وزیر اعظم نواز شریف نے حا لیہ ہفتوں کے دوران جرأت رندانہ کامظا ہر ہ کرتے ہوئے بعض ایسے بیانا ت دیئے ہیں جو نظر یا تی طور پر مسلم لیگ کی پرانی پالیسیوں سے مطا بقت نہیں رکھتے ۔میاں نوازشریف نے گز شتہ دنوں کرا چی میں مقامی ہند وبرادری کی طرف سے منعقد کی گئی ہو لی کی تقر یب میں شرکت کی۔میاں صاحب کا اس موقع پر واکھیاں تھا کہ کچھ عنا صر عوام کو تقسیم کر نے کے لیے مذہب کا سہا را لے رہے اور اس مقصد کے لیے اسلام کو بھی استعمال کرتے ہیں ۔ان کے یہ الفاظ خاصے چو نکا دینے والے تھے کہ پاکستان اس لیے معر ض وجو د میں نہیں آیاکہ ایک مذہب باقی مذاہب پر غا لب آ جا ئے ۔ ان کا کہنا تھا اسلام اس بات کی اجازت نہیں دیتاکہ کسی کو زبردستی اپنا مذہب تبد یل کر نے پر مجبور کیا جائے ،یہ ایک سنگین جرم ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ دنیا میں جنت اور دوزخ کا فیصلہ کرنے والوں کا ایجنڈا کامیاب نہیں ہونے دینگے۔اس سے پہلے 2015ء میں وہ پہلے پاکستانی وزیر اعظم تھے جنہوں نے دیوالی کی تقر یب میں حصہ لیا اوردرست طور پر کہا تھاکہ وہ پاکستا ن میں بسنے والے ہرمذ ہبی طبقے کے وزیر اعظم ہیں۔ نوازشر یف میں یہ تبد یلی خوش آئند ہے ۔انھوں نے خلا ف توقع با با ئے قوم قا ئد اعظم محمد علی جنا ح کی اس تقریر کا بھی حوالہ دیا جوانھوں نے 11اگست 1947ء کو قانون ساز اسمبلی میں کی تھی کہ ہندو اپنے مندروں میں جائیں، مسلمان اپنی مسجدوں میں اور عیسائی اپنے گرجوں میں ، آپ آزاد ہیں ،چاہے آپ کا تعلق کسی مذہب ،فر قے ،رنگ ونسل سے ہو اس معاملے کا مملکت سے کو ئی تعلق نہیں ۔ یہ وہی تقریر ہے جس کا بر سہا برس تک ہما رے حکمرانوں اور بنیاد پرست سیاستدانوں کی آشیر با د سے سر کا ری میڈ یا نے با ئیکا ٹ کیے رکھا لیکن اب تبد یل شدہ ماحول میں اس تقر یر کی ٹیلی ویژ ن پر ایک اشتہا ر کے ذریعے خوب تشہیر ہو رہی ہے ۔
اس سے پہلے لاہور میں جا معہ نعیمیہ میں خطاب کرتے ہو ئے میا ں صاحب نے اس عزم کا اظہا ر کیا کہ دین کو ان عنا صر سے آ زاد کرا دیا جائے گا جو اسے ذاتی مقا صد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔انھوں نے اپنے خطاب میں علما سے اپیل کی کہ وہ دہشت گرد ی کے خلا ف حکومت کاسا تھ دیں،دہشتگردوں کے دلائل کا جواب دیں،مدارس کی تعلیم بھی اسی بنیاد پر ہونی چاہئے،فتوؤں سے آگے نکلنا ہو گا،جہاد کا نظریہ بگاڑ کر دہشتگردی میں بدل دیا گیا۔ یہاں یہ سوال پیداہوتا ہے کہ میاں صاحب کو اچانک کیا ہو ا ہے کہ وہ یکدم اتنے لبر ل ہو گئے ہیں ۔با لخصوص یہ اس لیے بھی حیران کن ہے کہ نواز شر یف کی سیاست نے ضیا ء الحق کی رجعت پسندانہ سوچ کی کو کھ سے جنم لیا تھا ۔جنر ل مر حوم بر ملا کہتے تھے کہ اسلا م میں پا رلیما نی نظام، سیاسی جماعتوں اور سیا ست گر ی کی کو ئی گنجا ئش نہیں ۔ وہ اسلام کا سہا را لے کر گیا رہ سال تک پاکستان پر بلا شرکت غیر ے حکمرانی کرتے رہے ۔ طو عا ًوکر ہا ً جب انھوں نے محمد خان جونیجو کے تحت'پارٹی لیس‘ جمہوریت کے احیا کا تجر بہ کیا ،وہ جب کا میاب ہونے لگا تو ضیا ء الحق نے اپنے ہی اس کامیاب تجربے کوناکام بنانے کے لیے انھیں گھر بھیج دیا ۔ اس موقع پر میاں نواز شر یف نے بطوروزیر اعلیٰ پنجاب اپناوزن اپنی پا رٹی کے صدر کے بجائے ضیا ء الحق کے پلڑے میں ڈا ل دیا ۔بعدازاں نواز شر یف کو وزیر اعظم بنو انے کے لیے اسلامی جمہو ری اتحا د بھی مقتدر اداروں کی مد د اور مہران بینک کی مالی معا ونت سے معرض وجو دمیں لایا گیا ۔ یہ وہ دور تھا جب ایک مخصوص لابی جس کے بہت سے ارکان جو اب خود کو اگر لبرل نہیں تو میانہ روکے طور پر پیش کرتے ہیں، لبرل خیا لا ت کا اظہا ر کر نے والوں کے پیچھے پنجے جھاڑ کر پڑ جا تے تھے ۔اس دور میں میڈ یا کا ایک طاقتور حصہ نظر یہ پاکستان کا ٹھیکیداربن بیٹھا تھا ۔ نظر یہ پاکستان ٹر سٹ بھی جو شر یف برادران کی آشیر باد اور مالی امدادسے وجود میں آیا پاکستان کی ایسی تصویر پیش کرتا تھا اور کرتا آ رہا ہے ۔ جس کے مطابق پاکستان کے قیام کا مقصد جد اگانہ تشخص اور ہند و سے نفر ت ہے ۔
