وزیراعظم عمران خان امریکہ کے دورے پر ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ نے دورانِ ملاقات افغانستان کے حوالے سے پاکستان کے تعاون کا اعتراف کرنے کے ساتھ ساتھ مسئلہ کشمیر پر بھی ثالثی کی پیشکش کی ہے۔ ٹرمپ کی طرف سے کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کو بڑی خبر قرار دیا جارہا ہے۔ امریکہ کے دورے میں پاک آرمی کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ وزیراعظم کے ہم قدم اور شانہ بشانہ ہیں۔ وطنِ عزیز کے ساتھ امریکہ کے تعلقات ہمیشہ ڈرامائی ہی رہے ہیں ''کبھی عرش پر کبھی فرش پر‘‘ کے مصداق امریکہ نے ہمیشہ ہی ہمارے ساتھ ''Love & Hate‘‘ کا رشتہ رکھا ہے۔
جغرافیائی اعتبار سے خطے میں وطنِ عزیز یقینا غیر معمولی اور ناقابلِ تردید اہمیت کا حامل ہے۔اس تناظر میں جب جب امریکہ کو ہماری خدمات اور تعاون درکار رہا‘ تب تب ہم آنکھ کے تارے اور ناگزیر اہمیت کے حامل رہے۔ جوں جوں ہماری ضرورت کم ہوتی چلی گئی توں توں ہماری اہمیت میں کمی واقع ہوتی رہی اور بتدریج کم ہوتے ہوتے اکثر اوقات ثانوی سے بھی کم ہوکر قطعی غیر متعلقہ بھی ہوتی رہی ہے۔ ہماری وفاؤں کو جفاؤں سے منسوب کیا جاتا رہا ہے۔ اکثر ہمیں محرم سے مجرم قرار دینے میں کبھی کوئی تامل یا ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی گئی۔
روس اور افغانستان جنگ میں امریکی مفادات اور ترجیحات کے عین مطابق‘ وطن عزیز نے تعاون اور عملی جدوجہد کا مظاہرہ کیا۔افغانستان سے روسی افواج کے مکمل انخلا تک پاکستان اس آگ کا ایندھن بنا رہا اس تعاون کے نتیجے میں جغرافیائی سرحدوں سے لے کر ہماری سماجی اور اخلاقی قدروں تک سبھی کچھ بری طرح متاثر ہوا ‘جس کے اثرات ہم آج بھی بھگت رہے ہیں۔ وطنِ عزیز افغانوں کی سب سی بڑی اور محفوظ ترین پناہ گاہ تصور کی جاتی تھی۔ بھائی چارے سے لے کر ''چشم ما روشن دِل ما شاد‘‘ کا ایسا ایسا مظاہرہ کیا گیا کہ پناہ گزین وطن عزیز کے کونے کونے میں اس طرح پھیلے کہ پھر انہیں پھلنے پھولنے سے کوئی نہ روک سکا۔
سماجی ناہمواریوں سے لے کر اخلاقی قدروں کی پامالی تک‘ ممنوعہ اسلحہ سے لے کر لاقانونیت تک‘ وطن عزیز کے معماروں کی رگوں میں نشے کا زہر اتارنے سے لے کر دیگر غیر قانونی سرگرمیوں تک سبھی کچھ اس قوم نے اس طرح بھگتا ہے کہ ''الامان الحفیظ‘‘۔ اسی طرح کبھی پریسلر ترمیم کے نتیجے میں سختیاں اور پابندیاں ہمارا مقدربنیں تو کبھی ایٹمی دھماکوں کے بعد ہمارا معاشی اور اقتصادی بائیکاٹ کر کے سزا دی گئی۔ 9/11 کے بعد پاکستان کو کھلی دھمکی دی گئی کہ اگر اس نے طالبان کے خلاف امریکہ اور اتحادی افواج کے ساتھ تعاون نہ کیا تو ہمیں پتھر کے زمانے میں پہنچا دیا جائے گا۔ 1979ء میں افغانستان پر روسی حملے کے نتیجے میں پہلے ہمیں روس کے خلاف افغانستان کے دفاع میں استعمال کیا گیا‘ جبکہ 2001ء میں 9/11 کے بعد افغانستان کو مقامِ عبرت بنانے کے لیے ایک بار پھر ہمیں اپنی سرزمین کے ساتھ ساتھ عملی تعاون بھی پیش کرنا پڑا۔
