نہ جانے وہ کون سا آسیب ہے جو حکمرانوں سے ایسے فیصلے کروا دیتا ہے کہ پسپائی کے ساتھ ساتھ جگ ہنسائی کا باعث بھی بنتے ہیں۔ پسپائی‘ رسوائی اور جگ ہنسائی کا باعث بننے والے فیصلوں اور اقدامات کے پسِ پردہ کردار کہیں باہر سے نہیں آتے بلکہ حکمرانوں کے ارد گرد‘ آگے پیچھے پھرنے والے ہی ہوتے ہیں۔ انہیں ''عرفِ عام‘‘ میں شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار کہا جاتا ہے۔ وہ اپنی وفاداری کو مسلمہ ثابت کرنے کے چکر میں حکمرانوں کو بھی چکر دے جاتے ہیں‘ جن کا خمیازہ اور نتائج حکمرانوں کو ہی بھگتنے پڑتے ہیں۔ یہ فیصلے سیاسی ہوں یا انتظامی ان کا ردِ ّعمل حکمرانوں کی سیاست اور ساکھ دونوں کو ہی یکساں متاثر کرتا ہے۔
شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ہر دورِ میں حکمرانوں کی رسوائی اور جگ ہنسائی کا باعث بنتے چلے آئے ہیں۔ تحریک انصاف اس ''پروڈکٹ‘‘ میں کافی خودکفیل ہے۔ ڈی پی او پاکپتن کے تبادلے سے لے کر عرفان صدیقی کی گرفتاری اور رہائی تک درجنوں واقعات ریکارڈ کا حصہ ہیں‘ جو حکومت کے لیے پسپائی اور جگ ہنسائی کا باعث بن چکے ہیں۔ عرفان صدیقی کی سیاسی وابستگی اور حکومتی تحفظات ایک طرف‘ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس گرفتاری کا مشورہ کس سقراط بقراط نے دیا تھا؟ کوئی تو اس ایڈونچر کا ماسٹر مائنڈ ہو گا۔ وہ ماسٹر مائنڈ تو یقینا بچ ہی نکلے گا اور حسب روایت سارا ملبہ ضلعی انتظامیہ اور پولیس پر ڈال دیا جائے گا۔ انکوائریاں ہوں گی اور کچھ معطلیاں اور تبادلے کر کے معاملہ رفع دفع کر دیا جائے گا۔ لیکن مزے کی بات یہ کہ اگلے کسی ایسے ہی ایڈونچر کا مشورہ دینے والا بھی وہی مشیر یا کوئی اُس جیسا ہی ہو گا۔
نتائج اور ردِ ّعمل سے بے نیاز حکمران پھر اسی مشورے پر عمل کریں گے جبکہ رسوائی اور جگ ہنسائی کی قیمت حسبِ روایت کسی انتظامی یا پولیس افسر کو چکانا پڑے گی۔ اسے ''بَلی کا بکرا‘‘ بنا کر گورننس اور سیاسی رواداری کا ڈھنڈورا پیٹا جائے گا۔ یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا ہے اور چلتا رہے گا۔ چیف جسٹس آف پاکستان جناب آصف سعید کھوسہ نے بھی عرفان صدیقی کی گرفتاری کا نوٹس لیتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کے اس اقدام پر عدلیہ کو شرمندگی ہے۔ بہرحال یہ معمہ تا حال حل طلب ہی ہے کہ عرفان صدیقی کو قانونِ کرایہ داری کی خلاف ورزی میں گرفتار کرنے کا مشورہ اور فیصلہ کہاں ہوا۔ لگتا ہے حکومتی صفوں میں ایسے ماسٹر مائنڈ مشیر بھی ہیں جو اَپوزیشن خصوصاً مسلم لیگ ن کے ایجنڈے پہ کام کر رہے ہیں اور حکومتی جگ ہنسائی اور رسوائی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔
واقفانِ حال بخوبی جانتے ہیں کہ اکثر ماسٹر مائنڈ حکومتی چیمپئنز اعلیٰ سرکاری افسران کو ایسا ایسا فرمان جاری کرتے ہیں کہ سننے والا دنگ رہ جائے۔ توہین عدالت کے خدشے اور اندیشے کے باوجود پی ٹی وی کے بورڈ اور ڈائریکٹرز کے اجلاس کے انعقاد کے لیے افسران کو کس حکومتی چیمپئن نے کس کس طرح مجبور کیے رکھا؟ بد قسمتی سے ہر دور میں حکمرانوں کے ذاتی رفقا اور مصاحبین نامعلوم اہلیت اور صفر کارکردگی کے ساتھ امور حکومت میں دخل اندازی کو اپنا استحقاق سمجھتے ہیں اور جب سرکاری عہدے کا ''دُم چھلاّ‘‘ لگ جائے تو 'روک سکو تو روک لو‘ والا منظر نظر آتا ہے۔
دور کی کوڑی لانے والے تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ عرفان صدیقی کی اَسیری اور رہائی کا معمہ بس معمہ ہی رہے گا کیونکہ سارا کیس ہی ''مِس ہینڈل‘‘ ہوا ہے اور مِس ہینڈل ہوتے ہی 'اُلٹی ہو گئیں سب تدبیریں‘ والا معاملہ ہو گیا‘ اور عرفان صدیقی کو سبق سکھانے کے خواہش مند نا صرف خواہش سے دست بردار ہو گئے بلکہ ٹاسک پر کام کرنے والوں کو بھی اپنی اپنی نوکریوں کے لالے پڑ گئے۔ خیر اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں... راج نیتی میں یہ سبھی کچھ چلتا ہے لیکن اس سارے ڈرامے کا ڈراپ سین حکومتی پسپائی‘ رسوائی اور جنگ ہنسائی پر ہی ہوا۔ اس پر صرف یہی کہا جا سکتا ہے کہ ''کیا اِسیری ہے...کیا رہائی ہے‘‘۔
قارئین! اب چلتے ہیں ذرا عوام الناس کی حالتِ زار کی طرف مہنگائی گرانی اور معاشی بد حالی کا ذمہ دار تو سابق حکومت کو ٹھہرایا ہی جا رہا ہے لیکن تھانہ‘ پٹوار اور ہسپتال سمیت دیگر سرکاری محکموں میں دھتکار اور پھٹکار کے سارے مناظر جوں کے توں کیوں ہیں؟ اس میں کون سی راکٹ سائنس ہے؟
وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار سے گزارش ہے کہ وہ وزارت صحت والوں سے کبھی تو پوچھیں کہ وہ کن کاموں میں مگن اور الجھے رہتے ہیں۔ ان کی مہارت اور وزارت کی صورت حال یہ ہے کہ ہسپتالوں میں وائی ڈی اے کا عمل دخل تا حال برقرار اور انتظامیہ بے بس نظر آتی ہے۔ ادویات اور دیگر طبی سہولیات کے لیے عوام آج بھی دربدر ہیں۔
بلڈ کینسر کے پانچ ہزار رجسٹرڈ مریضوں کو ادویات کی فراہمی کیوں بند کی گئی جبکہ اِن مریضوں کو سرکاری طور پر ملنے والی ادویات کے تقریباً نوے فیصد اخراجات ایک دوا ساز کمپنی برداشت کر رہی تھی یعنی ایک سال میں مریضوں کو فراہم کی جانے والی ادویات کے صرف دو ماہ کے اخراجات بذمہ سرکار جبکہ بقایا دس ماہ کے اخراجات مذکورہ کمپنی برداشت کرتی تھی۔ ان مریضوں کو سی ایم ایل (کرانک مائیولائیڈ لیکیومیا) پروگرام کے تحت رجسٹرڈ کیا جاتا تھا اور انہیں باقاعدگی سے ادویات فراہم کی جاتی تھیں۔ اس پروجیکٹ کے مریضوں کو نظر انداز کیا گیا اور نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ خون کے سرطان میں مبتلا یہ مریض ادویات کے حصول کے لیے کئی ماہ دربدر پھرتے رہے اور احتجاج کے باوجود بھی تا حال ادویات کی فراہمی سے محروم ہیں۔
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق پنجاب میں خون کے سرطان کے مریضوں کو مفت ادویات کی فراہمی کا پروجیکٹ سی ایم ایل بند کر دیا گیا ہے جبکہ بلوچستان، سندھ اور خیبر پختونخوا میں یہ پروجیکٹ نہ صرف جاری ہے بلکہ مریضوں کو ادویات بھی فراہم کی جا رہی ہیں۔ صوبہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے بلڈ کینسر کے مریضوں سے سوتیلوں جیسا سلوک ناقابلِ فہم ہے۔ کینسر اور ہیپاٹائٹس کے مریضوں کو بروقت دوا نہ ملنے پر ان کی اذیت اور تکلیف کا ذمہ دار کون ہے؟ پَل پَل جینے اور پَل پَل مرنے والوں کا کون پرسانِ حال ہے؟
ڈینگی کی روک تھام کے لیے بروقت حفاظتی انتظامات کیوں نہیں کیے گئے؟ دس ماہ کے دوران حکومتِ پنجاب نے کابینہ کمیٹی برائے ڈینگی کے کتنے اجلاس منعقد کیے اور ان کی کارکردگی کیا ہے؟ صوبائی دارالحکومت میں انسٹیٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ (مینٹل ہسپتال) میں مریضوں پر تشدد کا ذمہ دار کون ہے؟ حال ہی میں مبینہ تشدد سے مرنے والے مریض کی ہلاکت کی انکوائری کا کیا بنا؟ ان سوالوں کے جواب کون دے گا؟
آخر میں چلتے چلتے کچھ احوال پولیس کا بھی ہو جائے۔ مالی بد عنوانی میں ملوث پولیس افسران کے گرد گھیرا تنگ کر دیا گیا ہے۔ یہ بھی بتاتا چلوں کہ پولیس شہدا فنڈز پر ہاتھ صاف کرنے والے پولیس افسران جان خلاصی کے لئے بھاگ دوڑ میں مصروف ہیں جبکہ کچھ افسران پہلے سے ہی بیرونِ ملک بیٹھ کر تفتیشی افسران کو ڈرانے دھمکانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس پر آئندہ کسی کالم میں تفصیل سے بات کریں گے۔ صوبائی دارالحکومت میں سی سی پی او کی طرف سے چین آف کمانڈ کی پالیسی اکثر افسران کے لیے نعمت بن چکی ہے۔ افسران کی یہ نعمت عوام کے لیے زحمت بنتی چلی جا رہی ہے۔ یاد رہے کہ سی سی پی او لاہور انٹرنیشنل پولیسنگ کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور طویل عرصہ یو این مشن میں اہم ذمہ داریاں نبھا چکے ہیں۔ اس تناظر میں وہ ہیومن رائٹس اور چین آف کمانڈ کی پالیسی پر یقین رکھتے ہیں لیکن بعض ایس پی صاحبان سی سی پی او اس پالیسی کا ناجائز فائدہ اٹھا کر انصاف اور داد رسی میں رکاوٹ بن رہے ہیں کیونکہ مذکورہ ایس پی صاحبان یہ بخوبی جانتے ہیں کہ سی سی پی او تھانہ کی سطح پر مداخلت کرنے کے بجائے ہماری بریفنگ اور ڈی بریفنگ پر ہی انحصار اور اعتماد کرتے ہیں۔ یہی انحصار اور اعتماد عوام کیلئے دن بدن عذاب بنتا چلا جا رہا ہے جبکہ اعلیٰ افسران کو ادھورا سچ بتا کر من مرضی کا انصاف فراہم کیا جا رہا ہے۔ ایسے افسران کی حوصلہ شکنی اور جواب طلبی ہونی چاہیے تاکہ وہ اعلیٰ افسران کی مزید بدنامی اور بیڈ گورننس کا باعث نہ بن سکیں۔