میاں نواز شر یف نے بڑ ی خو بصورت باتیں کی ہیں لیکن محض باتوںسے بیانیہ نہیںبد ل سکتا۔ پاکستان یحییٰ خان دور کے وزیر اطلا عات نوابزادہ شیر علی کے نظر یہ پاکستان کے بجا ئے اپنے اصل نظر یے پر قا ئم رہتا تو وطن عزیز جنت نظیر بن چکا ہو تا ۔اس حوالے سے جنر ل ضیا ء الحق کی آ مر یت کے دور سے جو سو چ چلی ا ٓ رہی ہے وہ ہماری اسٹیبلشمنٹ، علما ء اور حکمرانوں کا بیا نیہ بن چکی ہے۔اس کے مطابق ہم ہر قسم کی دقیا نو سی سو چ کو روا رکھتے رہے ہیں اور' جیو اور جینے دو ‘کے اصول کی نفی کرتے رہے ہیں ۔ اسی بنا پر معا شر ے میں انتہا پسندی اور عدم بر داشت بڑ ھتی چلی جا رہی ہے ۔ نہ جانے میاں صاحب نے یہ کیسے کہہ دیا کہ مذہب ہر فرد کا نجی معاملہ ہے ۔اس سو چ پر تو بڑ ے بڑ ے دانشوروںپرسیکو لر اور بھا رتی ایجنٹ ہونے کاالزام لگتا رہا ہے ۔مفکر پاکستان کے صاحبزادے ڈاکٹرجا وید اقبا ل مر حوم جب نظر یہ پاکستان ٹرسٹ کے چیئر مین تھے تو ایسی روشن خیالی کی باتیں کر نے کی پاداش میں انھیں عہد ے سے الگ ہوناپڑا تھا ۔ بعض دوستوں کی طر ف سے منانے کی کو ششوں کے باوجو د انھوں نے مرتے دم تک دوبارہ کبھی اس ادارے کا رخ نہیں کیا ۔
چلیں مان لیتے ہیں کہ میاں نوازشر یف کی سو چ میں نظر یا تی تبد یلی آ ئی ہے ۔ جا معہ نعیمیہ جس کے سابق سر برا ہ مو لانا سرفراز نعیمی جو دہشت گردی کا شکا ر ہو ئے تھے وہاں روشن خیالی کی با تیں کرنا آسان ہے۔لیکن پہلے میاں صاحب کو اپنی جما عت میں شامل ایسے بااثر افراد اور اپنے اتحادیوں کوقا ئل کرنا چاہیے کیونکہ میاں صاحب کی اپنی جماعت میں ایسے عناصر کی کمی نہیں جو کٹھ ملاؤں کیلئے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ مولانا فضل الر حمن ہر اس اقدام کی مخالفت کرتے ہیںجس کا تعلق پاکستان کو ایک بہتر معاشر ہ بنانے سے ہوجس میں ہر مذ ہب ،فرقے کو برابر کے حقو ق حا صل ہو ں ،مزید برآں خواتین بلا خوف وخطر سر اٹھا کر چلنے لگیں تو بھی مولانا صاحب ان کی مخالفت کرتے ہیں ۔ پنجاب میں اس قسم کے عناصر مبینہ طور پر راناثنا ء اللہ اور نواز لیگ کے انتخابات میں اتحا دی بھی ہو تے ہیں ۔ وزیر داخلہ چو ہدری نثا ر علی خان بھی اس ضمن میں ایک مخصوص سوچ رکھتے ہیں ۔ چند ہفتے پہلے میڈیا کو بر یف کرتے ہو ئے انھوں نے کہا کہ لال مسجد کے خطیب مولانا عبد العزیز مسجد سے باہر ہی نہیں نکلتے اور وہیں درس وتد ریس کا کام کرتے ہیں اور ان کو ریلیف ہم نے نہیں عدلیہ نے دے رکھا ہے ۔ دہشت گردی کا خاتمہ کر نے کے لیے بلاکم وکا ست ہر برا نڈ کے دہشت گرد کی بیخ کنی ضروری ہے ۔سکیو رٹی اداروں کا قبلہ کون درست کرے گا ؟۔جو سا لہا سال سے ایک مخصوص سو چ کو پروان چڑ ھا رہے ہیں ۔ اس سوچ کے مطابق امر یکہ ،بھارت ،اسر ائیل ، روس اور شایدکچھ لو گوں کے نزدیک افغا نستان اور ایران بھی پاکستان کو ختم کر نے کے درپے ہیں ۔ لہٰذا ہمیں سوچنا چاہئے کہ ہمیں ایک سکیو رٹی سٹیٹ کے طور پر ہی رہنا ہے یا کہ علامہ اقبال اور قائداعظم کے پاکستان کے طور پر ۔