وزیر خزانہ اسحق ڈاربضد ہیں کہ وہ معیشت کوپٹڑی سے نہیں اتر نے دیں گے لیکن ڈار صاحب جو معیشت کے معا ملے میں گز شتہ تین برس سے زائد عر صے سے سیا ہ وسفید کے مالک ہیں، وزیر اعظم کے اتنے قر یب ہیں کہ انھیں ڈپٹی پر ائم منسٹر کے لقب سے یا د کیا جا تا ہے، ا نھیں اندازہ ہو نا چاہیے کہ معیشت پٹڑی پر چڑ ھی ہی کب تھی جسے وہ اترنے نہیں دیں گے ۔لیکن یہ کہنا بھی کہ آ وے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے، مبنی برانصاف نہیں ہو گا ۔ یقیناپیپلز پا رٹی کے دور حکومت کے مقا بلے میں معیشت اور گو رننس کے معاملا ت میں قدرے ٹھہراؤ آ یاہے ۔ ڈار صاحب کی یہ بات درست ہے کہ ہم آئی ایم ایف پروگرام مکمل کر کے اس کی دستر س سے نکل ا ٓ ئے ہیں، سٹا ک ایکسچینج بھی آ سما ن سے باتیں کر رہا ہے۔بین الاقوامی اخبارات اور اقتصادی جر ائد کے ذریعے یہ سر ٹیفکیٹ بھی لیا جا رہا ہے کہ پاکستان میں اقتصادی معجز ہ رونما ہواہے ۔دوسری طرف ناقدین کا استدلا ل ہے کہ بین الاقوامی سطح پر تیل کی قیمتیں کم ہو نے کا فا ئد ہ موجودہ حکومت کوپہنچا ہے ، یہ بات کسی حد تک درست بھی ہے لیکن ا س کا یہ مطلب نہیں کہ حکومت کو اس کی بہترکا وشوں کا کر یڈٹ ہی نہ دیا جا ئے ۔لیکن' سب اچھا ‘کے اس شور وغوغے میں معیشت کے بارے میں بعض بنیا دی حقا ئق کو نظر اندازبھی نہیں کرنا چاہیے ۔مثال کے طور پر وزیر خزانہ کا یہ دعویٰ کہ 2018میں شر ح نمو سات فیصد تک پہنچ جا ئے گی، حقیقت پسندانہ نہیں لگتی ۔تمام تر دعوؤں کے باوجود اس وقت شر ح نمو پانچ فیصد کے لگ بھگ ہے اور جب تک یہ کم ازکم 6.5فیصد تک نہیں پہنچتی ملک میں غر بت اور جہا لت پر قابو پا نے کی شر وعات بھی نہیں ہو سکتیں۔ یہی حال قر ضوں کا ہے مو جو دہ حکومت کے تین برسوں میں یہ قر ضے جن کا زیا دہ تر حجم مقامی بینکوں اور بانڈز کے ذریعے حا صل کیا گیا ہے قر یبا ً دوگنا ہو چکے ہیں ۔ ایک اندازے کے مطا بق اس عرصے میں حکومت نے پچیس ارب ڈالر غیر ملکی قر ضے حا صل کیے اور اس پر مستزاد یہ کہ اندرونی طور پر بھی 3کھر ب رو پے (تیس ارب ڈالر ) مقامی مارکیٹ سے اٹھا ئے گئے ہیں ،یہ اعدادو شمار محتر م اسحق ڈار کی سربراہی میں وزارت خزا نہ کے قر ضو ں کے شعبہ کے ڈائر یکٹر احتشام رشید کے فرا ہم کردہ ہیں۔ اس سے اندازہ لگا یا جا سکتا ہے کہ معیشت کتنی مستحکم ہے اوراقتصادی ماہر ین بھی اس رجحان کو انتہا ئی تشویشنا ک قر ار دے رہے ہیں۔بقول غالب ؎
قر ض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لا ئے گی ہما ری فا قہ مستی ایک دن
