جن حکمرانوں کی اہلیت معمہ اور قابلیت نامعلوم ہو‘ جہاں طرزِ حکمرانی تماشا اور سرکس کا سماں ہو‘ جن مشیروں کی وجۂ تقرری بتانے سے حکومت قاصر ہو‘ عدالت گورننس پر آئے روز درجنوں سوال اُٹھا دیتی ہو تو وہاں صدمات اور سانحات ہی قوم کا مقدر بنتے چلے جاتے ہیں۔ جب بھی آتی ہے‘ جہاں سے بھی آتی ہے‘ بُری خبر ہی آتی ہے‘ ان خبروں کی درجہ بندی کچھ یوں ہے: بُری خبر‘ بہت بُری خبر‘ دِل دہلا دینے والی بھیانک خبر‘ یہ سبھی خبریں سنتے سنتے قوم نڈھال ہو چکی ہے۔ غلطیاں دہراتے دہراتے اور قوم کو بہلاتے بہلاتے حکمران اس ملک کو کہاں سے کہاں لے آئے ہیں۔ تباہی غلطیوں سے نہیں بلکہ غلطیوں پر اصرار اور ضد کی وجہ سے آتی ہے۔ ڈھٹائی اور ہٹ دھرمی نہ صرف اصلاح کے راستے مسدود کر دیتی ہے بلکہ واپسی کے امکان ختم کر کے تباہی مقدر بنا ڈالتی ہے۔
کیسے کیسے حکمران اس ملک میں بسنے والے بھگت چکے ہیں۔ جو اپنی اپنی باریاں اور دیہاڑیاں لگا کر چلتے بنے۔ سرکاری وسائل اور ریاستی اداروں پر غول در غول حملہ آور ہوئے اور انہیں ملیامیٹ کیا‘ کلیدی عہدوں کی بندر بانٹ کے ساتھ ساتھ مالِ مفت دلِ بے رحم کے مصداق بندہ پروری کے علاوہ کنبہ پروری کو بھی خوب رواج دیا۔ قانون کی حکمرانی قائم ہو سکی نہ کبھی گورننس پروان چڑھی‘ میرٹ تار تار رہا اور سماجی انصاف بھی قائم نہ ہو سکا۔ ہر دور کے حکمرانوں کو بداعمال پالیسی ساز اور بوئے سلطانی کے مارے سہولت کار ہمیشہ ہی میسر رہے۔ حواس گم کر دینے والی ایسی ایسی خبر صبح و شام دیکھنے اور سننے کو ملتی ہے جو دن کا چین اور رات کی نیند حرام کر دیتی ہے۔ کہیں گورننس بانجھ نظر آتی ہے تو کہیں میرٹ اپاہج دکھائی دیتا ہے‘ کہیں قول کی حرمت پامال ہے تو‘ کہیں عمل تضادات کا شکار‘ نیت سے لے کر معیشت تک‘ تجاوزات سے لے کر احتساب تک سب تماشادکھائی دیتا ہے۔
''منٹ دی ویل نئیں تے ٹَکے دی سیل نئیں‘‘ کے مصداق زبانی جمع خرچ کے ساتھ گمراہ کن اعداد و شمار کا گورکھ دہندہ جاری ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) کی مسلسل باریوں اور طویل اجارہ داری کو مسترد کر کے عوام نے تحریکِ انصاف کو کیا اسی لیے مینڈیٹ دیا تھا کہ ان کے حالات عذابِ مسلسل کا منظر پیش کرنے لگیں۔ اس طرزِ حکمرانی نے عوام کی حالتِ زار کچھ یوں بنا ڈالی ہے کہ ؎
سنبھلنے کے لیے گرنا پڑا ہے
ہمیں جینا بہت مہنگا پڑا ہے
وزیراعظم عمران خان حالیہ دورئہ لاہو رکے دوران ایک بار پھر اپنے وسیم اکرم پلس پر اعتماد کا اظہار کر کے اُن کی تبدیلی کے امکانات کو مسترد کر دیا ہے لیکن خفیہ اداروں کی چشم کشا رپورٹ پر فوری ایکشن لینا پڑا۔ جس کے نتیجے میں نہ صرف وزیراعلیٰ پنجاب کے ''فیورٹ وزیر‘‘ کو وزارت کے قلمدان سے محروم ہونا پڑا بلکہ فرنٹ لائن پر کھیلنے والے دو اہم بیوروکریٹس کو بھی جانے کا پروانہ مل گیا۔ وزیراعظم کے اس اقدام پر جنگلی حیات بھی یقینا اُن کی شکرگزار ہوگی کہ وزیراعظم نے بروقت فیصلہ کرکے انہیں محفوظ کر ڈالا ہے۔ جو وزیر انسانی حیات کے لیے موافق ثابت نہ ہوا ہو وہ جنگلی حیات کو کن حالوں میں پہنچا کر دم لیتا؟ واقفانِ حال یہ بھی بخوبی جانتے ہیں کہ یہی وزیر موصوف وزیراعلیٰ شکایات سیل کی اچھی بھلی ساکھ کی بنیادیں ہلا چکے ہیں اور آج صورتحال یہ ہے کہ وزیراعلیٰ شکایات سیل میں عوام کی دادرسی پہ مامور ذمہ داران بھی کڑے سوالات کی زد میں ہونے کے باوجود موجیں مارتے پھرتے ہیں۔
سپریم کورٹ نے نیب کی غیر جانبداری پر سوال اُٹھاتے ہوئے احتساب کو یکطرفہ قرار دیتے ہوئے ریمارکس میں کہا ہے کہ ''نیب کا اصل مقصد وفاداریاں تبدیل کروانا‘ سیاسی جماعتیں توڑنا‘ مخالفین کا بازو مروڑنا اور انہیں سبق سکھانا دکھائی دیتا ہے‘ جس کی وجہ سے نیب کی ساکھ اور غیر جانبداری مجروح ہو چکی ہے‘‘۔ تعجب ہے نیب کے اسیران کے ہاتھ بھی صاف ہیں اور سرکاری خزانہ بھی صاف‘ ان کے اثاثے اور طرزِ زندگی‘ ان کی حیثیت اور آمدنی کی مسلسل چغلی کھاتے ہیں ‘مگر اس کے باوجود وہ اپنی بے گناہی کی دہائی دیتے پھرتے ہیں۔ نیب کے کیسز کوئی فوجداری کیسز نہیں جو دو اور دو چار کر کے ثابت کر دیے جائیں۔ کوئی کرپشن کا جادوگر ہے تو کوئی سائنس دان‘ مال بنانے اور اُسے ضربیں لگانے کا ایسا ایسا کلیہ اور ایسا ایسا گُر ان کے پاس ہے کہ اچھا خاصا انسانی ذہن بھی سوچ سوچ کر شل تو ہو سکتا ہے لیکن ان کی کرپشن کے سراغ تک نہیں پہنچ پاتا۔
صورتحال کی وضاحت کے لیے ایک اچھوتا اور دلچسپ واقعہ آپ سے شیئر کرتا چلوں ''ایک شخص حلوائی کی دکان پر گیا اور ایک کلو لڈو کا آرڈر دیا‘ حلوائی نے ایک کلو لڈو کا ڈبہ جب اس کے ہاتھ میں تھمایا تو اس نے حلوائی سے کہا کہ یہ لڈو واپس کر کے بدلے میں برفی دے دو‘ جب برفی اس کے ہاتھ میں دی تو معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے بولا: بھائی یہ برفی بھی واپس کر لو اس کے بدلے گلاب جامن دے دو‘ حلوائی نے گلاب جامن کا ڈبہ دیا تو وہ شخص قیمت ادا کیے بغیر دکان سے نکلنے ہی لگا تھا کہ حلوائی نے آواز دی اور کہا کہ بھائی گلاب جامن کی قیمت تو ادا کر دو‘ جواباً وہ شخص بولا کہ گلاب جامن تو میں نے برفی کے بدلے لیے ہیں‘ حلوائی نے کہا کہ برفی کے پیسے ہی دے دو‘ تو اس شخص نے جواب دیا کہ برفی تو میں نے لڈو کے بدلے لی تھی‘ حلوائی نے زِچ ہو کر کہا کہ اچھا بھئی لڈو کے پیسے دو تو وہ شخص تنک کر بولا جب لڈو میں نے لیے ہی نہیں تو پیسے کس بات کے؟
اکثر اس خدشے کا اظہار کرتا رہا ہوں کہ خدانہ کرے یہ سبھی اسیران سستے چھوٹ جائیں اور احتساب کا لفظ ایک طعنہ بن کر رہ جائے۔ احتسابی عمل پر اٹھنے والے سوالات نے آخری اُمید کا گلا بھی گھونٹ ڈالا ہے۔ ابھی تو اپوزیشن احتساب کی چکی سے گزری ہے‘ حکومتی دانے تو اس چکی سے بہت دور دکھائی دیتے ہیں ایسے میں انصاف سرکار کے پرَوں میں چھپے اور احتساب کو مطلوب شریکِ اقتدار وزرا اور افسران صاف بچتے دکھائی دیتے ہیں۔ انصاف سرکار اگر احتساب کے عمل کو ''آٹو‘‘ پر آگے بڑھانے میں نیک نیت ہے تو بھول بھلیوں میں بھٹکنے کے بجائے بے رحمانہ اور مصلحت سے پاک احتساب کو یقینی بنانے کے لیے ''لاہور امپروومنٹ ٹرسٹ‘‘کے دور کو نقطۂ آغاز بنانا ہوگا۔ اس ٹرسٹ کا ریکارڈ ہو یا کسی ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی بند فائلیں اُن سبھی کے پول کھول سکتی ہیں جنہیں احتساب کبھی چُھو کر بھی نہیں گزرا۔
پسماندہ اور دور دراز بستیوں کی زمینوں کے بدلے لاہور کے پوش علاقوں میں پلاٹ کیسے الاٹ ہوتے تھے؟ بیوہ کوٹے کے بینی فشری شرفا اُمرا میں کیسے شمار ہونے لگے؟ ماضی میں ہونے والی لوٹ مار اور بندر بانٹ کا سراغ لگانے کے لیے ایک اعلیٰ سطحی تحقیقاتی کمیشن قائم کیا جائے۔ اگر اُس کمیشن کو آزادانہ کام کرنے دیا گیا تو بخدا عوام اور احتسابی ادارے بے نامی جائیدادیں‘ بوگس اکاؤنٹس‘ پانامے‘ اقامے اور دیگر لوٹ مار بھول جائیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان پردہ نشینوں کے نام بھی منظر عام پر آسکیں گے جو کئی دہائیوں سے اس ملک میں شرفا اور اشرافیہ میں شمار ہوتے چلے آرہے ہیں۔ جن میں اکثریت ہر دور میں بالواسطہ یا بلا واسطہ شریک اقتدار رہی ہے۔ صحافت سے تعلق رکھنے والی ایک بڑی شخصیت کے پٹرول پمپ پر بغلیں بجانے والے ادارے ذرا شاہ جمال‘ شادمان‘ گلبرگ اور شاہ عالم مارکیٹ سمیت دیگر مہنگے اور پوش علاقوں میں سرکاری اراضی کوڑیوں کے بھاؤ لیز پر لینے والوں کی بھی خبر لیںاور یہ بھی پتا کریں کہ ٹرسٹ کے نام پر بنائے گئے ہسپتال انسانیت کی کون سی خدمت کر کے کئی دہائیوں سے اربوں کھربوں روپے بناتے چلے جارہے ہیں؟