1979ء میں روسی جارحیت کے خلاف ہمیں افغانستان کے دفاع پر مامور کیا گیا‘ جبکہ 2001ء میں افغانستان کے خلاف اتحادی افواج کی سہولت کاری کے لیے استعمال کیا گیا۔ دونوں مرتبہ حکم امریکہ کا تھا‘ لیکن پہلی مرتبہ افغانستان پر مہربان ‘جبکہ دوسری مرتبہ قہر بن کر نازل ہوا۔ وطنِ عزیز کو دونوں مرتبہ ہی امریکہ کی ترجیحات کے مطابق ‘اپنا ہدف بدلنا پڑا۔ تعاون اور عملی جدوجہد کے عوض پاکستان کو تھوڑا بہت معاشی ریلیف ملتا رہا اور امریکہ کی طرف سے ''Do More‘‘ کا مطالبہ بھی زور پکڑتا رہا۔
طالبان کے خلاف اس جنگ کی قیمت بھی ہماری سرزمین کو چکانا پڑی۔دہشت گردی کے خلاف جنگ ہمارے گلے پڑ گئی۔ ملک بھر میں دہشت گردی کی وہ لہر چلی کہ ہماری مسلح افواج سے لے کر قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں تک‘ معصوم اور نہتے عوام سے لے کر ملکی املاک کو اس جنگ کی مزاحمت اور شدید ردِّعمل کا سامنا ہے۔ وطن عزیز کے کونے کونے سے بارود اور خون کی بُو آج بھی فضا میں بسی ہوئی ہے۔ طالبان سے مبینہ تعلق اور بالواسطہ یا بلاواسطہ رابطے کے الزام کی بنیاد پر جس پر امریکہ بہادر نے انگلی رکھ دی اُسے آن کی آن میں امریکی ایجنسیوں کے حوالے کر دیا گیا۔ امریکہ کے حوالے کیے جانے والے پاکستانی شہریوں کی طویل فہرست اور اُن پر ڈھائے جانے والے مظالم آج بھی ریکارڈ کا حصہ ہیں۔ اس حوالے سے ہماری ریاست خاموش تماشائی اور بے بسی کی تصویر بنی رہی۔ امریکہ سمیت دیگر بین الاقوامی ایجنسیاں ہمارے ملک میں دندناتی رہیں اور من مرضی کے فیصلے اور اقدامات کرواتی رہیں‘ جن کی تفصیل میں جانے کے لیے ایسے کئی کالم بھی ناکافی ہیں۔
خیر بات ہو رہی تھی پاک امریکہ تعلقات کے اُتار چڑھاؤ کی‘ کبھی یہ تعلقات قابلِ رشک رہے تو کبھی ہمیں بھی شک کی نگاہ سے دِیکھا جاتا رہا ''Do More‘‘ کا امریکی مطالبہ اس قدر بڑھتا چلا گیا کہ ہماری غیرتِ قومی سے لے کرخود مختاری تک سبھی متاثر ہوتی چلی گئی۔ امریکی توقعات اور مطالبات اس قدر بڑھ گئے کہ پاکستان کی تمام تر قربانیوں کے باوجود شک کا عنصر نہیں گیا۔ کبھی وطن ِ عزیز کو دہشت گردوں کی آماجگاہ قرار دیا جاتا تو کبھی شریک ِجرم جیسے بے بنیاد الزامات کا سامنا کرنا پڑا۔
اہداف اور مطلب پورا ہوتے ہی نظریں اور منہ ایسے پھیر لیا جاتا رہا گویا ''کام ختم‘ تعلق ختم‘‘ اور ہم سب کچھ لٹا کر بھی تہی دست اور دستِ نگر ہی رہے۔نہ تو ہماری کوئی قربانی کام آئی اور نہ ہی کوئی تعاون۔ اقتصادی اور معاشی صورتحال بھی کچھ ایسی ہی رہی۔ جب امداد آگئی تو موج ہوگئی نہ آئی تو عوام کو کشکول توڑنے اور خودانحصاری جیسے ڈھکوسلوں اور دلاسوں سے بہلایا جاتا رہا۔ بیرونی قرضوں کی قسط اور سود کی ادائیگی کے لیے بھی امداد اور مزید قرضے حاصل کرنے کے لیے غیرتِ قومی اور خودمختاری کو بھی داؤ پر لگایا جاتا رہا۔ نوازشریف سے لے کر بے نظیر تک‘ جنرل مشرف سے لے کر آصف علی زرداری تک سبھی حکمران اسی کام میں اپنا اپنا حصہ بڑھ چڑھ کر ڈالتے رہے۔
اب عمران خان امریکی دورے پر ہیں‘صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ امریکہ نے پاکستان کی امداد اس لیے بند کی تھی کہ پاکستان اس کی توقعات کے مطابق کام نہیں کر رہا تھا۔ امریکی صدر نے امداد کی مشروط بحالی کا اشارہ بھی دیا ہے‘ لیکن اس کے لیے پاکستان کو افغانستان سمیت خطے کے دوسرے معاملات میں امریکی توقعات کے مطابق کام کرنا ہوگا۔ ٹرمپ نے پاکستان سے تجارت کو دس گنا کرنے کی بات بھی کی ہے‘ جبکہ طالبان کی طرف سے جنگ بندی کرنے اور اشرف غنی سے بات چیت جیسے اہداف بھی اس امداد سے مشروط نظر آتے ہیں‘ جبکہ دور کی کوڑی لانے والے یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ایران سعودیہ کشیدگی بھی پاک امریکہ تعلقات میں بہتری کا باعث بن رہی ہے۔ سعودی فرمانروا چند روز قبل ہی امریکی فوج کی سعودی عرب میں تعیناتی کی منظوری دے چکے ہیں۔ پہلے مرحلے میں پانچ سو امریکی فوجی پرنس سلطان ایئربیس پر تعینات کیے جائیں گے۔ پیٹریاٹ میزائل سسٹم کی تنصیب چند ہفتوں میں مکمل ہو جائے گی۔ یہ ساری اقدامات سعودی عرب کی ایران سے بڑھتی ہوئی کشیدگی کے پیش نظر کیے جارہے ہیں۔ اس تناظر میں ضرورت اس اَمر کی ہے کہ ماضی کی طرح ''ڈنگ ٹپاؤ‘‘ پالیسی اختیار کرنے کی بجائے پاک امریکہ تعلقات کو تاریخی پسِ منظر میں دیکھا جائے اور ''لمحۂ موجود‘‘ پر فوکس کیا جائے اور اپنی سٹریٹیجک پوزیشن کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے ملک و قوم کے لیے مستقل حکمت عملی ترتیب دی جائے‘ جو معاشی اور اقتصادی استحکام سے مشروط ہو۔ امریکہ سے وقتی رومانس کے نشے کو اپنے حواسوں پر چڑھانے سے بہتر ہے کہ زمینی حقائق اور ماضی میں ہونے والی غلطیوں اور کھائے جانے والے دھوکوں اور جھانسوں سے سبق حاصل کیا جائے‘ کیونکہ: بقول شاعر؎
یہ ضرورتوں کا خلوص ہے‘ یہ مطالبوں کا سلام ہے
یونہی روز ملنے کی آرزو‘ بڑی رکھ رکھاؤ کی گفتگو
لمحۂ موجود ہی سب کچھ ہے آج کے فیصلوں کی فصل کل کاٹنا ہو گی‘ جس طرح ماضی میں کیے جانے والے فیصلوں کی فصل آج پوری قوم کاٹ رہی ہے‘ تاہم عمران خان صاحب کے دورۂ امریکہ کی کامیابی یا ناکامی کا فیصلہ آنے ولا وقت ہی کرے گا کہ عمران خان ملک و قوم کے لیے کیا لے کر آتے ہیں اور اس کے بدلے میں کیا دے کر آتے ہیں وہی بڑی خبر ہوگی۔