ہما ری بر آمدات کا حا ل بھی پتلا ہے اوریہ مسلسل روبہ زوال ہیں۔پیپلز پا رٹی کے دور حکومت میںجسے موجودہ حکمران سخت کو ستے ہیںبر آمدات پچیس ارب ڈالر تھیں جو کم ہو کر بیس ارب ڈالر رہ گئی ہیں۔اسی طر ح 'سی پیک ‘کو چھو ڑ کر برا ہ راست غیرملکی سر ما یہ کاری بھی آٹے میں نمک کے برابر ہے ۔ حکومت کے مطابق تو معیشت کے حوالے سے سب اچھا ہے ۔ عالمی منڈی میںتیل کی قیمتیں کم ہو نے کی وجہ سے افر اط زر کی شرح بھی کم ہے یہ الگ بات ہے کہ ایسا 'ہنی مو ن‘ زیا دہ عر صے تک نہیں رہے گا کیو نکہ تیل کی قیمتیں بین الاقوامی مارکیٹ میں بڑ ھنا شروع ہو گئی ہیں ۔غا لباً اس امر کی کسی کو پروا نہیں کہ معیشت کو دیرپا اورمستحکم بنیا دوں پر کھڑ اکر نے کے کیا تقا ضے ہیں؟ ۔سب کی نظر یں2018کے عام انتخابات پر لگی ہوئی ہیں اور اسی بنا پر سارا زور انفرا سٹر کچر بالخصوص ہنگا می بنیا دوں پر پا ور پر اجیکٹس لگا نے پر ہے تاکہ عام انتخا بات سے پہلے کم از کم مسلم لیگ (ن) کے گڑھ سنٹر ل پنجاب کے علا قوں میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم ہو جا ئے ۔اسی طرح سڑکوں کا جال، موٹر ویز اور ہا ئی ویز کا لامتنا ہی سلسلہ بھی یقینا ووٹو ں کے حصول میں مدد گار ثابت ہو گا ۔ یقینا ملک میں ایسی سہو لیا ت فرا ہم کرنا حکومتوں کے فر ائض منصبی میں شامل ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ یہ سب کچھ کن تر جیحا ت کی بنیا د پر کیا جا رہاہے۔ بعض اقتصادی ماہر ین کا کہنا ہے کہ تر کی اورچین کی کمپنیوں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے جن شر ائط پر لایا جا رہا ہے ایسی آسان شر ائط مقامی سر ما یہ کا ر خواب میں بھی نہیں سوچ سکتے ۔ یہاں توالٹی گنگا بہا ئی جا رہی ہے کیو نکہ اصولی طور پر مقامی سر ما یہ کا روں کو سہولیا ت فرا ہم کرکے سرمایہ کا ری کی حوصلہ افزائی کی جا تی ہے جسے دیکھ کر مقامی سر ما یہ کاروں کے ساتھ بیرونی پا رٹنر شپ آزادانہ طور پر شروع ہوجا تی ہے ۔سوشل سیکٹریعنی تعلیم اور صحت کے بارے میں حکومت کی اپروچ نیم دلانہ ہے کیو نکہ یہ ایسے شعبے ہیں جن سے فوری طور پر ووٹ حاصل نہیںہو تے لیکن اگر ملک سے دہشت گرد ی اور جہالت کا خا تمہ کرنا ہے تو غر یب آدمی کامعیا ر زندگی بہتر بنا نے کے سوا کو ئی چا رہ نہیں ۔
پلا ننگ کمیشن کے سابق چیئر مین ڈا کٹر ندیم الحق کاحال ہی میں ' پاکستان ٹوڈے‘ میں ایک مضمون نظر سے گز را وہ منجھے ہو ئے اقتصادی ماہر ہیں، انھوں نے ریٹا ئر منٹ سے پہلے قر یبا ً ساری عمر آ ئی ایم ایف کی ملازمت کی اور بعض ممالک میں آ ئی ایم ایف مشن کی سر برا ہی بھی کرتے رہے ہیں ۔ ان کا دعویٰ ہے کہ پاکستان کی معیشت کو' اکنامک ہٹمین‘ Economic Hitmanسے بچا یا جا ئے ۔ان کا کہنا ہے کہ نام نہا د بڑ ے بڑ ے اقتصادی ما ہر ین جو پاکستان جیسے غر یب مما لک کی پالیسی سازی پر اثر انداز ہو تے ہیں ،امیر مغربی این جی اوزکے لیے کام کرتے ہیں ۔