وزیر اعظم تھیں تو وزیر اعظم ہا ؤس کے بیسمنٹ میں اپنے کمرے میں انھوں نے یہ نقشہ مجھے خوددکھایا تھا لہٰذا اگر میاں نواز شر یف اپنی بر ی بھلی ویژن کے مطابق خا رجہ حکمت عملی کی تشکیل وتا ویل میں دلچسپی لے رہے ہیں تو وہ اپنے پیش رو حکمرانوں سے کو ئی مختلف کام نہیں کر رہے لیکن روس کے ساتھ سلسلہ جنبانی بڑ ھانا وقت کی ضرورت ہے لیکن اس بارے میں ہمیںحقیقت پسند ی سے کام لیناہو گا۔ امر یکہ سے بھی تعلقا ت کو بہتر بنانے کی سعی مسلسل جا ری رہنی چاہیے کیو نکہ وہاں ٹر مپ کے صدر بننے کے بعد ہمارا کام خا صا مشکل ہو جا ئے گا ۔ پاکستا ن اقتصادی اور فو جی ضروریا ت کے حوالے سے اب بھی کا فی حدتک امر یکہ کا مر ہون منت ہے وہ لو گ جنہو ں نے سویلین حکمرانوں کو غدار قر ار دینے کی فیکٹر یا ں لگا رکھی ہیں انھیں بھی اب اپنا دھندہ بند کردیناچاہیے ۔ جنر ل پر ویز مشرف اگر اٹل بہا ری واجپائی سے زبر دستی ہا تھ ملا ئیں تو ان کی حب الو طنی کو بجا طور پر مشکو ک قرار نہیںدیا جا تا لیکن ذوالفقا ر علی بھٹو سے لے کر بینظیربھٹو اور بے نظیر سے لے کر نو از شر یف تک ہم نے کس سویلین حکمران پر غداری کی تہمت نہیں لگائی؟۔ اب مشیر برا ئے خا رجہ سر تا ج عزیز ہا رٹ آف ایشیا کانفر نس میں شر کت کے لیے بھارت جا رہے ہیں ، مخصوص نقطہ نگا ہ رکھنے والے تجز یہ نگار اور ٹیلی ویژن پر ہر وقت جلو ہ افروزرہنے والے ریٹا ئر ڈ فو جی حضرات خوب شو ر مچا رہے ہیںکہ انھیں بھا رت ہر گز نہیں جانا چاہیے ۔یقینا مو دی سرکا ر کو آنکھیں دکھانی چاہئیں لیکن اس کا نفر نس کا تعلق افغا نستان کے مستقبل سے ہے ۔ قبل ازیں بھا رتی وزیر خا رجہ سشماسوراج اسلام آبادمیں ایسی ہی کانفر نس میں شرکت کر چکی ہیں ۔ اگر اس موقع پر بھا رتی لیڈر شپ اور ہما رے مشیر خا رجہ میں کو ئی بات چیت ہو جائے تو کو ئی حر ج نہیں کیو نکہ یہ دونوں ملک جد ید ایٹمی میز ائلوں سے لیس ہیں اور ان کے درمیان جنگ تبا ہی کے سواکچھ نہیں۔