وطنِ عزیز کو سب سے زیادہ نقصان حکمرانوں اور ان کے سر چڑھے اور ''عالی الدماغ‘‘ وارداتی افسران نے پہنچایا ہے۔ سیاسی دبائو اثر و رسوخ، دھاندلی اور سہولت کاری کے نتیجے میں انتہائی اہم اور حساس محکموں میں چن چن کر نااہل، خوشامدی، احساس ذمہ داری سے عاری اور ''بوئے سلطانی‘‘ کے نشے میں دھت افسران کو کلیدی عہدوں پر فائز جاتا رہا۔ ایک نااہل خوشامدی اور ذاتی ایجنڈے پر عمل پیرا سربراہ سے توقع ہی عبث کہ وہ مفاد عامہ پر پالیسی بنائے‘ قانون اور ضابطے پروموٹ کرے۔ ایسے سربراہ بھلا کسی ادارے کو چلانے کا بار کیسے اٹھا سکتے ہیں؟ اہلیت اور میرٹ کے برعکس کیے جانے والے حکمرانوں کے فیصلوں کا خمیازہ ہمیشہ عوام نے بھگتا ہے۔
احتساب صرف مالی بد عنوانی اور بے ضابطگی کا ہی نہیں بلکہ نا اہلی کا بھی ہونا چاہیے۔ ایسے نااہلوں سے یہ پوچھا جانا کیا عین منطقی نہیں کہ جس کام کی تکمیل سے غیر معمولی پیکیج، مراعات، فائیو سٹار دورے، ضیافتیں، سیر سپاٹے، طویل دورانیے کی میٹنگز مشروط تھیں‘ جب وہ نہیں ہو سکا تو یہ سب کچھ کس کھاتے میں؟ ان سے یہ پوچھا جانا بھی لاجیکل ہے کہ جن کلیدی عہدوں پر غول در غول حملہ آور ہوئے... اور ملیامیٹ کرکے اگلا پڑائو... نئی گھات... یہ کون سی قومی خدمت ہے؟
''لٹنا اور مٹنا‘‘ کیا صرف عوام ہی کا نصیب ہے؟ ان کاریگر اور سہولت کار حکام کا صرف ایک ہی مشن ہے ''عوام کی مت مار دو‘‘ اور ''خواص کا ضمیر مار دو‘‘۔ اس کے بعد دروغ گوئی اور فرضی اعدادوشمار کے ساتھ کارکردگی اور گورننس کا ایسا ''ڈھول پیٹو‘‘ کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دے۔ سابقہ ادوار کا موجودہ دور حکومت سے موازنہ کریں تو بعض معاملات پر تو ایک ہی قدر مشترک نظر آتی ہے... غیر سنجیدہ رویہ۔ شعبہ صحت کو ہی لے لیجئے۔ اس اہم اور حساس شعبے میں سابقہ حکمرانوں کے کردار، اعمال و ترجیحات کے نقوش اتنے انمٹ اور گہرے ہیں کہ موجودہ حکومت بھی انہی کے نقش قدم پر عمل پیرا ہے۔
قارئین! اٹھارہویں ترمیم کے بعد تمام صوبوں کی مشاورت سے امریکی ادارے ''ڈرگ اینڈ فوڈ ایڈمنسٹریشن‘‘ (DFA) کی طرز پر ایک ادارہ تشکیل دیا گیا‘ جس کا نام ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان رکھا گیا۔ اس ادارے کے قیام کا مقصد معیاری ادویات کی تیاری، ان کی لائسنسنگ، رجسٹریشن، قیمتوں کا تعین، خام مال اور ادویات کی امپورٹ پالیسی سمیت دیگر تمام تکنیکی امور کی مانیٹرنگ ہے۔
ادارہ امریکی طرز پر بنا لیا گیا۔ ماڈل بھی امریکہ سے ہی لیا گیا‘ لیکن نیت، طریقہ کار اور ترجیحات وہی پرانی‘ خالص پاکستانی۔ بدقسمتی سے اس ادارے کو سیاسی مداخلت، مصلحت اور ''سرکاری بابوئوں‘‘ نے سونے کی کان بنا دیا... مال لگائو... مال بنائو کے فارمولے کو نصب العین بنا لیا گیا۔ یہ فارمولہ اتنا پاپولر ہوا کہ ادویات سازی کو محض ''نوٹ کمانے‘‘ کا آسان ذریعہ بنا دیا گیا۔ آج پاکستان میں تقریباً نوے ہزار ادویات رجسٹرڈ ہیں۔ یہ تعداد امریکہ ،بھارت، بنگلہ دیش، سری لنکا، چائنہ اور ایران کے مقابلہ میں تشویشناک حد تک زیادہ ہے۔ دنیا کے کسی ملک میں ادویہ سازی کا لائسنس، رجسٹریشن اور دیگر تکنیکی امور کی منظوری حاصل کرنا قطعی آسان مرحلہ نہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں یہ سارے مراحل انتہائی آسانی اور سہولت سے طے کیے جا سکتے ہیں۔ اس کے لیے ''پی آر‘‘ اور ''مینجمنٹ‘‘ جتنی مضبوط ہو گی اتنی جلدی آپ تمام مراحل کی منظوری اور اجازت حاصل کر سکتے ہیں۔ غضب خدا کا منظور نظر کمپنیوں کوبیک جنبش قلم سینکڑوں ادویات کی تیاری کا پروانہ ایسے جاری کیا جاتا ہے جیسے کسی حلوائی کو لڈو یا جلیبی تیار کرنے کی اجازت دی جا رہی ہے۔ صورتحال اس سے بھی زیادہ سنگین اس وقت ہو جاتی ہے جب یہ انکشاف ہوتا ہے کہ اکثر کمپنیوں کے پاس مذکورہ ادویات کی تیاری کے لیے مطلوبہ سہولیات اور آلات ناکافی ہیں۔ اکثر کے پاس تو سہولیات سرے سے ہوتی ہی نہیں۔ بس فائل کا پیٹ بھرا ہونا چاہئے۔ باقی سب خیر ہے۔ مسیحائی کے اس کام کو دھندہ بنانے والوں نے صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ خیانت کے اس ''کارِ بد‘‘ کے مزید پھیلائو کے لیے سابقہ حکومت نے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اس اہم اور حساس ادارے سے میرٹ اور ضابطے کو ''آئوٹ‘‘ کیے رکھا۔2012 میں بننے والے اس ادارے میں اب تک چھ چیف ایگزیکٹو تعینات ہو چکے ہیں‘ جن میں صرف ایک چیف ایگزیکٹو بذریعہ اشتہار اور میرٹ پر منتخب ہوا تھا‘ جبکہ موجودہ چیف ایگزیکٹو سمیت دیگر چاروں افسران میرٹ اور اہلیت کے برعکس اضافی چارج دے کر تعینات کیے گئے‘ کیونکہ اضافی چارج پر کام کرنے والے افسران غیر معمولی ''رسپانس‘‘ دینے کے ماہر ہوتے ہیں۔ وہ کام کرتے وقت میرٹ اور قانون نہیں بلکہ حکم دینے والے کا منصب اور اختیار دیکھتے ہیں۔ موجودہ چیف ایگزیکٹو نے تو حیرت انگیز کمال اس وقت کیا جب اپنے خلاف ایک انکوائری میں خود کو مردہ ظاہر کرکے نہ صرف جان بچائی بلکہ بعدازاں معاملہ رفع دفع کروا کے دوبارہ زندہ ہو کر آج بھی چیف ایگزیکٹو کے اضافی چارج کی بہاریں لوٹ رہے ہیں۔ اس ادارے کی کارکردگی کا اندازہ ملک بھر کی ڈرگ کورٹس، کوالٹی کنٹرول بورڈز اور ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹری میں جعلی اور غیر معیاری کیسوں کی تشویشناک تعداد سے لگایا جا سکتا ہے۔
اسی طرح ادویات کی قیمتوں کے تعین میں بھی ''مینجمنٹ اور پی آر‘‘ کام کرتی ہیں‘ لیکن ٹیکہ عوام کو لگتا ہے۔ تعجب ہے کہ موجودہ حکومت بھی سابقہ حکومت کی پالیسیوں کو ہی مشعل راہ بنائے ہوئے ہے۔ چند روز قبل سپریم کورٹ آف پاکستان نے اس ادارے کا دس سالہ فرانزک آڈٹ کرنے کا بھی حکم دیا تھا۔
