"ANC" (space) message & send to 7575

عدالتی اصلاحات ناگزیر

وزیر قانون پنجاب رانا ثناء اللہ حال ہی میں ختم ہونے والی فوجی عدالتوں کی کا رکر دگی پر دو روز قبل سخت بر ہم تھے لیکن وزیر مملکت مریم اورنگزیب کے یہ کہنے کے بعد کہ رانا ثنااللہ اس بارے میں لا علم ہیں، انہوں نے یکدم یُو ٹرن لے لیا اور یہ کہنے لگے کہ ملٹری کورٹس سے سول عدالتوں کو ریلیف ملا ہے۔ علاوہ ازیں پنجاب میں دہشتگردی کی روک تھام کیلئے کرنل(ر) ایوب خان گادھی کو صوبائی وزیر انسداد دہشت گردی بھی لگا دیا گیا۔ ادھر وزیر داخلہ چودھری نثار نے بھی کہا تھا کہ فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کی کوئی تجویز زیر غور نہیں، اب ایسے مقدمات انسداد دہشتگردی کی عدالتوں میں چلیں گے، اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ تجویز ہے کہ انسداد دہشتگردی عدالتیں جیل کے اندر ٹرائل کریں۔ پاک فو ج کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ان عدالتوں کی کارکردگی سے دہشت گردی کم ہو ئی ہے۔ یقینا جمہوری نظام میں اصولی طور پر فوجی عدالتوں کی گنجائش نہیں ہوتی لیکن 16 دسمبر 2014ء کو اے پی ایس پشاور میں دہشت گر دوں کے ہاتھوں 132طلباء سمیت 141 افراد شہید ہو نے کے بعد یہ عدالتیں قا ئم کی گئی تھیں۔ اس وقت کے فو جی سربراہ جنر ل را حیل شر یف کے اصرار پر 21ویں ترمیم کے ذریعے طوعاً و کرہاً وزیر اعظم میاں نواز شریف نے دو سال کے لیے ان فو جی عدا لتوں کے قیام کی اجازت دی تھی‘ جو دو برس کی اپنی میعاد مکمل کرنے کے بعد ختم ہو گئی ہیں۔ اس عر صے کے دوران ان عدالتوں نے 274 کیسز میں 161 مجرموں کو سزائے موت اور 113 کو قید کی سزا ئیں سنا ئیں تاہم اب تک صرف بارہ افرا د کو پھانسی پر لٹکایا جا سکا ہے۔ آئی ایس پی آر کا یہ کہنا کافی حد تک درست ہے کہ ملٹر ی کورٹس اس وقت قا ئم کی گئیں جب دہشت گرد ی اپنے عروج پر تھی اور جج صاحبان بھی دہشت گرد وں کا نشانہ بننے لگے تھے۔
را نا ثناء اللہ فرماتے ہیں کہ وہ شروع دن سے ہی ان عدالتوں کے قیام کے مخالف تھے، کو ئی بھی جمہوریت پسند ایسی عدالتوں کا حامی نہیں ہو سکتا‘ لیکن غیر معمولی حالا ت میں غیر معمو لی اقداما ت کر نا پڑ تے ہیں۔ امریکہ نے نا ئن الیون کے بعد مسلمانوں کی رجسٹریشن کے علاوہ امر یکی قوانین سے بچنے کے لیے گوانتامو بے میں مسلمان دہشت گردوں کو قید رکھنے کے لیے خصوصی جیل اور عدالتیں قا ئم کی تھیں۔ اس حوالے سے رانا صاحب کی برہمی سمجھ سے بالاتر ہے۔ یقینا انھوںنے یہ بیان اپنے باس خادم اعلیٰ میاں شہباز شریف کی آشیرباد کے بغیر نہیں دیا ہو گا۔ حکومت پنجاب تو روز اول سے یہی کہہ رہی ہے کہ پنجاب میں سب اچھا ہے‘ ہمیں پنجاب میں نیم فوجی دستوں اور رینجرز کو دعوت دینے کی ضرورت ہے اور نہ ہی اختیارات کی۔ اب بھی پنجاب کے کونے کھدروں میں مختلف دہشت گرد گروپ موجود ہیں اور اقوام متحدہ کی طرف سے غیر قانونی قرار دی گئی تنظیموں کے ارکان بھی گھات لگائے بیٹھے ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق فوجی عدالتیں انصاف کے تقا ضے پو رے نہیں کرتیں لہٰذا بین الاقوامی سطح پر ان پر خاصی ہاہاکار مچی تھی۔ یہ بھی عجیب ستم ظر یفی ہے کہ ایک طرف مغر بی میڈیا اور تنظیمیں دہائی دیتے ہیں کہ پاکستان دہشت گرد تنظیموں کی پشت پناہی کرتا اور ایسی تنظیموں کو پناہ دیتا ہے۔ دوسر ی طرف فوجی عدالتوں کے حوالے سے وہ انسانی حقوق کی پامالی کا رونا بھی روتے ہیں۔
امر یکی صدر اوباما کے ڈرون پر وگر ام کو خا صا متنازعہ قرار دیا جا تا ہے۔ چند بر س قبل تک اوباما نے پاکستان پر ڈرون حملوں کی انتہا کیے رکھی اور اس میں بہت سے بے گنا ہ افراد بھی ما رے گئے ہیں‘ یعنی گیہوں کے ساتھ گھن بھی پستا رہا، بظاہر حکومت پاکستان ان حملوں پر روایتی بیانات کے ذریعے معترض رہتی لیکن اندر سے ہما رے سکیورٹی ادارے امر یکہ میں بیٹھے ہو ئے سی آ ئی اے کے اہلکاروں‘ جو اس پروگرام کو چلا رہے تھے‘ کے ساتھ انٹیلی جنس انفارمیشن کا تبادلہ کر تے تھے۔ اب فو جی عدالتیں ختم ہو گئی ہیں لیکن کیا ہما رے حکمران سینے پر ہا تھ رکھ کر یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ ہمارا عدالتی نظام‘ جس کا آ وے کا آوا ہی بگڑاہوا ہے‘ دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچا سکے گا۔ را نا ثناء اللہ کا کہنا ہے کہ تین سو دہشت گرد وں کو ''مقابلوں‘‘ میں جہنم رسید کیا گیا اور اتنے ہی افراد کے خلا ف دہشت گردی کے الزام میں مقدمات چل رہے ہیں۔ جعلی پولیس مقابلے کہاں تک انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہیں؟ فوجی عدالتوں کے خاتمے پر اظہار طمانیت کر نے اور دہشت گردی کے خاتمہ کا دعویٰ کرنے کے ساتھ ساتھ وزیرِ قانون کو یہ بھی بتانا چاہیے تھا کہ وہ لو گ جو کسی گمراہ کن آئیڈیالوجی کے نام پر نہتے شہریوں کا خون بہاتے ہیں‘ ان کی موثر بیخ کنی کے لیے عدالتیں کیا کردار ادا کر یں گی۔ ججوں کو کس طرح تحفظ دیا جا ئے گا کہ وہ بے لاگ فیصلے سنا سکیں۔ زمینی حقائق سے تو ایسا ہی لگتا ہے کہ اس جانب کوئی موثر پیش رفت نہیں کی گئی ہے۔ وطن عزیز میں قانون کی حکمرانی کا حال تو ویسے ہی پتلا ہے اور حکومت کس حد تک عدالتوں کا احترام کر تی ہے‘ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سا نحہ ماڈل ٹا ؤن‘ جس میں 14 بے گناہ شہر یوں کو شہید کیا گیا‘ کے حوالے سے جسٹس باقر نجفی کی جوڈیشل رپورٹ آج تک طاق نسیان میں پڑی ہے اور حکومت پنجاب اسے افشا کر نے کے لیے سر ے سے تیا ر ہی نہیں ہے۔ کیا دہشت گرد ی کے با وجود پنجاب کے وزیر قانون پو ری ذمہ داری کے ساتھ یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ عام شہر ی کو انصاف مہیا کیا جا رہا ہے ؟ یقینا اس حوالے سے صورتحال پریشان کن ہے اور اس کے لیے حکومتیں ہی نہیں بلکہ خود ججز بھی ذمہ دار ہیں۔ سابق چیف جسٹس افتخا ر محمد چوہدری بڑ ے دھڑلے سے عدالت لگا تے تھے۔ انھوں نے ایک وزیر اعظم کو توہین عدالت کی پاداش میں گھر بھی بھیج دیا۔ انھوں نے اپنی دکان چمکائی اور واہ واہ کرائی لیکن عدالتی اصلاحات کے حوالے سے کو ئی کام نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ سائل عدالتوں سے انصاف کے انتظار میں بوڑھے ہو جاتے ہیں یا دنیا سے ہی رخصت ہو جاتے ہیں۔ نچلی سطح پر عدالتوں میں کر پشن سرایت کر نے کی شکا یا ت عام ہیں۔ اسی بنا پر پنجاب میں 'جعلی پولیس مقابلوں‘ کا تیر بہدف نسخہ آ زمایا جاتا ہے۔ دوسر ی طرف ایجنسیاں مطلوب لوگوں کو ویسے ہی غائب کر دیتی ہیں۔ میڈیا میں لا پتہ افراد کے لیے آ واز اٹھانا بھی خطر ے سے خالی نہیں۔ جہاں اس 'نسخے‘ کے ذریعے دہشت گردوں کو غائب کر دیا جا تا ہے‘ وہاںکچھ لبر ل حضرات کو بھی لپیٹ میں لے لیا جا تا ہے۔
ایک غیر ملکی خبر ایجنسی کے مطابق ایک ہفتے میں چار افراد‘ جو سوشل میڈیا پر متحرک تھے اور سیکولرازم کی باتیں کر نے کے ساتھ ساتھ افواج پاکستان کو بھی معاف نہیں کرتے تھے‘ یکدم غا ئب ہو گئے ہیں۔ ان میں نمایا ں قا ئد اعظم یو نیو رسٹی کے پر وفیسر سجاد حیدر ہیں ۔ وہ انگریزی اخبار کے بلا گ میں بلو چستان کے لا پتہ افراد کے لیے آ واز اٹھاتے رہتے ہیں۔ خفیہ اداروں کا کہنا ہے کہ ان افراد کی گمشد گی سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔ وزارت داخلہ بھی اس بارے میں لا علم ہے تو کیا ان افراد کو زمین کھا گئی یا آسما ن نگل گیا ہے۔ اگر ان افراد نے پاکستان کے قانون اور آ ئین کی خلاف ورزی کی ہے تو انھیں اس پر قرار واقعی سزا ملنی چاہیے۔ لیکن غا لباً ان کے اغوا کنندگان کو بھی یقین ہے کہ پاکستان کے عدالتی نظام کے تحت ان کے خلاف کارروائی کرنا ناممکن ہو گا۔ اس تناظر میں عدالتی نظام کی فوری اصلاح کے سوا کو ئی چارہ کا ر نہیں کیو نکہ اگر دہشت گردوں کو یہ پیغام چلا جا ئے کہ دو برس میں فوجی عدالتوں سے 161 افراد کو سزائے موت سنانے کے با وجود صرف بارہ کو پھانسی دی گئی ہے اور انھیں کو ئی انجام تک نہیں پہنچا سکتا تو وہ اپنی مذموم کارروائیاں کرنے میں پھر آزاد ہو جائیں گے۔ غالباً اسی بنا پر حکومتی نمائندے‘ جو فوجی عدالتوں پر تھو تھو کر رہے تھے از سر نو انہیں بحال کرنے پر تیار ہو گئے ہیں۔ دیکھنے کی بات ہے کہ بدلے ہوئے حالات میں اپوزیشن نئی آئنی ترمیم کی حمایت کرتی ہے یا مخالفت۔ بعض فوجی تجزیہ کاروں کا تو دعویٰ ہے کہ چونکہ فوجی عدالتوں کے فیصلوں کیخلاف ہائیکورٹس اور سپریم کورٹ میں اپیلیں دائر کی جا سکتی ہیں اس لئے یہ غیر موثر ثابت ہوئی ہیں، شاید ایسا ہی ہوا ہو؛ تاہم فوجی عدالتوں نے دبدبے سے دہشتگردی کے مقدمات خوب نمٹائے ہیں۔ پی ٹی آئی کے رہنما شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ حکومت نے جن اقدامات کے کرنے کیلئے دو سال قبل فوجی عدالتوں کی اجازت مانگی تھی ان میں سے کسی بھی نکتے پر عملدرآمد نہیں ہو سکا۔ بات تو ان کی درست ہے کہ اگر حکومت سنجیدگی سے اقدامات کرتی تو آج فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کی ضرورت نہ پڑتی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں