نوبت بہ ایں جا رسید ،سیا ست دانوں کے درمیان لفظی دھینگا مشتی، ایک دوسر ے کے خلاف قانونی چارہ جوئی اور قر یبا ً ہر مسئلے پر کمیشن بنانے کے مطالبات ان کا وتیر ہ بن ہی چکا تھا لیکن جا وید ہا شمی نے‘ جنہیں میری رائے میںابھی بزرگ سیا ستدان قر ار نہیں دیا جا سکتا ‘تو بات پاگل خا نے تک پہنچا دی ہے ۔ جا وید ہا شمی نے چند روزقبل بیان دیا تھا کہ2014ء کا دھر نا جوڈیشل ما رشل لا لگو انے کی سا زش تھی حالانکہ مو صوف اس وقت باقاعدہ تحر یک انصاف کے مر کزی صدر تھے ‘ لہٰذ اکہا جا سکتا ہے کہ گھر کا بھید ی لنکا ڈھائے۔ عمران خان نے جا وید ہا شمی کے ریمارکس کافطر ی طور پر سخت نو ٹس لیا ۔ ان کا کہنا تھا کہ اب وہ عمر کے اس حصے میں ہیں کہ ان کا دماغی تو ازن درست نہیں رہتا ۔ ویسے جا وید ہا شمی اور عمران خان کی عمر میں دو تین سال کا ہی فر ق ہے ۔البتہ یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ عمران خان نوجوانوں کے لیڈر اور ایک تیس سالہ نوجوان کی طرح فٹ لگتے بھی ہیں ۔اچھی ورزش کرنا اور اچھا کھاناان کامشغلہ ہے ۔اس کے بر عکس جا وید ہاشمی کی فا لج کے حملے کے بعد صحت خراب رہتی ہے ۔ہا شمی صاحب نے عمران خان کو تر کی بہ تر کی جواب دیتے اورمیڈیکل بورڈ بنانے کا مطالبہ کرتے ہوئے چیلنج کیا کہ دونوں کی ذہنی حا لت جانچنے کے علاوہ ڈوپ ٹیسٹ کرا یا جائے، بقو ل ان کے پا گل خا نے کی رپورٹ آنے پر قوم کی خان صاحب سے جان چھو ٹ جا ئے گی ۔ ہا شمی صاحب نے خان صاحب پر انتہا ئی رکیک حملہ کیا ہے کیونکہ اگر یہ بحث چل پڑ ی کہ کو ن کون سا سیاستدان کیا کیا نشہ کرتا ہے تو بات دورتلک جائے گی ،میر ے گمان کے مطابق تو عمران خان اس حو الے سے صاف شفاف آدمی ہیں ۔
جا وید ہا شمی سے میر ابہت پرانا تعلق ہے ، بنیادی طور پر میراان سے پہلا تعارف اس وقت ہو ا جب ہم دونوں پنجاب یو نیو رسٹی کے طالب علم تھے ۔ہا شمی صاحب اسلامی جمعیت طلبا کے رکن تھے اور میں طلبا سیاست میں حصہ نہ لینے کے باوجود جمعیت کا نظر یاتی طور پر مخالف تھا ۔اسی دوران جا وید ہا شمی سٹوڈنٹس یونین کے صدر منتخب ہو گئے ۔اس کے با وجو د میراان سے ذاتی اور نیازمند ی کا تعلق تھا جو اب تک قائم ہے ۔ ہا شمی صاحب نے ہمیشہ سے دائیں بازو کی سیاست کی اور جما عت اسلامی سے بھی اپنے تعلق کو نبھاتے رہے ۔1972ء میںانہیں اس وقت خاصی شہرت ملی جب وہ سمن آباد سے دو لڑکیوں کے اغوا کے خلاف احتجاج کرنے گورنر ہاؤس کے سامنے پہنچ گئے۔ پھر بنگلہ دیش نا منظور تحریک کے دوران 1974ء میں اسلامی سربراہی کانفرنس کے سامنے احتجاج نے ان کے سیاسی قد میں اضافہ کیا۔ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف قومی اتحادکی تحریک میں خاصے فعا ل تھے اور شعلہ نوا خطابت نے ان کی شہرت کو چار چا ند لگا دئیے تھے ۔ بالا ٓخر وہ پی این اے کے دیگر ارکان کے ہمراہ جنر ل ضیاء الحق کی کا بینہ میں بھی شامل ہو گئے پھر ایک وقت آیاجب ذوالفقا ر علی بھٹو کی پھانسی کے بعد ضیاء الحق کو پی این اے کی ضرورت نہ رہی تو سیا سی جما عتوں کے اس اتحا د کو طو عاً و کر ہا ًکا بینہ کو خیر با د کہنا پڑا۔اس موقع پر جا وید ہا شمی نے سیا سی کردار کی تھو ڑ ی سی کمزوری دکھا ئی اور دفتر نوا ئے وقت میں تشر یف لا ئے اور مجھ سے کہا مجھے تو ضیا ء الحق نے نکالا نہیں،لہٰذا میں کیو ں چھوڑوں اور کہا کہ جب تک چلتا ہے چلتا رہنے دو ں گا۔لیکن جاوید ہاشمی کو بھی بالآخر جانا پڑا۔
جاوید ہاشمی1985ء میں باقاعدہ قومی سیاست میں آئے اور اسی سال غیر جماعتی انتخابات میں رکن قومی اسمبلی منتخب ہونے کے بعد محتر مہ عابد ہ حسین کے حو اری بن گئے جو وزیر اعظم محمد خان جو نیجو کے سخت خلاف تھیں ،اسلام آباد میں ان کا اوڑھنا بچھونا فخر امام کا گھر ہی تھا ۔اسلام آباد کی ہر ڈپلومیٹک پا رٹی میں وہ فخر امام اور عابد ہ حسین کے ساتھ ساتھ ہو تے تھے، اس وقت حسین حقا نی جو نواز شر یف کے مشیر تھے ان کے بارے میں اکثر یہ فقر ہ 'صاحب، بی بی اورغلام‘ چست کیاکرتے تھے ۔بعد ازاں جا وید ہا شمی نے 1990ء میںمسلم لیگ باقاعدہ جوائن کی اور قومی اسمبلی کا الیکشن جیت کرنواز شریف کی حکومت میں وفاقی وزیر امور نوجوانان بنے ۔پھر 1997ء میں جاوید ہاشمی جنوبی پنجاب بالخصوص ملتان کی سیاست میں سرخرو ہوئے، انہوں نے شاہ محمود قریشی کو بھی ہرا دیا اور نواز شریف کی حکومت میں وفاقی وزیر صحت بھی بنے۔
1999ء میں جب میاں نواز شر یف کی حکومت بر طرف ہو ئی تو جا وید ہا شمی کو مسلم لیگ ن کی صدارت سونپ دی گئی۔ملتان میں یوم حمید نظامی کی تقریب میںانھوں نے محتر م مجید نظامی مر حوم کے اس مشورے کے باوجود کہ 'ہتھ ہولا رکھیں ورنہ اندر ہو جا ئیں گے ‘فو ج کے خلا ف سخت تقر یر کی۔20اکتوبر2003ء کو انہوں نے ایک پریس کانفرنس میں فوج سے متعلق متنازع خط پڑھ کر سنایا جس کی پاداش میں انہیں29 اکتوبر کوبغاوت کے الزام میں پارلیمنٹ ہاؤس سے گرفتار کر لیا گیا اور انہیںپا بند سلاسل کردیا گیا ۔ جاوید ہاشمی تقریباًچار برس جیل میں رہے ۔ 2007ء میںرہائی کے بعد جب وہ دفتر نوائے وقت میںمحتر م مجید نظامی اور مجھ سے ملنے آ ئے تو وہ میاں فیملی سے سخت شاکی تھے کہ وہ خو د تو ڈیل کر کے جلا وطنی میں چلے گئے لیکن انھیں جیل میں پو چھا تک نہیں ۔حالانکہ مجھے یا د ہے کہ جا وید ہا شمی کی نواسی کی شا دی کے مو قع پر جس میں میں بھی شر یک تھا ،حمزہ شہبا ز خا ص طور پر اس میں شر کت کے لیے ملتان آ ئے تھے ۔
بہر حال 24 دسمبر2011 ء کو جا ویدہا شمی کا مسلم لیگ کو خیر با د کہہ کر تحریک انصاف میں جانا سیاسی طور پر غلط فیصلہ تھا کیو نکہ سماجی ، سیا سی اور نظریا تی طور پر خان صاحب اورپی ٹی آ ئی کی مخصوص میلا ن طبع سے ان کا مزاج لگا نہیں کھا تا تھا۔ اب جا وید ہاشمی اس پوزیشن میں بھی نہیں ہیں کہ مسلم لیگ(ن) میں واپس چلے جا ئیں اور پی ٹی آ ئی پرتو وہ چا ر حر ف بھیج چکے ہیں ۔جا وید ہا شمی جیسے فعا ل سیا ستدانوں کوجنہوں نے جمہوریت کے لیے خا صی جد وجہد کی ،خاص طور پر اس وقت جب نواز شر یف کے اکثر رہنما ادھر ادھر ہو گئے تھے ۔حتیٰ کہ میاں نواز شر یف کو خو د یہ کہنا پڑ اکہ جب میں حکومت میں تھا تو سا تھی کہتے تھے ،قدم بڑھا ؤ نوا زشر یف ہم تمھا رے ساتھ ہیں ۔لیکن جب میں نے قدم بڑ ھا یا اور مڑ کر دیکھا تومیدان خا لی تھا ۔ ایسے دور میں جب کو ئی جمہو ریت کانام لیتے ہو ئے ڈرتا تھا جا وید ہاشمی نے اپنے نظر یا ت پرمبنی دو کتابیں 'ہاں میں باغی ہوں‘ اور 'تختہ دار کے سائے تلے‘لکھیں گو یا کہ وہ شخص جو ایک مو قع پر جنر ل ضیا ء الحق کی کابینہ چھوڑ نے کو تیا ر ہی نہیں تھا سیاسی سفر طے کرتے ہوئے آمر مطلق جنر ل پرویز مشرف کے خلا ف ڈٹ گیا ۔ ان کی اس جرأت کے حوالے سے میاں نواز شر یف کوان کی طرف دوستی کاہا تھ بڑ ھانا چاہیے تھا ،ایسی شخصیت کا مقام تو سینیٹ میں تھا لیکن دوسر ی طرف میر ی جاوید ہا شمی سے مو دبانہ گز ارش ہے کہ وہ جس جما عت کو چھو ڑ چکے ہیں ، اس کی لیڈ ر شپ پر ذاتی حملہ کر نے سے اجتناب بر تیں ۔ ان جیسی معز ز شخصیت کو ایسی باتیں زیب نہیں دیتیں۔مختصراً یہ کہ میں جس جاوید ہاشمی کو جانتا تھا وہ تو سیاسی کارکن تھالیکن بعد میں پتہ چلا کہ وہ بھی شاہ محمود قریشی کی طرح مخدوم ہے۔