ہم اپنے مرنے تک نجانے کتنی بار مرتے ہیں... قطرہ قطرہ‘ریزہ ریزہ‘دھیرے دھیرے اور ٹکڑوں میں۔ نجانے کتنی بار...گویا ہمیں کیا بُرا تھا مرنااگر ایک بار ہوتا۔ یہ چلاچلی کا میلہ ہے‘ ہر کسی کو اپنی باری پر چلے ہی جانا ہے‘ لیکن جب بھی کوئی عزیز‘کوئی اپنا‘ کوئی پیارااس دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس کی موت کے ساتھ ہم بھی تھوڑے سے مر گئے ہیں۔ اس کی موت کی تلخی کو اپنے اندر یوں محسوس کرتے ہیں گویا چند قطرے موت ہمارے اندر بھی سرایت کر چکی ہے۔ہماری رگوں میں ایسے دندناتی پھرتی ہے گویا وہ لے جانے تو ہمارے کسی پیارے کو آئی تھی‘ لیکن اپنی نشانی ہماری رگوں میں بھی چھوڑ گئی ہے۔ ہم اس موت کو قطرہ قطرہ محسوس کرتے‘ ریزہ ریزہ بکھرتے اور ٹکڑوں میں تقسیم ہوتے چلے جاتے ہیں۔
گزشتہ روز بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ شام سات بجے کا وقت تھا‘ اپنے دفتر میں بیٹھا تھا کہ برادرِ عزیز عثمان بھٹہ کی فون کال نے سب کچھ ہی الٹ پلٹ کر رکھ دیا۔ عثمان بھٹہ نے خود بھی نجانے کتنی ہمت کر کے کال کی ہوگی کہ وہ بمشکل ایک ہی جملہ اد اکر سکا :''مرشد چلا گیا‘‘۔آفتاب تارڑ کو سبھی دوست مرشد کے نام سے پکارا کرتے تھے ‘ اور پھر فون پر موت کا سناٹا چھا گیا۔ میں نے تقریباً چیختے ہوئے کہا کہ کیا کہہ رہے ہو؟ لیکن دوسری طرف کوئی تھا ہی نہیں۔اس نے بھی بس جملہ ادا کیا اور سسکی لے کر کال منقطع کر دی۔ وہ فون کال نہیں ڈرون حملہ تھا‘ میری سماعت پر۔ مجھے تو خود کے لینے دینے پڑ گئے‘ اپنے اردگرد دیواریں اپنے ہی اوپر گرتی ہوئی محسوس ہونے لگیں۔ کاش کہ عثمان بھٹہ کی کال آجائے اور وہ کہے کہ آفتاب کی سانسیں بحال ہو چکی ہیں اور اسے وینٹی لیٹر سے علیحدہ کر دیا گیا ہے۔
ابھی اسی کیفیت میں مبتلا تھا کہ دوبارہ فون کی گھنٹی بجی اور دوسری طرف سے یاسین خان بولے: میں آرہا ہوں‘ اکٹھے ہی چلیں گے۔ میں نے پوچھا: کہاں؟ تو بولے: کیا بھول گئے آج چوہدری شفقات احمد کے بیٹے حیدر شفقات کا ولیمہ ہے... میں نے خود کو سنبھالا اور اوسان بحال کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا:کیا جانا ضروری ہے؟ میرے اس سوال پر انہیں بھی حیرت ہوئی اور بولے: خیریت تو ہے ؟ایسا سوچنا بھی نہیں‘چوہدری شفقات احمد کا ریمانڈ کون بھگتے گا؟ اور پھر حمزہ شفقات (ڈی سی صاحب) تو وارنٹ جاری کرنے میں دیر نہیں لگائیں گے‘ میں آرہا ہوں چلتے ہیں۔ یاسین خان کا کہنا سو فیصد بجا تھا کہ بلاوا چوہدری شفقات کا ہو اور غیر حاضری کیسے ممکن ہے‘ لیکن آفتاب تارڑ کی موت کی اطلاع کا بوجھ اٹھائے دعوتِ ولیمہ میں جانا ایک کٹھن اور مشکل مرحلہ تھا۔ خیر یاسین خان تھوڑی ہی دیرمیں میرے پاس پہنچ گئے اور پہلا سوال ہی یہ پوچھا: شکل پہ بارہ کیوں بجے ہوئے ہیں۔ اُٹھو اور چلنے والی بات کرو۔ میں نے کہا :یاسین خان آفتاب چلا گیا۔ انہوں نے مجھے آگے بڑھ کر دلاسا دیا اور کہا کہ چلو اٹھو حاضری لگا کر واپس آجاتے ہیں۔
آفتاب تارڑ ایک سرکاری افسر ہونے کے ساتھ ساتھ سمندروں سے گہرا اور وضع داری کا پہاڑ تھا۔ وہ کئی سال امریکہ میں کینسر جیسے موذی مرض سے لڑتا رہا اور بون میرو ٹرانسپلانٹ کے بعد کافی عرصہ زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا رہا ‘بالآخر وہ جیت گیا اور چند ماہ قبل پاکستان واپس آگیا۔ یہاں آکر اس نے پبلک پالیسی گورننس کا پیشہ ورانہ کورس مکمل کیا۔ کورس مکمل کرنے کے بعد مجھ سمیت کئی دوستوں نے مشورہ دیا کہ اب کوئی مناسب سی پوسٹنگ لے لو تاکہ معمولاتِ زندگی میں واپس آسکو۔ اس کی اپنی بھی یہی خواہش تھی‘ لیکن پاکستان میں علاج معالجہ کی ناکافی سہولیات اور ادویات کی عدمِ دستیابی کی وجہ سے اسے واپس جانا پڑا۔
اس کا کہنا تھا کہ امریکہ میں مقیم بچوں کی یاد ستا رہی ہے‘ ان سے ملنا اور اپنے معالج کو چیک کروانا ضروری ہے۔ یہ دونوں کام کر کے اگلے چند ماہ کی ادویات لے کر واپس آجاؤ ںگا اور پھر سرکار کو رپورٹ کروں گا کہ وہ اب نوکری کے لیے تیار ہے۔ 10جنوری کو وہ امریکہ روانہ ہوا۔ روانگی سے چند گھنٹے پہلے لبرٹی چوک میں عثمان بھٹہ نے میرے اور آفتاب کے ساتھ ایک سیلفی بنائی۔ کسے معلوم تھا کہ اس کے ساتھ یہ زندگی کی آخری سیلفی ہوگی اور یہی سیلفی اس کی آخری نشانی بن کر رہ جائے گی۔ جس موت کے چنگل سے بچ کر وہ وطن واپس آگیا تھا وہ موت امریکہ میں اس کی منتظر تھی۔ ایئرپورٹ پر اترتے ہی حالت ایسی بگڑی کہ ہسپتال جاکر وینٹی لیٹر میں پناہ ملی اور تقریباً ڈیڑھ ماہ زندگی و موت کی کشمکش کے بعد موت بازی لے گئی۔
رات گئے تک عثمان بھٹہ‘ زاہد چوہدری‘ راجہ رفعت‘ عزیز اﷲ گوہیر‘ چوہدری سلطان‘ بلال صدیق کمیانہ‘ احمد وقاص ریاض‘ کرنل خالد رحمن ثاقب‘ بریگیڈیئر مظفر رانجھا‘ علی جہانگیر بدر‘ میاں ریاض‘ اقبال خان‘ خالدٹام اور سہیل شاکر سمیت دیگر سبھی دوست احباب رابطے میں رہے۔ آفتاب کے ساتھ گزارے ہوئے شب و روز آج بھی تروتازہ ہیں۔ سبھی اپنے کام کاج سے فارغ ہو کر سیدھے 40رچنا بلاک علامہ اقبال ٹاون پہنچا کرتے تھے جہاں آفتاب رسول تارڑ اپنی مخصوص مسکراہٹ اور تیکھے فقروں کے ساتھ سب کو خوش آمدید کہتا تھا۔ کسی کو بھی غیر حاضری کی اجازت نہ ہوتی۔ اگر کوئی آنے سے معذرت کی کوشش بھی کرتا تو ایک ہی صورت میں ا س کی معذرت قبول کی جاتی کہ بھلے تھوڑی دیر کے لیے ہی آؤ لیکن حاضری ضروری ہے۔ لنگر کے ساتھ ساتھ رات گئے تک جاری رہنے والی محفلیں آج بھی ہم سبھی کی یادوں کا انمول خزانہ ہیں۔
کالم ابھی یہیں تک پہنچا تھا کہ راجہ رفعت مختار کا فون آگیا‘ بولے کہ یار طبیعت بہت اُداس اور بوجھل ہے لیکن کیا کریں سرکار کی نوکری بھی مجبوری ہے۔ دل کر رہا ہے کہ یہاں سے بھاگ نکلوں اور ان سبھی سنگی ساتھیوں میں بیٹھوں اور گھنٹوں آفتاب کی یادیں اور باتیں شیئر کروں۔بطور آر پی او ایسے نکلنا آسان نہیں‘ کوشش کر رہا ہوں کہ کل لاہور آجاؤں اورسبھی دوستوں کے ساتھ مل کر اس کا جسدِ خاکی وصول کروں اور اس کے سفر آخرت میں شریک رہوں اور ان شاء اﷲ ضرور آؤں گا۔ آفتاب کی نمازِ جنازہ 25فروری 2020ء بروز منگل ان کے آبائی گاؤں جوکالیاں تحصیل پھالیہ ضلع منڈی بہاؤ الدین میں دوپہردوبجے ادا کی جائے گی۔ اﷲ تبارک وتعالیٰ اس کی والدہ محترمہ‘ اہلیہ‘ بچیوں اور دیگر تمام متعلقین کو اس سانحہ کو برداشت کرنے کا حوصلہ اور ہمت عطا فرمائے۔ آفتاب تارڑ کا تعلق منڈی بہاؤالدین کے ایک بڑے گھرانے سے تھا۔ اُس کے والد چوہدری غلام رسول تارڑ ذوالفقار علی بھٹو کے انتہائی قریبی اور پارلیمنٹیرین تھے‘ بڑے بھائی ظفر اﷲ تارڑ ایم این اے اور ضلعی ناظم بھی رہ چکے ہیں‘ جبکہ ایک بھائی منور تارڑ ایم پی اے بھی رہ چکے ہیں۔ ایک اور بھائی افتخار تارڑ پولیس سروس پاکستان سے بطور ڈی آئی جی ریٹائرڈ ہو چکے ہیں۔ ارشاد تارڑ بھی اعلیٰ سرکاری عہدے سے ریٹائرڈ ہیں۔
ماں باپ جیسی عزیز ازجان ہستیوں سمیت کیسی کسی ناگزیر صورتیں خواب و خیال بن کہ رہ گئی ہیں۔ بارہ سال کی عمر میں ساتھ چھوڑ جانے والے عدیل احمد سے لے کر چند سال قبل بچھڑنے والے اعجاز غوری اور بڑے بھائیوں جیسے عبدالعظیم رؤف تک‘ سید عباس اطہر سے لے کر منو بھائی تک‘ سید انور قدوائی سے لے کر شفیق مرزا اور پرویز حمیدتک‘ عزیز مظہر اور ریاض بٹالوی سے لے کر تنویر عباس نقوی تک‘ ثمر عباس زیدی سے لے کر رومان احسان تک‘ شیخ رؤف سے لے کر سہیل جاوید تک‘ معین احمد سے لے کر آصف علی پوتا اور جواد نذیر تک‘ اکبر عادل سے لے کر شیخ ریاض بابر سمیت بے شمار ہستیاں چشم تصور میں شب و روز ساتھ لیے پھرتا ہوں۔ آج آفتاب رسول تارڑ بھی انہی ہستیوں میں شامل ہو چکا ہے۔
نیند کو آدھی موت کہا جاتا ہے اور رات کو جب بھی اس آدھی موت کے لیے بستر پر جاتا ہوں تو بچھڑنے والوں کی یادوں اور باتوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ آدھی موت سے تادیر دور کیے رکھتا ہے۔ ماں باپ‘ اساتذہ‘ عزیز و اقارب‘ دوست احباب کو چشم تصور میں اپنے اردگرد محسوس کرنا اور ان سبھی کے لیے دعائے مغفرت روز کا معمول ہے ؎
اُن کو جاتے بھی ہم نے دیکھا ہے
جن کے جانے سے جان جاتی تھی