"ANC" (space) message & send to 7575

کون ہیرو کون ولن؟

امر یکی جر ید ہ'ٹا ئم‘سالہاسال سے 'مین آ ف دی ایئر‘ کا انتخا ب کر رہا ہے۔ جریدے کا ایڈیٹوریل بورڈ اس اعزاز کیلئے ایسی شخصیت کو چنتا ہے جس نے ان کے نزدیک سال کے دوران کوئی بہت بڑا کارنامہ سر انجام دیا ہو یا واقعات کی جہت کو متا ثر کیا ہو۔ پاکستان میں بھی ختم ہو نے والے سال 2016ء میں بہت سے ہیرو اور ولن ہیں۔ لیکن کچھ ایسی شخصیات بھی ہیں جنہوں نے کچھ کر کے یا محض کچھ نہ کر کے بھی شہرت کمائی ہے۔ ہیرو کا انتخاب کرنا زیادہ مشکل نہیں۔ یقیناً اکثر قارئین کا ووٹ جنر ل را حیل شر یف کے حق میں ہوگا جنہوں نے 2016 ء کے دوران وطن عزیز میں دہشت گردی کا قلع قمع کر نے کے حوالے سے نمایاں کارنامہ انجام دیا لیکن یہ دعویٰ کہ ہم نے دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا ہے،بحث طلب ہے۔ تاہم اس میں کوئی شک نہیں کہ عوام نے سکون کا سانس لیا ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر جنرل راحیل شریف کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے ملک کے کونے کھدروں اور خود اپنے ادارے سے بھی اپنی مدت ملازمت میں توسیع کے مطالبات کو رد کر دیا اور اپنے کیریئر اور شہرت کی انتہا کے مو قع پر گھر چلے گئے۔ لیکن میر ے نزدیک 'مین آف دی ایئر‘ وزیر اعظم میاں نواز شریف ہیں جنہوں نے ناقدین اور تجزیہ کاروں کے ان دعوؤں کہ ان کی چھٹی ہونے والی ہے کو غلط ثابت کر دکھایا۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ اس کامیابی میں ان کی حکمت عملی اور خوش قسمتی کا کتنا عمل دخل ہے۔ تحر یک انصاف والے تویہی کہیں گے کہ خوش قسمتی اور بہتر حکمت عملی سے زیادہ ان کی ڈھٹائی اور ہر حال میں اقتدار سے چمٹے رہنے کی ضد کا عمل دخل ہے۔ میرے نزدیک نواز شریف کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ ان کے مخالفین انھیں انڈر اسٹیمیٹ کرتے ہیں۔ ان کے ناقدین کے مطابق موصوف بڑ ے بھو لے اور کند ذہن ہیں اور نہاری کھانے کے علاوہ مہنگی گھڑ یوں، مہنگے جوتوں اور لندن جا کر Selfridges سٹور کے پا نچویں فلور پر کافی پینے اور کھانا کھانے کے ہی شوقین ہیں۔ ان کا یہ امیج انگر یزی ہفت روزہ' فرائیڈے ٹا ئمز‘ جس کے ایڈ یٹر اور مالک جو اب میاں نواز شریف کی زلف کے اسیر ہو چکے ہیں اور زیا دہ تر لبر ل ایلیٹ کے ذریعے پھیلایا گیا ہے۔ اسی چکر میں میاں نواز شریف 2013ء میں تیسری مرتبہ وزیر اعظم بنے تھے اور اب چوتھے انتخاب کی بھرپور تیاری میں ہیں۔ خیر ناکامی یا کامرانی اللہ کے ہا تھ میں ہے، لیکن مسلم لیگ (ن) نے اس قسم کی بساط بچھالی ہے کہ میاں صاحب کے قریبی حلقوں کا دعویٰ ہے کہ ان کی چوتھی ٹرم کے امکانات بھی روشن ہونے لگے ہیں۔
حکمران جماعت کی پالیسیاں بظاہر تو عوامی خدمت کرنے کی دہائی دیتی ہیں لیکن یہ عملی طور پر الیکشن جیتنے کے فارمولوں پر مبنی ہیں۔ مخالفین کا تو یہ الزام ہے کہ میاں برادران نے تمام اداروں کو زیر بار یا عضو معطل بنا دیا ہے۔ اس حو الے سے نیب ،ایف آئی اے اور حال ہی میں ریگو لیٹری اداروں کو متعلقہ وزارتوں کے سپرد کر نے کی مثال دی جا تی ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ پارلیمنٹ جہاں قانون سازی کے علاوہ پاکستان سے متعلقہ قومی و بین الاقوامی معاملات پر بحث ہونی چاہیے محض ایک بانجھ ادارہ بنتا جا رہا ہے، میاں نواز شریف اس کا رخ کر تے ہیں اور نہ ہی عمران خان۔ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ اور سینیٹ میں قائد حزب اختلاف اعتزاز احسن حکومت پر تنقید تو کرتے ہیں لیکن ان کی آواز نقار خانے میں طوطی کی مانند ہی رہ جاتی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے چار مطالبات کی منظوری کی 27 دسمبر ڈیڈ لائن دی تھی لیکن حکمران جماعت نے لفٹ تک بھی نہیں کرائی۔ ایسا لگتا ہے کہ پارلیمنٹ کا واحد مقصد حکمرانوں کو منتخب کرنا ہے اور اس کے بعد کچھ بھی نہیں۔ میاں صاحب کے مخالفین جو ایک دوسرے کو طفل تسلیاںدے رہے تھے کہ جنرل راحیل شریف جانے سے پہلے میاں نواز شریف کی چھٹی کرا دیںگے، اس بات پر سخت مایوس ہیں کہ نواز شریف کو باہر بھیجنے کے بجائے وہ اپنی مدت ملازمت پوری کرکے خود گھر چلے گئے ہیں ۔تحریک انصاف کو سپریم کورٹ سے بہت تو قعات تھیںکہ ''پاناماگیٹ‘‘ کیس میں وہ یقیناً میاںنواز شریف کی چھٹی کرادے گی لیکن ہوا اس کے برعکس۔ چیف جسٹس آف پاکستان انو ر ظہیر جمالی ریٹائر ہو گئے اور سپریم کورٹ خود چھٹی پر چلی گئی۔ سانپ نکلنے کے بعد عمران خان سمیت پی ٹی آئی کے اکثر رہنما لکیر پیٹ رہے ہیں کہ ہائے، ہمارے ساتھ دھوکہ ہو گیا۔ ججوں کو چھٹی پر جانے کے بجائے میاں صاحب کی چھٹی کرانی چاہیے تھی۔ اب نئے چیف جسٹس ثاقب نثار کی سر برا ہی میں نئی سپریم کورٹ کا نیا بنچ اس کیس کو سنے گا لیکن سیاست میں تو یہ بات اور بھی زیادہ درست لگتی ہے کہ کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک۔
میاں نواز شریف کو اپنے اہداف کے بارے میں کوئی شک وشبہ نہیں ہوتا اور وہ ان کے حصول کے لیے استقامت سے اپنی حکمت عملی پر قا ئم رہتے ہیں۔ اس سال کا ان کا سب سے بڑا بحران ان کی صحت کا مسئلہ تھا، انھوں نے دوماہ تک لندن میں قیام کر کے اپنے دل کی بائی پاس سرجری کرائی۔ اپوزیشن کی پر اپیگنڈا مشین براہ راست اور بالواسطہ سوشل میڈیا کے ذریعے یہ تاثر دیتی رہی کہ میاں صاحب 'پاناگیٹ‘ اور خان صاحب کی یلغار سے گھبرا کر لندن بھاگ گئے ہیں اور واپس نہیں آ ئیںگے۔ ان کے ناقدین میں بعض بڑ ے سینئر سیاستدان بھی شامل تھے جو آ ج بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ میاں نواز شریف کی سر ے سے کوئی سرجری ہوئی ہی نہیں لیکن لندن میں آرام کر کے وہ لاہور واپس پہنچ گئے۔
گزشتہ تین برس میں میاں نواز شریف نے انتہائی صبر سے کام لیا۔ ایک طرف جہاں جنرل راحیل شریف کی مقبو لیت تھی اور دوسر ی جانب انہیں فوج کے انٹیلی جنس اداروں اور پراپیگنڈا کے سامان حرب سے لیس آئی ایس پی آر کی شدید یلغار کا سامنا کرنا پڑا۔ تاہم انھوں نے ایک بات گھول کر پی لی تھی کہ انہیں فوج کے ساتھ شو ڈاؤن مہنگا پڑے گا کیونکہ وہ اپنے پہلے دور میں'میں ڈکٹیشن نہیں لوں گا‘ کا نتیجہ بھگت چکے جب وہ صدر غلام اسحق خان کے ہاتھوں 58۔ٹو بی کی نذر ہو گئے اور اپنے دوسر ے دور میں جنرل پرویز مشرف سے پنگا لے کر نہ صرف اقتدار سے ہا تھ دھو بیٹھے بلکہ جلا وطن بھی کردیئے گئے۔ میاں نواز شریف اپنے برادر خورد شہباز شریف کے مقابلے میں اپنی ہٹ اور رائے کے پکے ہیں۔ لندن میں ان کے بغرض علاج قیام کے علاوہ بعد میں بھی میاں شہباز شریف اور چوہدری نثار علی خان نے لاکھ دہائی دی کہ جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت میں توسیع کر دی جائے لیکن ان کی ایک نہ چلی۔ میاں نواز شریف جو اندرونی طور پر جنر ل راحیل شریف سے خوش نہیں تھے نیا آرمی چیف چننے کے اپنے استحقاق کو کسی قیمت پر کھونا نہیں چاہتے تھے، اس حوالے سے انھوں نے خاصا دباؤ برداشت کیا۔ حتیٰ کہ نئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے انتخاب میں بھی انھوں نے اپنے برادر خورد سے مشورہ نہیں کیا۔
موجودہ ملکی صورتحال بظاہر میاں نواز شریف کے موافق لگتی ہے۔ عالمی منڈی میںتیل کی قیمتیں کم ہونے کی بنا پر مہنگائی توکسی قدر قابو میں ہے لیکن شرح نمو میں اضافہ قابل قدر نہیں، بر آمدات گر رہی ہیں، ملک انتہائی مقروض ہو چکا ہے لیکن اس کے باوجود عوام مست ہیں اور ان کی عدم دلچسپی سے لگتا ہے کہ کرپشن اور 'پاناماگیٹ ‘ ان کا مسئلہ نہیں ہے۔ 'پاناماگیٹ‘ میں نو از شریف فیملی ابھی تک اپنی لندن میں پراپرٹی کیلئے فنڈنگ کے حوالے سے کوئی قابل اعتبار جواز فراہم نہیں کر سکی۔ پنجاب میں انتخابی حلقوں کی سیاست کے حوالے سے بھی ان کی پوزیشن مضبوط ہے، آئندہ انتخابات جیتنے کیلئے دولت کا بے تحاشہ استعمال ہو گا لیکن بلی کی بھی نو زندگیاں ہوتی ہیں، سیاسی طور پر میاں صاحب کا یوم حساب آ ئے گا اور جمہو ریت کے نام پر اقتدار اپنی اگلی نسل کو منتقل کر نے کا خواب دھر ے کا دھر ا رہ جائے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں