"AAC" (space) message & send to 7575

ہر طرف آدمی کا شکار آدمی

قارئین! آج کئی خبریں ایسی ہیں جن پر کُڑھنے اور ماتم کرنے کے سوا کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ نا اُمیدی کے سائے اتنے لمبے اور بے یقینی کے گڑھے اتنے گہرے ہو چکے ہیں کہ یوں لگتا ہے جیسے کوئی آسیب پھر گیا ہو۔ ان خبروں میں سے چند ایک پر آپ کو بھی اس ماتم میں شامل کرنے جا رہا ہوں۔ جعلی ادویات سے لے کر جعلی خوراک اور جعلی پیروں فقیروں سے لے کر حکمرانوں کے جعلی احکامات تک‘ سبھی نے ملک بھر میں دھمال ڈال رکھی ہے۔ سرگودھا کے نواحی علاقے میں 21 روز قبل جعلی پیر کے تشدد کا نشانہ بننے والا آٹھ سالہ عادل لاہور کے ہسپتال میں دَم توڑ گیا ہے۔ ایسی منحوس خبریں ہمارے معاشرے میں روزانہ سننے اور دیکھنے کو ملتی ہیں۔ 
عادل کی ماں اس کو جعلی پیر سے دَم کروانے لے کر گئی تھی۔ اس پیر کا دَم بچے کے لیے بم ثابت ہوا۔ وہ اس کے عمل کا متحمل نہ ہو سکا اور جان دے گیا۔ ضعیف الاعتقادی اور جہالت کا مجموعہ‘ ہمارے عوام جب تک ان جعلی پیروں کے پاس جاتے رہیں گے ایسی ہلاکتیں بھی جاری رہیں گی۔ ان پیروں کے پاس جانے والے جہلا کی عقل پر بس ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔ اکثر کیسز میں یہ عقل کے اَندھے سانپ کے کاٹے پر بھی ڈاکٹر کے پاس لے جانے کے بجائے مریض کو عاملوں کے پاس لیے پھرتے ہیں۔ وہ بد بخت جعلی عامل بھی اپنی دکان داری کے چکر میں دَم کر کے بھیج دیتا ہے اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ لاش لے کر گھر آ جاتے ہیں اور اسی جعلی پیر کے بارے میں انتہائی اعتقاد سے کہتے ہیں کہ بابا جی نے تو دَم کر دیا تھا لیکن اﷲ کی طرف سے بلاوا آ گیا۔
خیر یہ جہالت دور دراز دیہاتوں ہی میں نہیں بلکہ شہروں میں بسنے والے اچھے خاصے سیانے بھی ان جعلی پیروں کے ہتھے چڑھ کر اپنی عزت سے لے کر جانیں تک گنوانے کے باوجود اِن کے آستانوں پر جانے سے باز نہیں آتے۔ یہ جعلی پیر عزتوں کی پامالی سے لے کر لمبا مال بٹورنے تک سبھی کچھ انتہائی بے حسی اور سفاکی سے کرتے چلے آ رہے ہیں۔ نا تو انہیں کوئی پوچھنے والا ہے اور نا ہی ان کے پاس جانے والوں کو کوئی روکنے والا ہے۔ ذلت اور بربادی کے کنویں میں بھاگ کر کودنے والے کو بھلا کون روک سکتا ہے؟ ایسے ہی اِن جعلی پیروں کے پاس جانے والوں کو بھی کوئی نہیں روک سکتا۔ گویا: ؎
منحصر مرنے پہ ہو جس کی اُمید 
نا اُمیدی اس کی دیکھا چاہیے 
