بعض اوقات یوں محسوس ہوتا ہے کہ اپنے ہی کسی کالم کا چربہ لکھ رہا ہوں یا پھر کالم موضوع کی تکرار کا شکار ہے۔ جہاں وزرا نمائشی اور رفقا ومشیر آزمائش بنتے چلے جارہے ہوں اور رب کی عطا کو اپنی ہی کوئی ادا تصور کیا جاتا ہو‘ تو گمان ہوتا ہے کہ گورننس کے کنوئیں میں نااہلی کا کتا گر گیا ہے۔ مزاحمت اور عوامی ردِ عمل پر اس کنوئیں سے چند نمائشی بوکے نکال کر محض کارروائی ڈالی جا رہی ہے۔ جب تک یہ کتا نہیں نکالا جائے گا نہ کنواں صاف ہو گا اور نہ مثالی گورننس کا وہ خواب شرمندئہ تعبیر ہو سکے گا جو تحریک انصاف عوام کو دکھاتی رہی ہے۔
یہ کیسی تبدیلی ہے جو کچھ بھی تبدیل نہیں کر سکی۔ وہی نظام‘ وہی پیچیدگیاں‘وہی شکار‘وہی شکاری‘وہی کھیل‘ وہی کھلاڑی‘ وہی ڈراؤنے خواب‘ وہی بھیانک تعبیریں۔ تمام عمر چلے گھر نہیں آیا۔ جابجا پھیلے مایوسیوں کے سائے لمبے ہوتے چلے جارہے ہیں۔ بلا شبہ یہ کریڈٹ حکومت ہی کو جاتا ہے کہ اس نے اس دوپارٹی نظام کی اجارہ داری ختم کروائی جو عوام کے لیے چکی کے دو پاٹ بن چکے تھے جن کے درمیان وہ کئی دہائیوں سے بری طرح پستے چلے آرہے تھے۔ یکے بعد دیگرے باریاں لگانے والی دونوں پارٹیوں کو نہ صرف دیوار سے لگا ڈالا بلکہ دونوں ہی پارٹیوں کے سربراہان سمیت ان کے کئی بڑے ناموں کو احتسابی عمل کا بھی سامنا کرنا پڑا۔
حکومت کو ''تبدیلی‘‘ کے نعرے کے ساتھ برسرِ اقتدار آئے دو سال بیت چکے ہے۔ اس کی طرزِ حکمرانی کا موازنہ اگر ماضی سے کریں تو اس حکومت کو ایک بات ضرور ممتاز اور نمایاں کرتی ہے اور وہ یہ کہ جن اُجاڑوں کا سامنا عوام نے گزشتہ دو برسوں میں کیا ہے وہ سابقہ ادوار کے مقابلے میں یقینا ریکارڈ مدت ہے۔ قانون کی حکمرانی اور سماجی انصاف کا ڈھول بجا کر برسرِ اقتدار آنے والوں نے اس قلیل عرصے میں طرزِ حکمرانی سے لے کر میرٹ اور گورننس سمیت سبھی کا جو حشر کیا وہ بھی بلا شبہ کسی ریکارڈ سے کم نہیں۔ مصاحبین اور رفقا کی امورِ حکومت میں ریل پیل سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس قوم کا مقدر کن ہاتھوں میں جاپہنچا ہے۔
معیشت کے استحکام کیلئے حکومت کا پہلا انقلابی قدم ہی ڈھول کا پول کھولنے کیلئے کافی ثابت ہوا اور وہ پہلا اقدام وزیراعظم ہاؤس کی گاڑیوں اور بھینسوں کی نیلامی تھی‘ یہ اقدام ایسے کیا گیا گویا نیلامیوں سے مال و دولت کی بارش شروع ہو جائے گی۔ بھینسوں اور گاڑیوں سے شروع ہونے والا یہ انقلاب آج قوم کو کن حالات سے دوچار کر چکا ہے اس پر واویلا اب روز کا معمول ہے۔ جس حکومت نے پولیس کا قبلہ درست کرنا تھا‘ جس افسر شاہی کو سول سرونٹ کے معانی سمجھانے تھے‘ اسے اپنی ہی چاکری پر لگا ڈالا۔ ڈی پی او پاکپتن کے تبادلے سے جس کام کا آغاز ہوا تھا وہ سابق کمشنر لاہور کی دوبارہ چار روزہ تعیناتی کے بعد صوبہ بدری سے ہوتے ہوئے سی سی پی او لاہور کے تبادلے تک آن پہنچا ہے۔ بعض اوقات تقرریاں اور تبادلے ٹینڈر کا منظر پیش کرتے نظر آتے ہیں۔ ان حالات میں بھی کارکردگی کی دو سالہ تقریبات کا آغاز زور و شور سے شروع ہو چکا ہے ‘ حالانکہ کارکردگی تو وہ ہوتی ہے جس پر عوام خود بخودبے اختیار گواہی دیں‘ اور ان کے حالات بھی زبانِ حال سے بتا رہے ہوں کہ ہاں تبدیلی آئی ہے۔ تبدیلی اگر حقیقی ہو تو اس کے پرچار کیلئے تقریبات رچانے اور رنگین کتابیں چھاپنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ رنگ تو بس کارکردگی کے ہوتے ہیں۔ آرٹ پیپر پر شائع کردہ ان کتابوں کے رنگ کارکردگی کے رنگ نہیں بن سکتے۔
کیا واقعی شاباش‘مبارک اور تعریفی کلمات سمیٹنے والے اس ستائش کے حقیقی حقدار ہیں؟ جن اہداف سے مشروط ساری مراعات ‘پروٹوکول‘ تام جھام اور ریل پیل انجوائے کی جارہی ہے جب وہی نہ ہوسکا تو یہ شاباش اور ستائشِ باہمی کا مقابلہ کیسا؟ ''سرکاری سچ‘‘ کا ڈھول اس قدر زور سے پیٹا جا رہا ہے کہ ہر سو ڈھول ہی ڈھول نظر آتا ہے اورمزے کی بات یہ کہ ڈھول کا پول کھلنے کے باوجود یہ ڈھول بند نہیں ہو رہا۔ تحریک انصاف نے اقتدار میں آنے سے پہلے دعووں اور وعدوں کا ایسا ڈھول پیٹا کہ عوام سچ سمجھ بیٹھے کہ اگر واقعی یہ برسر اقتدار آگئی تو ہمارے دن پھر جائیں گے۔
سیاسی جلسے ہوں ‘ دھرنے یا کوئی اورموقع‘ عمران خان صاحب اور تحریک انصاف کے دیگر قائدین نے پنجاب پولیس کو ہمیشہ آڑے ہاتھوں لیا۔ کبھی پنجاب کو پولیس سٹیٹ قرار دیا جاتا تو کبھی پنجاب پولیس کو شہباز فورس کہا جاتا اور پولیس میں سیاسی مداخلت کو ایشو بنا کر سابق حکمرانوں سمیت پولیس افسران کو بھی ہدفِ تنقیدبنایا جاتا۔ پارٹی کا یہ دعویٰ بھی رہا کہ وہ برسر اقتدار آکر پولیس کو سیاسی مداخلت سے آزاد کرکے خود مختار اور عوام دوست فورس بنائے گی‘ جس کا سربراہ میرٹ پر آزادانہ کام کرسکے گا‘ پولیس ریفارمز ہوں گی اور عوام کو تھانوں میں ذلت اور دھکے نہیں ملیں گے۔ آئی جی کو طاقتور کیا جائے گا اور وہ سیاسی مداخلت اور مصلحت سے بالاترہوکر فیصلے کر سکیں گے۔ آپریشنل اٹانومی کے تحت پولیس فورس کام کرے گی۔ حکومت کسی افسر کی تقرری اور تبادلے کے لیے آئی جی پر دباؤ نہیں ڈالے گی لیکن عوام کی یہ خوش فہمی زیادہ دیر قائم نہ رہ سکی۔ پولیس ریفارمز کے لیے سابق آئی جی کے پی کے ناصر درانی کو لایا گیا کہ وہ جادو کی چھڑی گھمائیں گے اور پولیس کا قبلہ درست ہوجائے گا‘ لیکن حکومتی دعووں اور وعدوں کا کیا حشر نشر ہوا یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ ناصر درانی کو جلد ہی سمجھ آگئی کہ گیم پلان کچھ اور ہے۔ حکمران ان چیمپئنز کے نرغے میں ہے جو حکومتی ساکھ سمیت نجانے کیا کچھ اپنے ایجنڈے کی بھینٹ چڑھانے پر آمادہ ہیں‘ خوا ہ وہ پولیس ریفارمز ہی کیوں نہ ہوں؛ چنانچہ وہ جلد ہی روانہ ہوگئے اور پھر یکے بعد دیگرے کئی آئی جی تبدیل کردیے گئے۔ کلیم امام کوپنجاب سے ٹرانسفر کرکے آئی جی سندھ شاید اس لیے تعینات کیا گیا کہ حکومت صوبہ پنجاب میں اپنے ویژن اور ترجیحات کے مطابق آئی جی لانا چاہتی تھی اور محمد طاہر کو آئی جی پنجاب تعینات کیا گیا تو یہ دعویٰ ہوا کہ اب پنجاب پولیس کانہ صرف قبلہ درست ہوگا بلکہ میرٹ کا بول بالا بھی ہوگا۔ وہ ابھی ٹھیک طریقے سے بیٹھ بھی نہ پائے تھے کہ ان کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے چلتا کردیا گیااور پھر امجد جاوید سلیمی کی بطور آئی جی دبنگ انٹری کروائی گئی‘ لیکن انہیں بھی جلد ہی ہینڈز اَپ کرنا پڑ گئے۔ بعد ازاں عارف نواز کو پنجاب پولیس کی کمان سونپی گئی لیکن وہ بھی سرکار کے معیار پر پورا نہ اتر سکے اور انہیں بھی گھر بھجوا دیا گیا۔ ان کے بعد وزیراعظم نے ڈاکٹر شعیب دستگیر کا انتخاب کیا‘ انہیں ٹاسک اور مینڈیٹ کے ساتھ آئی جی کی ذمہ داری دیتے ہوئے بہترین آئی جی بھی قرار دیا۔حکومت کی نظر میں بہترین آئی جی تختِ پنجاب سے نالاں ہیں یا تخت پنجاب اُن سے غیر مطمئن‘ دور کی کوڑی لانے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ سرکار کے وفاقی چیمپئنز کی مداخلت نے پولیس کی چین آف کمانڈ پارہ پارہ کر ڈالی ہے۔ کہیں اہلیت معمہ ہے تو کہیں قابلیت سرنگوں نظر آتی ہے۔ گورننس شرمسار ہے تو کہیں میرٹ تار تار نظر آتا ہے۔ افادیت سوالات کے گھیرے میں ہے تو شفافیت کٹہرے میں نظر آتی ہے اور نتیجہ یہ کہ ریفارمز کی تمنا دل میں ہی رہی اور ہر طرف ڈیفارمز نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ سرکاری بابو ہوں یا مشیر‘ سبھی گورننس اور میرٹ کی ضد نظر آتے ہیں۔