یہ این جی اوزجن کے پاس دوسے پچاس کروڑ ڈالر کا سرما یہ ہو تا ہے، مقامی دانشوروں کو خرید لیتی ہیں اور میڈ یا میں بھی اپنا اثر ونفوذ بنالیتی ہیں۔ڈاکٹر ندیم الحق نے کسی پاکستانی اقتصادی دانشور کانام تونہیں لیا لیکن شاید ان کا اشارہ ان کی طرف ہے جو اقتصادی ماہر ہو نے کا لبا دہ اوڑھ کر فو جی آمروں کے زیر سا یہ وزارتوں سے بھی لطف اندوز ہو تے ہیں اور ٹی وی چینلز پر آ کراور اپنے اخباری مضامین کے ذریعے حکومت کی اقتصادی پالیسیوں کے بارے میںوعظ کرتے ہیں۔ایک ماہر اکثر ٹی وی پر آکر حکومت کو کوستے ہیںکہ اس نے کالا باغ ڈیم کیوںنہیں بنایا لیکن اس کا جواب ان کے پاس نہیں ہو تا کہ جب وہ خو د بطورمشیرخزانہ پاکستان کی اقتصادی تقد یر کے مالک تھے تو کالا باغ ڈیم کانام لیتے ہو ئے ان کے منہ میںگھنگنیاں کیو ں پڑ جا تی تھیں ۔ڈاکٹر ندیم الحق مثال دیتے ہیں کہ وطن عزیز میں سرکا ری شعبے میں بنی ہو ئی کمپنیاںعوام کے ٹیکسوںکے پیسوں سے کا روبار کرکے نجی شعبے کے لیے گنجا ئش کو محد ود کر دیتی ہیں ۔اس ضمن میں انھوں نے سرکا ری شعبے میں بڑ ی بڑ ی تعمیراتی کمپنیوں کا بھی حو الہ دیا ہے۔ قومی ائیر لائن کا حال ہی دیکھ لیں ،اس کے ایک سابق چیئرمین کا کہنا ہے کہ جتنا خسا رہ اسے ایک سال میں ہو تا ہے اتنے سرمائے سے ہر سال نئے جہا ز خر ید کر ایک نئی ائیر لا ئن کھڑی کی جا سکتی ہے ۔ یہی حال ہو ائی اڈوں ،گیس کی تقسیم کے اداروں اور زرعی اجناس کی خرید کے اداروں کا ہے ۔ڈاکٹر حق کا کہنا ہے کہ ایسے اداروں کے ذریعے اجا رہ داریاں قائم کر دی گئی ہیں۔ آئی ایم ایف کے اس سابق نمائندے کوپاکستان کی ٹیکس پالیسی سے شدید اختلا ف ہے، ان کا کہنا ہے کہ ایس ایم ایس اور انٹر نیٹ جیسی چیزوں پر ٹیکس کہاں تک جا ئز ہے اور پھر حکومت عوام کو کیا سہو لتیں فرا ہم کرتی ہے جس کی بنا پر بھا ری ٹیکسوں کے ذریعے ان کی کھال کھینچی جا ئے ۔ ڈاکٹر صاحب کا خیال ہے کہ بیو روکر یسی کی گاڑیا ں اور باقی اللے تللے بھی عوام سے وصول کیے گئے ٹیکسوں یا پھر قرضوں کے ذریعے پورے کیے جا تے ہیں ۔لاہو ر میں مال روڈ پر سر کا ری حکام کی سینکڑوں ایکڑ پر پھیلی کالونی (جی او آر ون )کے اردگرد'دیوار بر لن‘ کس اصول اور قاعدے کے تحت بنا ئی گئی ہے ۔ گویا کہ عوام بھاڑ میں جائیں بابوؤں کو تومحفوظ ہونا چاہیے ۔اس پس منظر میں یہ بات خارج از امکان نہیں ہے کہ مو جو دہ حکومت کا یہ دورختم ہو نے کے بعد ایک بار پھرپاکستان کو آ ئی ایم ایف پروگرام میں جانا پڑے گا ۔ لیکن اس بارے میں تو حکومت کو جواب دینا پڑے گاکہ گزشتہ 3سال میں لیے گئے بھاری قر ضے پاکستان کی آ ئند ہ نسلیںادا کرتی رہیں اورحکومت کو پانچ سال مزید مل جائیں؟۔