قصور کے گرد و نواح میں مزید تین بچے اغواء کر لیے گئے ہیں۔ بچوں کے حوالے سے ہمارا معاشرہ غیر محفوظ ثابت ہو چکا ہے۔ ہسپتالوں سے نومولود بچوں کے اغوا سے لے کر گلی محلوں میں کھیلتے کودتے بچوں تک کون کہاں محفوظ ہے؟ انتہائی شرم اور ڈوب مرنے کا مقام ہے۔ جو ریاست اور معاشرہ معصوم بچوں کی حفاظت نہیں کر سکتے اُن سے کیا اُمید لگائی جا سکتی ہے؟ بچوں کے اغواء اور ان سے درندگی کے واقعات ہمارے ہاں روزمرہ کا معمول بنتا چلا جا رہا ہے۔ زمین کانپ جاتی ہے لیکن ان درندوں کے قدم ڈگمگاتے ہیں نہ ہی ان کے ہاتھ کانپتے ہیں۔
تین روز قبل آنے والے زلزلے میں میلوں میل زمین ایسے پھٹ پڑی گویا کسی نے اجتماعی قبر کھود دی ہو۔ کاش اس زلزلے میں معصوم اور بے گناہ مرنے والوں کے بجائے بچوں کے اغواء اور درندگی کے مرتکب افراد سمیت جعلی پیروں اور جعلی ادویات و خوراک کے ذریعے معصوم شہریوں کو ہلاکت میں ڈالنے والے سبھی ناسور اس پھٹی زمین کا رِزق بن جاتے اور وہ بوجھ کم ہو جاتا جو یہ دھرتی نہ جانے کب سے اُٹھائے پھر رہی ہے۔ انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ ان ناسوروں اور سفاک قاتلوں کو آج تک عبرت کا ایسا نشان بنایا ہی نہیں گیا جسے دیکھ کر کسی کی روح کانپتی اور اس پر انجام کے تصور سے لرزہ طاری ہو جاتا۔ 
ظلم کمانے والے ہوں یا ظلم کا نظارہ دیکھنے والے‘ جب معاشرے میں سزا کا خوف ختم ہو جائے تو نہ جرم ختم کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی مجرم۔ ایسے معاشرے میں جرائم پلتے ہیں اور مجرم دندناتے پھرتے ہیں۔ جب تک دھرتی کے یہ سارے بوجھ دیکھنے والوں کے لیے عبرت نہ بن جائیں اس وقت تک یہ ظلم، درندگی اور بربریت جاری رہے گی اور حکمران نوٹس لیتے رہیں گے‘ بھاشن دیتے رہیں گے اور فوٹو سیشن کرواتے رہیں گے لیکن درندگی اور شرمندگی کے سارے مناظر اسی طرح چلتے رہیں گے۔ 
کسی مہذب معاشرے میں تصور ہی نہیں کیا جا سکتا کہ بچوں کی بنیادی خوراک دودھ میں بھی کوئی ملاوٹ کر سکتا ہے۔ اسی طرح جان بچانے والی ادویات جب زہر قاتل بن جائیں اور اشیائے خور و نوش گردوں، جگر اور دیگر جان لیوا امراض کا باعث بننے لگیں تو اس کا واحد حل اجتماعی قبر ہی ہے۔ یہ ساری درندگیاں اور شرمندگیاں ایک ہی قبر میں دفن کر کے نازک ترین صورت حال سے دوچار ''وینٹیلیٹر‘‘ پر پڑے اس معاشرے کو زندگی دی جا سکتی ہے۔ عصرِ حاضر میں معاشرے کی صورت حال کچھ یوں بن چکی ہے: ؎
ہر طرف ہر جگہ بے شمار آدمی
پھر بھی تنہائیوں کا شکار آدمی
صبح سے شام تک بوجھ ڈھوتا ہوا 
اپنی ہی لاش کا خود مزار آدمی
ہر طرف بھاگتے دوڑتے راستے 
ہر طرف آدمی کا شکار آدمی 
روز جیتا ہوا روز مرتا ہوا 
ہر نئے دن نیا انتظار آدمی 
زندگی کا مقدر سفر در سفر 
آخری سانس تک بے قرار آدمی 
کچھ احوال ان پناہ گاہوں کا بھی ہو جائے جن کے ملازمین خود پناہ مانگتے پھر رہے ہیں۔ انصاف سرکار کے برسرِ اقتدار آتے ہی جناب وزیر اعظم نے خاتونِ اوّل کی خواہش پر نادار اور بے آسرا لوگوں کے لیے ملک بھر میں پناہ گاہیں قائم کرنے کا اعلان کیا تھا اور کئی شہروں میں یہ پناہ گاہیں قائم بھی کی گئیں۔ اب یہ پناہ گاہیں فنڈز کی کمی کا شکار ہو چکی ہیں۔ تنخواہیں نہ ملنے کی وجہ سے اکثر ملازمین نوکری چھوڑ کر جا چکے ہیں۔ یہ صورت حال کچھ عرصہ اور جاری رہی تو یہ پناہ گاہیں بزدار سرکار سے پناہ مانگتی نظر آئیں گی اور عین وہی منظر پیش کریں گی جو ماضی میں ایسے پروجیکٹس کا ہوتا آیا ہے۔ حوالے کے لیے عرض کرتا چلوں کہ آٹھ سو سال قبل خاندانِ غلاماں نے مسافروں، بے آسرا اور بے گھروں کے لیے سرائیں تعمیر کرنے کا آغاز کیا۔ اس دور میں یہ عمل طرز حکمرانی میں ایک جدید اضافہ تھا۔ اس کے بعد سلاطین دہلی اور مغلوں نے بھی اس روایت کو دوام بخشا۔
مملکت خدا داد کے معرض وجود میں آنے کے بعد 1956 میں اسکندر مرزا کی بیگم ناہید مرزا نے شہر کے مضافات میں ناداروں، بھکاریوں اور بے آسرا افراد کیلئے شیلٹر ہوم قائم کیا تھا‘ جو حکومتی کوششوں کے باوجود زیادہ دیر نہ چل سکا۔ بالآخر اس شیلٹر ہوم کی جگہ ہسپتال بنانا پڑا جو بعد ازاں ایک بڑے ہسپتال میں تبدیل ہوا اور اسے آج ہم انسٹیٹیوٹ آف نیورو سائنسز اور جنرل ہسپتال کے نام سے جانتے ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان نے برسرِ اقتدار آتے ہی صوبائی دارالحکومت لاہور میں پہلے شیلٹر ہوم (پناہ گاہ) کا سنگ بنیاد رکھا اور اس عزم کا اعادہ بھی کیا کہ وہ کراچی، پشاور اور راولپنڈی میں بھی اسی نوعیت کی ''پناہ گاہیں‘‘ بنا کر لوگوں کو غربت کی لکیر سے نہ صرف اوپر لائیں گے‘ بلکہ آئندہ چند روز میں اس طبقے کے لیے خصوصی پیکیج بھی لائیں گے۔ یہ اقدام وزیر اعظم کی خوش گمانی ہی ثابت ہوا۔ بنائی گئی تمام پناہ گاہیں نہ تو اس طرح سے آباد ہو سکیں اور نہ ہی انہیں وہ فنڈز فراہم کیے جا سکے‘ جس کا دعویٰ اور وعدہ جناب عمران خان نے کیا تھا۔ اب یہ عالم ہے کہ لاہور کی ساری پناہ گاہیں بے پناہ مسائل کا شکار ہو چکی ہیں۔ جن پناہ گاہوں نے نادار اور بے آسرا لوگوں کو اپنے اندر سمونا تھا وہ پناہ گاہیں خود ٹوٹ پھوٹ اور بد حالی کا شکار نظر آتی ہیں۔ ان پناہ گاہوں کا انجام بھی کہیں اُس شیلٹر ہوم جیسا نہ ہو جو اسکندر مرزا نے خاتونِ اوّل بیگم ناہید مرزا کی خواہش پر بنوایا تھا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں