"AAC" (space) message & send to 7575

رہبروں نے بھی کیا کمی کی تھی

کالم کے باقاعدہ آغاز سے پہلے کچھ احوال اس ستم رسیدہ خاندان کا جو اس بندے مار پولیس افسر کی بربریت کا نشانہ بنا جسے آصف علی زرداری بہادر بچے کا خطاب دے چکے ہیں۔ کراچی میں پولیس گردی کے نتیجے میںناحق مارے جانے والے نقیب اﷲ محسود کے والد محمد خان کے انتقال پر پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے اظہارِ افسوس کرتے ہوئے متاثرہ خاندان کو یقین دلایاہے کہ ان سے انصاف کی فراہمی کا کیا گیا وعدہ ضرور پورا ہوگا۔ آرمی چیف کی طرف سے اظہارِ تعزیت اور وعدہ پورا کرنے کا عزم یقینا خوش آئندہ اور حوصلہ افزا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے تو متاثرہ خاندان کو انصاف فراہم کرنے میں تاحال ناکام ہیں‘ جبکہ پاک فوج سے بجا طور پر اُمید کی جاسکتی ہے کہ وہ ناحق مارے جانے والے نقیب اﷲ محسود کے اہلِ خانہ کو انصاف ضرور دلائے گی۔ تقریباً دو سال ہونے کو آئے متاثرہ خاندان انصاف کے لیے مارا مارا پھر رہا ہے اور مقتول کا والد انصاف کی راہ تکتے تکتے خود راہیٔ ملکِ عدم ہوگیا۔ 
کئی خبریں ایسی ہیں جن پر کُڑھنے اور ماتم کرنے کے سوا کچھ نہیں کیا جاسکتا... نااُمیدی کے سائے اتنے لمبے اور بے یقینی کے گڑھے اتنے گہرے ہو تے چلے جارہے ہیں کہ یوں لگتا ہے جیسے کوئی آسیب پھر گیا ہو۔ ان خبروں میں سے چند ایک پر آپ کو بھی اس ماتم میں شامل کرنے جارہا ہوں۔ دادو میں 10سالہ بچی کو سنگسار کر کے مار دیا گیا۔ قمبر میں ریٹائرڈ ڈی ایس پی نے پنچایت لگا کر دو بچیوں کو وِنی کر دیا ‘جبکہ جامشورو میں پولیس کے شیر جوانوں نے گھر میںگھس کر 13سالہ بچے پر تشدد کر کے اس کی ٹانگ توڑ دی۔ وفاقی دارالحکومت میں کسٹمز حکام نے بڑی کارروائی کر کے دو مشہور و معروف فارمیسی برانڈز پر چھاپہ مار کر کروڑوں روپے کی مضر صحت اور ممنوعہ ادویات برآمد کر لی ہیں۔ مشہور و معروف فارمیسی برانڈز سے برآمد ہونے والی ادویات نہ صرف غیر معیاری ہیں بلکہ ان کا استعمال جان لیوا بھی ثابت ہوسکتا ہے۔ غضب خدا کا‘نام بڑے اور درشن چھوٹے۔ 
کسی مہذب معاشرے میں کوئی تصور ہی نہیں کر سکتا کہ بچوں کی بنیادی خوراک‘ دودھ میں بھی کوئی ملاوٹ کر سکتا ہے۔ اسی طرح جان بچانے والی ادویات جب زہر قاتل بن جائیں اور اشیاء خورونوش گردوں‘ جگر اور دیگر جان لیوا امراض کا باعث بننے لگیں‘ تو اس کا واحد حل اجتماعی قبر ہی ہے۔ یہ ساری درندگیاں اور شرمندگیاں ایک ہی قبر میں دفن کر کے نازک ترین صورتحال سے دوچار ''وینٹی لیٹر‘‘ پر پڑے اس معاشرے کو زندگی دی جاسکتی ہے۔ 
