"AAC" (space) message & send to 7575

عثمان بزدار کو ’’لائٹ‘‘ نہیں لینا!

جنرل ضیاالحق نے 1985 میں غیر جماعتی انتخابات کروائے تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے لیے بڑے بڑے نامی گرامی، حسب و نسب والے اور انتہائی قد آور سیاستدان امیدوار تھے۔ اس دور کی پنجاب اسمبلی پر ایک نظر ڈالی جائے تو یہ فیصلہ کرنا ممکن نہ تھا کہ کس کو کس پر فوقیت اور برتری دی جائے۔ ایک سے بڑھ کر ایک امیدوار اور ہر ایک غیر معمولی سماجی حیثیت اور اثر و رسوخ کا مالک تھا۔ لیکن جب قرعہ نواز شریف کے نام نکلا تو ارکان اسمبلی ہکا بکا رہ گئے اور حیرت سے ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے۔ ان کے لیے انتہائی مشکل اور کٹھن مرحلہ تھا کہ ان کے سیاسی اور سماجی قد کاٹھ کو نظر انداز کر کے ایک ''بابو ٹائپ‘‘ ایم پی اے کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنایا جا رہا ہے جس کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں۔ یہ صورتحال پوری پنجاب اسمبلی کے لیے سوالیہ نشان بن گئی تھی۔ اونچے شملے والی سیاسی قد آور شخصیات اکٹھی ہو گئیں کہ وزارت اعلیٰ کے لیے ہم نہ سہی... لیکن کوئی ہم سا تو ہو... اور یہ بابو ٹائپ نواز شریف تو ہرگز نہیں۔
نواز شریف کو بطور وزیر اعلیٰ قبول کرنا ارکان اسمبلی کے لیے مشکل مرحلہ تھا اور پھر وہ وقت بھی آیا کہ جنرل غلام جیلانی کی آنکھ کا تارا اور راج دلارا نواز شریف نہ صرف وزیر اعلیٰ بنا بلکہ ارکان اسمبلی نے اسے اعتماد کا ووٹ بھی دیا۔ واقفانِ حال یہ بھی بخوبی جانتے ہیں کہ وزارت اعلیٰ کی تقریب حلف برداری کے بعد گورنر پنجاب جنرل غلام جیلانی نے چائے کی ٹرے اٹھائے لے جاتے ہوئے ویٹر (بیرے) کو آواز دے کر بلایا‘ اور اس کے سر سے کلاہ اتار کر نواز شریف کے سر پر رکھ دی۔ حاضرینِ محفل کے لیے یہ ایک کھلا پیغام تھا کہ بیرا ہو یا نواز شریف‘ جاود کی چھڑی بہرحال ان کے ہاتھ میں ہے‘ کسی کو خاک بنا دے‘ کسی کو زردار کر دے۔
پنجاب حکومت کے قیام کے باوجود اپنی خو سے مجبور اکثر ارکان اسمبلی نواز شریف کو دل سے وزیر اعلیٰ تسلیم نہیں کر پا رہے تھے اور اکثر پنجاب اسمبلی ڈیڈ لاک کا شکار رہتی۔ اس صورتحال کے پیش نظر صدر ضیاالحق کو لاہور آنا پڑا۔ انہوں نے ارکان اسمبلی پر واضح کیا کہ وزیر اعلیٰ نواز شریف ہی رہیں گے‘ ان کی تبدیلی اور متبادل قیادت کی کوشش کرنے والے سن لیں کہ انہیں ہر صورت نواز شریف سے تعاون کرنا ہو گا۔ جنرل ضیاالحق کے دورۂ لاہور کے بعد وزارت اعلیٰ حاصل کرنے کی کوششیں جھاگ کی طرح بیٹھ گئیں۔ بالمقابل‘ بالآخر بغل گیر ہو گئے۔ اور پھر نواز شریف کا جادو ایسا سر چڑھ کر بولا کہ ضیاالحق نے ایک موقع پر یہ بھی کہہ ڈالا کہ 'میری عمر بھی نواز شریف کو لگ جائے‘۔ ضیاالحق کے ان دعائیہ کلمات کے بعد ان کی زندگی نے زیادہ دیر وفا نہ کی۔ وہ ایک فضائی حادثہ کا شکار ہو گئے اور نواز شریف کو ان کی دعا ایسی لگی کہ پھر انہوں (نواز شریف) نے کسی کو ساتھ نہیں لگنے دیا۔
یہ واقعہ مجھے گزشتہ روز انتہائی شدت سے اس وقت یاد آیا‘ جب بزدار حکومت کی سو روزہ کارکردگی کے حوالے سے سجائی گئی محفل میں وزیر اعظم عمران خان شرکت کے لیے خصوصی طور پر لاہور آئے۔ اس تقریب میں شریک وفاقی و صوبائی وزرائ، مشیروں‘ ارکان اسمبلی، صحافیوں، دانشوروں، اعلیٰ افسران اور ملک بھر سے آئی ہوئی دیگر اہم شخصیات کی موجودگی میں وزیر اعظم نے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے انہیں سادہ‘ درویش اور کھرا انسان قرار دیا۔ انھوں نے کہا کہ میں نے گزشتہ سو دنوں میں کسی سے نہیں سنا کہ بزدار نے کسی سے کمیشن لی ہو یا کہیں ناجائز قبضہ کیا ہو۔
وزیر اعظم کا یہ بیان سن کر ایسا لگتا ہے‘ جیسے انہوں نے عثمان بزدار کو وزیر اعلیٰ بنا کر کرپشن اور ناجائز قبضوں کا راستہ روک دیا ہے۔ گویا عثمان بزدار کو وزیر اعلیٰ نہ بنایا جاتا تو پنجاب پر کرپشن اور قبضہ مافیا کا راج ہوتا۔ سادہ، درویش اور کھرا انسان ہونا یقینا اعلیٰ صفات ہیں‘ لیکن ویژن اور استطاعت کے بغیر ان صفات کا کیا ''اچار ڈالنا‘‘ ہے؟ یا ان کی نمائش لگانی ہے؟ جس مقصد کے لیے ان کو یہ ذمہ داری سونپی گئی جب وہی پورا نہ ہو سکے تو پھر یہ عظیم الشان تقریب کس کھاتے میں؟ کارکردگی تو اچھل اچھل کر باہر آتی ہے‘ جیسے خوشبو اور بد بو کا راستہ کوئی نہیں روک سکتا۔گڈ گورننس اور بیڈ گورننس کا معاملہ بھی کچھ اسی طرح ہی ہے۔
33 وزرائ، تین مشیروں اور پانچ معاونین خصوصی پر مشتمل عثمان بزدار کی ٹیم سو روزہ کارکردگی کی تشہیر کے لیے انتہائی پُرجوش نظر آ رہی تھی۔ انتہائی محنت اور کوشش سے لکھی گئی تقریر کو وزیر اعلیٰ نے اعتماد اور کامیابی سے پڑھا جس کا لب لباب گا‘ گے‘گی ہی تھا۔ وزارتوں کی گورننس اور سروس ڈلیوری کا عالم یہ ہے کہ وزراء اپنے محکموں کی بریفنگ لینے کے بعد تاحال اہداف اور ترجیحات کے تعین کے ارد گرد ہی گھوم رہے ہیں جبکہ عملی کام کے لیے پُرعزم ضرور ہیں۔
ڈاکٹر یاسمین راشد کی صلاحیتوں کا میں ذاتی طور پرگواہ اور مداح بھی ہوں۔ پندرہ بیس سال قبل پی ایم اے کی احتجاجی تحریکوں اور حکومت وقت کے سامنے ڈٹ جانے والی ڈاکٹر یاسمین کی بحیثیت وزیر صحت کوئی قابل ذکر کارکردگی نظر نہ آنا انتہائی تعجب خیز ہے۔ اسی طرح سینئر وزیر عبدالعلیم خان نئے بلدیاتی نظام کی تشکیل میں مصروف ہیں۔ ایسے میں وزارت کی کیا قابل ذکر کارکردگی ہو سکتی ہے؟ البتہ میاں اسلم اقبال نے صنعتی پالیسی جاری کر دی ہے۔ ان کے بارے میں یہ کہنا قطعی بے جا نہ ہو گا کہ ان کے حلقہ کے عوام ان کی سماجی خدمات اور خوش اخلاقی کے گرویدہ ہیں۔ ان کا ووٹر انہیں انہی خصوصیات کی بنا پر کارکردگی کے نمبر دے رہے ہیں۔ ہاں...! وزیر اطلاعات و ثقافت فیاض الحسن چوہان نے ثقافت اور کلچر کو ہی نصب العین بنا لیا ہے‘ اور الحمرا آرٹس کونسل میں ایک اضافی سرکاری دفتر بنا کر سادگی اور گڈ گورننس کی ایک مثال قائم کی ہے۔
باقی وزراء کا حال بھی مختلف نہیں... اور رہا معاونین خصوصی اور مشیروں کا معاملہ تو ایک مشیر تو بوئے سلطانی سے مجبور ہو کر پرائس مجسٹریٹ بنے پھرتے ہیں اور پرائس پر ان کا عدم کنٹرول اور مہنگائی ان کی اعلیٰ کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ایک اور مشیر چونکہ ''بائی ڈیزائن‘‘ پنجاب بھیجے گئے ہیں کیونکہ وہ غیر معمولی حد تک واقف حال اور رازدان ہونے کے ساتھ ساتھ حالیہ عام انتخابات میں ٹکٹوں کی تقسیم میں اپنی ذات پر بھی کچھ سوالیہ نشان لگوا بیٹھے تھے۔ 
قحط الرجال کے اس عالم میں وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کو ایک کریڈٹ ضرور جاتا ہے کہ انہوں نے وزارت اطلاعات اور اس کے میڈیا منیجرز پر انحصار کرنے کے بجائے شہباز گل کو اپنا ترجمان مقرر کیا ہے‘ جو یقینا حکومت کے لیے کارآمد نسخہ ہے۔ شہباز گل ہی واحد آدمی ہے‘ جوشب و روز بھاگا پھرتا ہے اور ٹاسک پورا ہونے تک نہ خود گھر جاتا ہے نہ کسی صحافی کو گھر جانے دیتا ہے۔ اور خصوصاً جب وزیر اطلاعات تک رسائی ممکن نہ ہو تو رات گئے بھی حکومت اور میڈیا دونوں کو دستیاب ہوتا ہے۔ 
سو روزہ کارکردگی کا پھندا خدا جانے کیوں از خود حکومت نے اپنے گلے میں ڈال لیا ہے حالانکہ اس کی قطعی کوئی ضرورت نہ تھی۔ حکومت بن چکی ہے۔ کام پر توجہ اور جزا و سزا کے نظام کی بنیاد پر افسران کو شارٹ ٹرم ٹاسک دیں۔ ٹاسک پورا ہونے پر شاباش اور ہدف پورا نہ ہونے پر سزا دیں اور تبدیل کر دیں۔چند ماہ میں غلطیوں کے باوجود حالات اور گورننس بہتر ہو سکتی ہے‘ لیکن اس کے لیے زبانی جمع خرچ کی بجائے کام پر توجہ مرکوز کرنا ہو گی۔ ویسے بھی عمران خان عثمان بزدار کو کسی صورت تبدیل نہیں کرنا چاہتے۔ وہ انہیں اپنے لیے موافق اور مفید سمجھتے ہیں‘ اور انھیں پنجاب میں اپنے نائب سے کم نہیں دیکھنا چاہتے۔ ایسے میں عثمان بزدار کو لائٹ نہیں لینا چاہیے اور اس وقت کا انتظار کر ہی لینا چاہیے جب تک ان کے ناقدین ان کی اہلیت اور قابلیت کے معترف نہیں ہو جاتے... یا پھر وزیر اعظم عمران خان اپنی خواہش اور ضد سے دستبردار نہیں ہو جاتے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں