سا نحہ آ رمی پبلک سکول پشاور کی‘ جس میں طلبا واساتذہ سمیت144 افراد دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گئے تھے‘ دوسر ی بر سی سے ایک روز قبل وزیر اعظم نواز شر یف ببانگ دہل دعویٰ کر رہے تھے کہ دہشت گرد ی کو جڑ سے اکھاڑپھینکا ہے اور دہشت گردی ختم کرنا ان کے ایمان کا حصہ ہے۔ اسی دن ہی 8اگست کو ہونے والے سانحہ کو ئٹہ جس میں بلوچستان کے چوٹی کے وکلا کی قر یبا ًساری کھیپ ہی شہید ہو گئی تھی ، کی تحقیقات کے لیے سپر یم کو رٹ کے جسٹس قاضی فا ئز عیسیٰ پر مشتمل کمیشن نے اپنی رپو رٹ جا ری کر دی جس نے ان دعوؤں کا کہ حکومت پو ری سر گر می سے دہشت گر دی کے خلا ف نبر دآزماہے کا بھا نڈا بیچ چوراہے پھوڑ دیا ۔ تحقیقا تی رپو رٹ میں وزیر داخلہ چو ہدری نثا ر علی خان اور ان کی وزارت کے اس ضمن میںاقداما ت جنہیں نر م سے نر م الفا ظ میں نیم دلا نہ کہا جا سکتا کا سختی سے نو ٹس لیا گیاہے ۔رپورٹ کے مطابق چو ہدری نثا ر علی خان بجا ئے اس کے کہ دہشت گر دوں کی بیخ کنی کرتے انھوں نے امسال 25اکتوبر کو تین دہشت گرد تنظیموںکے سر براہ مو لا نا محمد احمد لد ھیانوی سے پنجاب ہا ؤس میں ملا قا ت کی تا کہ ان کے مطالبات پر ہمد ردانہ غور کیا جا سکے ۔کمیشن نے سوال کیا ہے کہ کیا اینٹی ٹیررازم ایکٹ مجر یہ1997 عام لو گوں کے علا وہ حکومتی اور سر کا ری اہلکا روں پر بھی نا فذ ہو تا ہے؟ ۔ کمیشن نے اس بات کابھی سختی سے نو ٹس لیا کہ بلو چستان حکومت کی اس تحر یر ی درخواست کہ جمعیت الا حرار اورلشکر جھنگو ی العا لمی پر پا بند ی لگا ئی جا ئے کیو نکہ یہ تنظیمیں دہشت گرد ی بر پا کر نے میں پوری طر ح ملو ث ہیں،وزارت داخلہ نے اس پر کو ئی فیصلہ دینے کے بجا ئے پو سٹ آ فس کی طر ح یہ معا ملہ آ ئی ایس آ ئی کے سپر د کردیا ۔گو یا کہ آ ئی ایس آئی کی آشیر باد کے بغیر کسی دہشت گرد تنظیم پر پابند ی نہیں لگا ئی جا سکتی ۔ کمیشن نے یہ بڑا جا ئز سوال بھی اٹھا یا ہے کہ جب ان دونوں دہشت گرد تنظیموں نے از خو د بلو چستان میں دہشت گردی کے واقعات کی ذمہ داری قبو ل کر لی تھی تو پھر آ ئی ایس آ ئی سے اجازت طلب کر نا ،چہ معنی دارد؟۔
کمیشن کی رپو رٹ سے یہ بات تو واضح ہو گئی ہے کہ حکومت اور سکیو رٹی اداروں کے دہشت گرد ی کی بیخ کنی کر نے کے دعوے زمینی حقا ئق سے مختلف ہیں ۔یہ درست ہے کہ جنر ل را حیل شر یف کے بطور آ رمی چیف تین سالہ دورمیں دہشت گردی کی وارداتوں میں خاصی کمی آ ئی اور اس کا کر یڈٹ کسی حد تک حکومت کو بھی جا تا ہے لیکن یہ کہنا کہ دہشت گرد وں کا صفا یا ہو گیا ،درست نہیں ہے ۔کمیشن نے نیشنل کا ؤنٹر یٹرر ازم اتھا رٹی(نیکٹا )کے غیر مو ثر ہونے پر بھی کڑ ی تنقید کی ہے ۔رپو رٹ کے مطابق اس ادارے کو سر ے سے فعا ل بنا یا ہی نہیں گیا ۔کیا یہ محض اتفاق ہے کہ نیکٹااورنیشنل سکیو رٹی کونسل جیسے ادارے وہ کردار ادانہیں کر رہے جو انھیں دہشت گردی کے مو ثر خاتمے کے لیے کرنا چاہیے ۔بعض مبصرین کے مطابق اس کی وجہ صاف ظا ہر ہے کہ مقتدر حلقے یہ چاہتے ہی نہیں کہ سکیو رٹی معاملا ت میں کو ئی دوسرا بے جا مداخلت کر ے۔
تحقیقاتی کمیشن کی رپو رٹ اخبارات اور میڈ یا کی زینت بننے کے ساتھ ہی اپوزیشن کی جانب سے یہ مطالبہ زور پکڑ گیا ہے کہ چوہدری نثار اپنے عہد ے سے مستعفی ہو جا ئیں کیو نکہ وہ اور ان کی وزارت ذمہ داریاں ادا کر نے سے قاصر رہے ہیں۔جمعہ کو چوہدری صاحب اس حو الے سے اپنی وضا حت پیش کر نے کے لیے پر یس کانفر نس داغنے والے تھے جسے وزیر اعظم سے ملاقات کے بعد ملتو ی کر دیا گیا۔ اپوزیشن کا چو ہدری نثا ر سے استعفیٰ ما نگنا کہا ں تک جائز ہے ،یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہو ا ہے ۔ہم لاکھ کہیں کہ ہم خو د دہشت گردی کا شکا ر ہیں ہم کیسے اپنی سر حد وں سے پار دہشت گردی روارکھنے کی اجازت دے سکتے ہیں لیکن دنیا تو ایک طرف ہمارے اپنے جو ڈیشل ادارے بھی یہ ماننے کو تیار نہیں اور بالواسطہ طو ر پر کہہ رہے ہیں کہ اندرون ملک دہشت گردی میں ملو ث تنظیموں کی بیخ کنی کر نے سے دانستہ طو ر پر چشم پو شی کی جا رہی ہے ۔یقینا اس کمیشن کی رپورٹ بھی حسب روایت اس سے پہلے بننے والے بیسیوں کمیشنوں کی رپورٹوں کی طر ح طاق نسیان میں رکھ دی جا ئے گی اور اس کی سفارشات پر عمل نہیںہو گا۔لیکن رپو رٹ میں جو حقا ئق سامنے آئے ہیں، وہ یقینا قا بل غو ر ہیں ۔ یہ رپو رٹ کسی امر یکی تھنک ٹینک یا بھا رتی ڈس انفارمیشن پر مبنی نہیں ہے بلکہ ہمارے اپنے سب سے اعلیٰ عدالتی ادارے سپر یم کورٹ کے ایک رکن کی تحقیقات پر مبنی ہے ۔ لہٰذا اس میں چو نکا دینے والے انکشافات پر بھی غور کر نا چاہیے اور اس کی روشنی میں اقداما ت کر نے چاہئیں ۔ چوہدری نثارقاضی فا ئز عیسٰی کی رپورٹ پر سیخ پا ہیں۔انا کے شکار ایک ضدی بچے کی طر ح انھوں نے وزیر اعظم نواز شریف کو یہ دھمکی دے کر اگر انھیں اپنے موقف کی وضا حت کے لیے پر یس کا نفرنس نہ کرنے دی تو وہ مستعفی ہو کر ایسا کر یں گے۔میاں صاحب اس بلیک میلنگ کے سامنے موم ہوگئے ۔عجب طرفہ تماشا ہے کہ وزیر داخلہ نے رپو رٹ کو اپنی ذات کے خلا ف قرار دیتے ہو ئے یکسر مسترد کر دیا گیا ہے اور اسے ہر فورم پر چیلنج کر نے کا عند یہ دے دیا ہے ۔ گو یا کہ یہ رپو رٹ چو ہدری نثار علی خان کی جذ باتیت اور انا پسند یدی کی بھینٹ چڑ ھ گئی ہیں۔اس تنا ظر میں وطن عزیز میں دہشت گردی کو جڑ سے اکھا ڑ پھینکنے کے دعوؤں پر کیسے یقین کیا جا سکتا ہے ۔یقینا چو ہدری صاحب سیاسی طور پر انتہا ئی فعال شخصیت ہیں اور شاید میاں صاحب کے لیے نا گزیر بھی۔وہ برادرخورد میاںشہباز شر یف کے یا رغار بھی ہیں لہٰذا ان کی خدما ت سے فا ئدہ اٹھانے کے لیے انھیں وزارت داخلہ کے بجا ئے کو ئی دوسری وزارت بھی سونپی جا سکتی ہے ۔
یقینا دہشت گردی کی وارداتوں میں کمی آ ئی ہے لیکن جو لوگ اب بھی اپنے مذ ہب ،مسلک،فرقے یا بلا وجہ دہشت گر دوں کا تر نو الہ بنتے ہیں ان کے لیے تو اعداد وشما ر کا یہ گو رکھ دھندا کو ئی معنی نہیں رکھتا ۔چا ہیے تو یہ کہ وزیر اعظم نواز شر یف سب سے پہلے اپنی جماعت مسلم لیگ (ن) کا قبلہ درست کر یںلیکن ایسا ہو نے کی تو قع کم ہی ہے کیو نکہ قر یبا ً ڈیڑ ھ سال میں عام انتخابا ت ہونے کو ہیں اور نا قد ین کے مطابق حکمران جما عت کے بعض لیڈروں کے پنجاب میں دہشت گرد ی کا رجحا ن رکھنے والی بعض تنظیموں کے ساتھ روابط ہیں اور وہ مسلم لیگ (ن) کو الیکشن جتوانے میں ممدومعاون ہو تی ہیں غا لباً اسی بناپر پنجاب حکومت نے صوبے میں دہشت گردوں کے خلا ف رینجرز کے آ پر یشن اور اسے اختیا رات دینے کی سختی سے مز احمت کی تھی۔
دوسر ی طرف مو لا نافضل الر حمن جیسے حکومت کے اتحا دی ہیں جو کھلم کھلا مدارس کی رجسٹر یشن کے خلاف ہیں ۔اس تنا ظر میں بیس نکا تی نیشنل ایکشن پلان جس کاسانحہ اے پی ایس کے بعد جنوری2015میں مکمل اتفاق سے بڑ ے طمطراق کے ساتھ اعلا ن کیا گیا تھا کے چند نکا ت پر ہی عمل درآمد ہو پا یا ہے ۔نیشنل ایکشن پلان کے تحت بنا ئی گئی اپیکس کمیٹیاں ملتی تو رہتی ہیں لیکن عمل درآمد نہ ہونے کے برابر ہے ۔ یہ مسئلہ فو جی اور سیا سی قیا دت کے درمیان گز شتہ دو برس میں وجہ تنا زع بھی بنا رہا ہے ۔ فو جی قیا دت کو جائز طور پر یہ گلہ ہے کہ حکومت نیشنل ایکشن پلان کے نکا ت پر صد ق دل سے عمل نہیں کر رہی لیکن اس بارے میں حکومت کے بھی کچھ جائز تحفظات ہیں۔ میاںنواز شریف کو فوج کے نئے سربرا ہ جنر ل قمر جاوید باجو ہ اور آئی ایس آ ئی کے نئے ڈی جی لیفٹیننٹ جنر ل نو ید مختار کے ساتھ بیٹھ کر دہشت گردی کے خلا ف جنگ کواگلے مر حلے تک لے جانے کے لیے کچھ معاملا ت طے کر نے چاہئیں۔ اس حوالے سے فو ج اور حکومت دونوں کو اس بات پر غور کر ناہو گا کہ دہشت گردی کے حوالے سے بین الاقوامی سطح پر اور خطے کی فضا پاکستان کے حق میں نہیں ہے۔ہمیں اپنے قومی مفا دکے تحت بعض بے ثمر فر سودہ پالیسیوں پر بھی نظر ثا نی کرنا ہو گی۔