سابقہ حکومت کی ایک اور روایتی غلفت کو موجودہ حکومت پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن میں بھی قائم رکھے ہوئے ہے۔ یہ ادارہ بھی2012 میں اتائیت کے خاتمہ اور علاج معالجہ کی مثالی سہولیات کو یقینی بنانے کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ اس کے سربراہ کی تعیناتی اور پیکیج سے لے کر اختیارات تک سب کچھ آج بھی موجودہ حکومت کے لیے سوالیہ نشان ہے؟ پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن میں کنسلٹنٹس کی تعیناتی کا معیار کیا ہے؟ کون کس کا کیا لگتا ہے؟ اور کس طرح کس کو نوازا جا رہا ہے؟ یہ معمہ بھی حل طلب ہے۔ اس ادارے میں حکومت پنجاب کے احکامات کا اطلاق کیوں نہیں ہوتا‘ اور اس کے آڈٹ میں کیا امر مانع ہے؟ میرے خیال میں اس ادارے کا معاملہ 56 کمپنیوں سے مختلف نہیں‘ بلکہ کہیں زیادہ دلچسپ اور چونکا دینے والی ہو گی۔
سابقہ حکومت نے محفوظ انتقال خون کے ایک بڑے منصوبے کا آغاز کیا تھا‘ لیکن وہ بھی بد نیتی اور غیر سنجیدگی کی بھینٹ چڑھ گیا۔ پنجاب بھر میں صحت مند اور محفوظ انتقال خون کو یقینی بنانے کے لیے بلڈ ٹرانسفیوژن اتھارٹی قائم کی گئی تھی۔ اس اتھارٹی نے صوبہ بھر کے سرکاری اور غیر سرکاری ہسپتالوں میں بلڈ بینکس کو اپ گریڈ کرکے انھیں مطلوبہ معیار کے مطابق بنانا تھا۔ علاوہ ازیں صوبہ بھر میں قائم پرائیویٹ بلڈ بینکوںکو بھی اسی اتھارٹی کے قوانین سے ہم آہنگ کرنا تھا۔ اتھارٹی تو بنا دی گئی لیکن سٹاف اور دفاتر نہ ہونے کی وجہ سے اتھارٹی آج بھی غیر فعال اور کاغذوں تک محدود ہے۔ موجودہ حکومت بھی اس منصوبے کے حوالے سے سابقہ حکومت کی روش اختیار کیے ہوئے ہے۔ حکومتی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ صوبائی دارالحکومت کے تین سرکاری ہسپتالوں میں بلڈ بینک سرے سے موجود ہی نہیں ہیں‘ باقی صوبے کا تو پھر اللہ ہی حافظ ہے۔ علاج معالجہ میں محفوظ اور صحتمند انتقال خون بھی اتنا ہی اہمیت کا حامل ہے جتنی کہ ادویات۔
اسی طرح پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کو بھی مصلحتوں اور پسند ناپسند کی بھینٹ چڑھا دیا گیا ہے۔ یہ ادارہ آج بھی ایڈہاک ازم اور عارضی انتظامات کے تحت چلایا جا رہا ہے۔ جو ادارہ خود اپنے قانون و اختیار کے پیروں پر نہ کھڑا ہو وہ بھلا میڈیکل ایجوکیشن اور میڈیکل پروفیشن کی مانیٹرنگ کیا کرے گا۔
فرض کریں مذکورہ ادارے سابقہ حکومت کی بدنیتی اور مصلحت پسندی کی بھینٹ چڑھا دیے گئے‘ لیکن موجودہ حکومت کے لیے یہ سوال انتہائی اہمیت اختیار کر جاتا ہے کہ اب کیا امر مانع ہے کہ ان حساس اور ناگزیر اہمیت کے حامل اداروں کی بربادی کو نہیں بچایا جا رہا؟ کیوں موجودہ حکومت اپنا کردار ادا نہیں کر پا رہی ہے؟ واضح رہے کہ ادویات ہوں یا انتقال خون... میڈیکل سروسز ہوں یا تشخیصی عمل‘ ان سب کا تعلق براہ راست انسانی زندگی سے ہے۔ ان شعبوں میں بد دیانتی اور غیر سنجیدگی یقینا ایک مجرمانہ غفلت ہے۔ اور اس غفلت حکومت سابقہ ادوار کی روایت کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔ نا جانے کیوں؟