گزشتہ ہفتے کے دوران دہشت گردی کی پے در پے سنگین وارداتوں نے ان دعووں کی کہ 'ہم دہشت گرد ی کے خلا ف جنگ جیت رہے ہیں اور دہشت گرد دُم دبا کر بھا گ رہے ہیں‘ کی یکسر نفی کر دی۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ ہمارا حکمران طبقہ خوابوں کی دنیا میں بس رہا ہے۔ سانحہ چیئر نگ کراس لاہور‘ جس میں پو لیس کے دو اعلیٰ افسران سمیت 16 افراد جاں بحق ہوئے‘ سے دو روز پہلے ہی وزیر داخلہ چوہدری نثار اسلام آباد میں ایک تقریب میں یہ ڈینگ مار رہے تھے کہ جس انداز سے پاک فو ج نے دہشت گردی کا قلع قمع کیا، وہ سب کے لیے رول ماڈل ہے۔ سا بق آ رمی چیف جنر ل راحیل شریف بھی یہ کہتے رخصت ہو ئے کہ ہم نے دہشت گردی کا خا تمہ کر دیا ہے‘ لیکن دہشت گردوں نے لا ہو ر کے بعد پشا ور اور پھر سیہون شر یف میں زائر ین کا قتل عام کرکے پو رے ملک میں مایوسی کی لہر پیدا کر دی ہے۔ پاک فو ج بھی حرکت میں آ گئی اور 100 سے زائد دہشت گردوں کو ان کے عبرتناک انجام تک پہنچا دیا۔ پاک افغان سرحد بند کر نے کے علاوہ سرحد ی علاقوں میں ان کے ٹھکانوں کو پاک فضائیہ کے طیاروں نے نشانہ بنایا ہے۔ یہاں سوال پیدا ہو تا ہے کہ یہ سب کچھ پہلے کیو ں نہیں کیا گیا۔ معصوم بچوں، عورتوں‘ بوڑھوں اور نوجوانوں کی نعشیں گر نے کے بعد ہی ہمیں خیال آ تا ہے کہ دہشت گردوں کا مکمل صفایا کر نے کے لیے راست اقدام کی ضرورت ہے۔
چند ہفتوں سے حکومت کی اقتصادی کارکردگی کے بارے میں مثبت سروے بڑے اہتمام سے شا ئع کیے جا رہے تھے لیکن مو جو دہ حالا ت میں پاکستان میں کون ما ئی کا لعل سر ما یہ کا ری کر ے گا؟ شہریار اور نجم سیٹھی کی جوڑی کا لا ہو ر میں پاکستان سپر لیگ ٹی ٹونٹی کا فائنل کرانے کا خو اب بھی ادھورا رہتا نظر آ رہا ہے۔ وہ لو گ جو با ریک بینی سے پاکستان کے حالا ت کا تجزیہ کرتے رہتے ہیں‘ پہلے ہی فکرمند تھے کہ دہشت گردی کا عفر یت ختم نہیں ہوا‘ اور نام نہاد نیشنل ایکشن پلان پر بھی نیم دلانہ طریقے سے عمل ہو رہا ہے اور قوم کو غلط طور پر دلاسہ دیا جا رہا ہے کہ اب سب اچھا ہے۔ اس خدشے پر سوچا ہی نہیں گیا کہ اگر دہشت گردوں نے چاروں صوبوں میں بیک وقت خون کی ہولی کھیلی تو اس کا کیا نتیجہ نکلے گا؟ اور اب سفاک دہشت گردوں نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ کراچی سے لے کر خیبر تک دین کی اپنی تعبیر اور مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے کہیں بھی وار کر سکتے ہیں۔ لاہور کے سانحے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے جماعت الاحرار نے اسے 'آپریشن غازی‘ کا آغاز قر ار دیا ہے۔ ایک طرف ہما ری حکومت اور سکیو رٹی ادارے شہر یوں کے جا ن و مال کے تحفظ کا وعدہ ایفا کرنے میں ناکام رہے ہیں‘ تو دوسر ی طرف دہشت گردوں نے اپنے دعووں کو عملی جامہ پہنانا شر وع کر دیا ہے۔ سیہون شر یف کے واقعہ کی ذمہ داری آئی ایس آئی ایس 'داعش‘ نے قبول کی ہے۔ اس سے ہمارے حکومتی ترجمانوں کے ان دعووں کی قلعی کھل گئی ہے کہ پاکستان میں 'داعش‘ کا کو ئی وجو د نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ داعش ہو یا تحر یک طالبان ان سے علیحدہ ہو نے والے یا سا تھ رہنے والے گروپوں نے آپس میں گٹھ جوڑ کر لیا ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے جسد سیاست میں اس بارے میں ابھی تک یکسوئی نہیں پا ئی جا تی۔ نیشنل ایکشن پلان کے تحت مدارس کو ریگو لیٹ کرنے کے علاوہ ان کے نصاب پر بھی نظرثانی کی جانی تھی لیکن ایسا نہیں ہوا‘ کیونکہ مولانا فضل الرحمن جیسے حکومت کے حواری مز احم ہو جا تے ہیں اور عمران خان جیسے سیکو لر لیڈر بھی مدارس کی حما یت کرتے ہیں، انھوں نے تو مولانا سمیع الحق کے دارالعلوم حقا نیہ کو چار کروڑ روپے چندہ بھی دیا ہے۔ اور معدودے چند علمائے کرام ہی دہشت گردوں کی بھرپور اور دوٹو ک اندازسے مذمت کرنے کو تیار ہوتے ہیں۔
بدقسمتی سے اس وقت ملک انتہائی گمبھیر صورتحال سے دوچار ہے اور جب تک وطن عزیز کو دہشت گردی کے نا سو ر سے پا ک نہیں کیا جاتا، حالات زوال پذ یر ہی رہیں گے۔ بعض لو گ تو اب مایوس ہو کر کھلم کھلا کہنے لگے ہیں کہ پاکستان ایک اور عراق بننے کی طرف جا رہا ہے۔ یقینا ایسا نہیں ہے۔ پاکستان ایک ایٹمی ملک ہے، اس کی فوج متحد، بہادر اور پرو فیشنل ہے۔ ہمارے سکیورٹی ادارے دعویٰ کرتے ہیں کہ ہمارے ہاں اچھے اور بر ے دہشت گردوں کی کوئی تمیز روا نہیں رکھی جاتی لیکن کیا عملا ً ایسا ہو رہا ہے؟ دنیا تو ہما رے اس دعوے کی نفی کرتی ہے۔ خود پاکستان میں بھی یہ تا ثر کیوں پایا جا تا ہے کہ بعض جہا دی تنظیموں کو ''غیبی مدد‘‘ حا صل ہے۔ امریکہ میں ٹرمپ کے برسر اقتدار آنے کے بعد واشنگٹن میں ہما رے سفیر کے سامنے بعض جہادی تنظیمو ں کی فنڈنگ کے بارے میں شواہد رکھے گئے‘ جس کے نتیجے میں حا فظ سعید کو گھر میں نظر بند کر دیا گیا اور امید تھی کہ کچھ اور تنظیموں پر‘ جن میں حقا نی نیٹ ورک اور جیش محمد بھی شامل ہیں‘ کچھ پابندیا ں لگا ئی جا ئیں گی لیکن تا حال ایسا نہیں ہو ا۔ افغا نستان نے دہشت گردوں کو پاکستان بھیجنے پر ہمارے احتجاج کو یہ کہتے ہو ئے مستر د کر دیا ہے کہ پاکستان کو اچھی طر ح معلوم ہے کہ دہشت گرد وں کی نر سریاں کہاں کہاں ہیں جو افغانستان میں گھس کر کارروائیاں کرتے ہیں، لہٰذا پاکستان ان نرسریوں کو ختم کرے۔
غا لباً افغانستان کے الزاما ت مبنی بر حقائق نہیں ہیں‘ لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ وقت آ گیا ہے کہ ہم اندرون ملک بلا کم و کاست دہشت گردوں اور ان کی نرسریوں کا صفایا کر دیں۔ جب بھی دہشت گردی کی واردات ہوتی ہے ہم اپنی انتظامی نااہلی اور انٹیلی جنس ناکامی قبو ل کر نے کے بجا ئے الزام بھا رتی خفیہ ایجنسی 'را‘ اور افغان ایجنسی 'خاد‘ پر لگا کر جان چھڑ ا لیتے ہیں اور معمو لا ت زند گی پھر آ گے بڑ ھتے رہتے ہیں۔ یقینا بھارت ہما را ازلی دشمن ہے اور اس کی انٹیلی جنس ایجنسیاں پاکستان کے معاملا ت میں مداخلت کرتی چلی آ رہی ہیں‘ جس کا ایک ثبوت گزشتہ برس بلوچستان سے کلبھوشن یادیو کی گرفتاری تھا؛ تاہم بھارتی اور افغان دہشت گردوں کے سہو لت کا ر تو ہما رے درمیان ہی بیٹھے ہیں۔ جنر ل را حیل شر یف کے دور میں دہشت گر دی کے خلاف جنگ میں گر انقدر کامیا بیاں حا صل کر نے کے باوجو د معاملا ت ادھورے رہ گئے تھے کیو نکہ ہم اپنے سکیو رٹی اور خا رجہ معا ملا ت کو محض بھارت کے دشمن ہونے کی عینک سے دیکھتے ہیں حالانکہ یہ ایک انتہا ئی سنجید ہ مسئلہ ہے اور اس کے کئی پہلو ہیں لیکن بنیادی بات یہ بھی ہے کہ جب تک حکومت، اپوزیشن، فو ج اور علمائے کرام کو ان معاملا ت پر ایک صفحے پر نہیں لایا جائے گا، دہشت گرد ی کے خلا ف جنگ ایک قدم آ گے اور دو قدم پیچھے کے مترادف ہی رہے گی۔ اس وقت پاکستان 'ریڈ الر ٹ‘ پر ہے۔ اگر آ ئندہ چند روز خیریت رہی تو معمو لا ت زند گی اپنی نہج پر آ جائیں گے اور سفر جاری رہے گا۔
وزیر اعظم میاں نواز شر یف‘ جو اس وقت 'پاناماگیٹ‘ کے معاملے میں پھنسے ہوئے ہیں‘ کو بھی سو چنا چاہیے اگر دہشت گرد اسی طر ح کھل کھیلتے رہے تو ان کا پاکستان کو اقتصادی جنت بے نظیر بنانے کا خواب ادھورا رہ جائے گا۔ انھیں چاہیے کہ تمام سٹیک ہولڈرز کو آن بورڈ لیں۔ لیکن اس سے پہلے نیت کر لینی چاہیے کہ نیشنل ایکشن پلان پر مکمل عمل ہو گا۔ ابھی تو حال یہ ہے کہ لو گ اس بات پر حیران ہیں کہ چوہدری نثار علی خان سیہون شریف تو گئے لیکن ٹی وی پر ناظرین نے محسوس کیا کہ وہ کیمرے کی آ نکھ سے چھپتے پھر رہے تھے نہ جانے انھیں کس بات کی شر مند گی ہے۔ چو ہدری صاحب نے تازہ داکھیان دیا ہے کہ غیر ملکی طاقتیں اور ایجنسیاں ان مذموم کارروائیوں میں ملوث ہیں۔ ان کے مطابق سانحہ سیہون شر یف پر ایک جما عت سیاست چمکا رہی ہے۔ شاید ان کی مراد پیپلز پارٹی سے ہے جو سندھ میں برسر اقتدار بھی ہے۔ یہ وقت دہشت گردی کے خلاف تمام جماعتوں کو متحد کرنے کا ہے نہ کہ ان کے خلا ف سرکاری سطح پر خبث باطن کے اظہار کا۔