اب چلتے ہیں ان شریف حکمرانوں کی طرف‘ جن کے بارے میں احتساب کی تحقیقات بڑا بریک تھرو لے چکی ہیں۔ ملازمین اور اولادوں کے دوستوں کے نام پر بوگس اور فرنٹ کمپنیوں کے ذریعے کالا دھن اکٹھا کرنے کا نیا انکشاف ہوا ہے۔ میرے لیے یہ کوئی حیران کن اور اَچنبھے کی بات نہیں ہے۔ جو حکمران زلزلہ زدگان کے لیے آنے والی مالی امداد پر ہاتھ صاف کر جائیں اُن سے بڑا چور کون ہو سکتا ہے۔ اس پر ڈھٹائی کا عالم یہ ہے کہ چیخ چیخ کر کہتے ہیں کہ کوئی ایک دھیلے کی بھی کرپشن ثابت کر کے دِکھائے۔ ان کی لوٹ مار کی داستان اتنی طویل ہے کہ ایسے درجنوں کالم بھی ناکافی ہیں۔ 
آئیے اب ایک نظر ان شریف حکمرانوں کی طرزِ حکمرانی اور بوئے سلطانی کے زور پر کمائے گئے کالے دَھن پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ اخلاقی و سماجی قدروں سے لے کر نا جانے کہاں کہاں تک کیا کیا ٹوٹ پھوٹ چکا ہے۔ اقتدار اور اختیار کے زور پر کیسی کیسی ''انجینئرڈ‘‘ واردات نہیں کی گئی۔ ایل سی (لیٹر آف کریڈٹ) کھلوانے کے لیے بھی قرض لینے والے جیسے ہی ایوانِ اقدار میں داخل ہوئے تو کیسی ایل سی‘ کیسی کسٹم ڈیوٹی... بانڈڈ ویئر ہاؤس ہی اپنی فاؤنڈری میں بنوا لیا کرتے تھے۔ یعنی ''ہینگ لگے نہ پھٹکڑی اور رنگ بھی چوکھا‘‘۔ یہ واردات اس بے حسی سے کی جاتی کہ پوری منڈی ہی غیر متوازن ہوکر رہ گئی۔ حکمرانوں کا سکریپ اور لوہا دیگر سٹیل ملز پر بھاری پڑتا چلا گیا اور اتنا بھاری پڑا کہ اچھی بھلی سٹیل ملز ہلکی ہوتے ہوتے ہلکان ہو کر رہ گئیں۔ 
چشم فلک نے وہ منظر بھی دیکھا کہ بیواؤں اور ناداروں کے کوٹے سے جن ہستیوں کو پلاٹ دئیے گئے وہ بیش قیمت گاڑیوں پر متعلقہ دفتر آئیں۔ انہوں نے مہنگی پوشاکیں زیب تن کر رکھے اور غیر ملکی برانڈ کے چشمے لگا رکھے تھے۔ ناجانے کتنے پردہ نشینوں کے نام متعلقہ ادارے کے ریکارڈ میں دفن ہیں۔ کچھ نے تو الاٹمنٹ کو خفیہ رکھنے اور بدنامی کے ڈر سے ریکارڈ بھی ادھر اُدھر کروانے سے گریز نہیں کیا۔ ریکارڈ جلانے یا غائب کروانے کی حد تک تو وہ کامیاب ہیں لیکن اُن جائیدادوں، پلازوں اور پلاٹوں کو کیسے جھٹلائیں گے جس کے وہ خود اور ان کی آل اولاد بینی فشری ہیں۔ شریف حکمرانوں کے اقتدار کو استحکام دلوانے میں متعلقہ ادارے کے کلیدی کردار سے قطعی انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اس بندر بانٹ کا اگر ریکارڈ سامنے آ جائے تو عوام اور تحقیقاتی ادارے سارے پنامے بھول جائیں گے۔ مرکزی اور مہنگے ترین کاروباری مراکز میں چند سو روپے کے عوض پٹرول پمپس، نجی ہسپتالوں اور سکولوں کے لیے سرکاری اراضی کی بندر بانٹ صرف ایک ڈائریکٹو کی مار ہوا کرتی تھی۔ 
مفاہمت کے بادشاہ‘ جن کے دِل کی دھڑکیں بے ترتیب اور ہاتھوں پر رعشہ طاری ہے‘ بھی اس کام میں شریف حکمرانوں سے پیچھے نہیں رہے۔ ملکی و غیر ملکی کرنسی نوٹوں کی لانچیں بھر بھر کر نقل و حمل سے لے کر بے نامی اکاؤنٹوں‘ جائیدادوں‘ اونے پونے درجنوں شوگر ملز کے مالک بننے کے لیے قلانچیں بھرنے والوں سے کون واقف نہیں۔ بھاری رقوم کی ٹیلی گرافک ٹرانسفرز (ٹی ٹیوں)‘ اپنے قریبی حواریوں اور دوستوں کے نام پر قائم کی گئی کمپنیوں کے ذریعے بنایا گیا لمبا مال کون جھٹلا سکتا ہے۔ ملکی وسائل اور دولت کو سنگدلی اور بے رحمی سے لوٹنے والے اَسیروں کے کانپتے ہاتھوں اور ڈگمگاتے قدموں کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وہ معصوم، بیمار اور ہمدردی کے مستحق ہیں۔ ان کے دل کا ڈوبنا اور گھبراہٹ کسی بیماری کی نہیں‘ بلکہ مکافاتِ عمل کی بوکھلاہٹ ہے۔ یہ جب تک اَسیر ہیں یہ بیمار بن کر ہی اسیری کاٹیں گے۔ جونہی انہیں رہائی ملے گی‘ ان کی آنیاں جانیاں اور ضیافتوں میں اُڑائے جانے والے کھابے دیکھنے والے ہوں گے۔ 
وطن عزیز پر بیرونی قرضوں کا پہاڑ لادنے والے یہی حکمران اپنی دنیا سنوارنے کے لیے بے تحاشا قرضے تو لیتے ہی رہے لیکن جن منصوبوں کے لیے یہ قرضے حاصل کیے گئے ان منصوبوں کو بھی اپنے مفادات کے گرد ہی گھماتے رہے‘ یعنی ''آم کے آم‘گٹھلیوں کے دام‘‘۔ ماضی میں لیے گئے بیرونی قرضوں کے حوالے سے چند ہوش اُڑا دینے والے چشم کشا حقائق پیش ہیں۔ 
1988ء تک وطن عزیز پر بیرونی قرضوں کے بوجھ کا حجم 13 ارب ڈالر تھا۔ جمہوریت کے علمبردار حکمرانوں نے 1999ء تک یعنی صرف دس سال کے دوران اِن قرضوں کا حجم 39 ارب ڈالر تک پہنچا دیا۔ یاد رہے ان دس سالوں کے دوران بے نظیر بھٹو اور نواز شریف دو، دو مرتبہ وزارتِ عظمی کے بھرپور مزے لے چکے تھے۔ غضب خدا کا صرف دس سالوں میں 26 ارب ڈالر کہاں لگائے اور کہاں اُڑائے؟ یہ سب کچھ تو عیاں ہو ہی چکا ہے۔ اسی طرح 1999ء سے 2008ء جنرل مشرف کے عرصہ اقتدار میں 39 اَرب ڈالر کا قرضہ 40.6 اَرب ڈالر تک پہنچ گیا۔ بیرونی قرضوں پر جنرل مشرف کا یہ کنٹرول قابلِ تعریف و تقلید ہے۔ 
2008ء میں میثاقِ جمہوریت کے نام پر بننے والے گٹھ جوڑ کے نتیجے میں نواز، زرداری بھائی بھائی بن کر شہر اقتدار میں داخل ہوئے۔ 2008ء سے 2013ء تک زرداری نے اپنا سِکّہ چلایا تو اگلے پانچ سال 2013ء سے 2018ء تک وطن عزیز میں ''نواز راج‘‘ رہا۔ اِن دس سالوں میں یعنی 2008ء سے 2018ء تک مجموعی طور پر بیرونی قرضوں کا حجم 40.6 اَرب ڈالر سے 96 اَرب ڈالر تک پہنچا کر ہی دَم لیا۔ گزشتہ تیس سالوں کے دوران لیے جانے قرضوں کے حجم سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ سبھی ملکی خزانے کو کس بے دردی سے بھنبوڑتے رہے ہیں۔ آخر میں حبیب جالب کا ایک شعر پیشِ خدمت ہے:؎
رہزنوں نے جو رہزنی کی تھی 
رہبروں نے بھی کیا کمی کی تھی

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں