"AAC" (space) message & send to 7575

مرضِ لاعلاج کا علاج

نواز شریف صاحب کی حالیہ شعلہ بیانیوں پر حیران ہونے والوں پر مجھے تعجب ہے۔ نواز شریف کا جذبات کی رو میں بہہ جانا اچنبھے کی بات نہیں۔ ان کی محاذ آرائیوں کی داستانیں طویل اور پرانی ہیں۔ واقفانِ حال بخوبی جانتے ہیں کہ غلام اسحاق خان‘ جنرل آصف نواز جنجوعہ‘ جنرل وحید کاکڑ‘ جنرل جہانگیر کرامت‘ فاروق لغاری اور سجاد علی شاہ سے لے کر بے نظیر بھٹو‘ جنرل پرویز مشرف اور آصف علی زرداری تک ‘انہوں نے کب کسی کو معاف کیا۔ ذاتی ایجنڈے اور مخصوص مقاصد کے حصول کے لیے نہ انہوں نے اداروں کا احترام کیا اور نہ ہی منصب داری کا لحاظ کیا۔ پاک فوج سے لے کر سپریم کورٹ تک‘ سبھی پر چڑھ دوڑتے رہے۔ 
اپنی خُوکے ہاتھوں انہوں نے کیا کچھ داؤ پہ نہیں لگایا۔ ملکی وقار سے لے کر معاشی استحکام تک‘ سماجی انصاف سے لے کر آئین و قانون تک‘میرٹ سے لے کر گورننس تک‘ سبھی کچھ تہ و بالا کر ڈالا۔ سرکاری وسائل پر کنبہ پروری سے بندہ پروری تک کا کیسا کیسا دردناک منظر ہماری تاریخ کا حصہ ہے۔ ذاتی مفادات سے لے کر مخصوص مقاصد تک‘ مصلحتوں اور مجبوریوں سے لے کر بدنیتی اور بد انتظامی تک‘ سبھی کچھ تو ان کی طرزِ حکمرانی کا خاصہ رہا ہے۔ نواز شریف صاحب کو 1985ء میں اپنی پہلی وزراتِ اعلیٰ کی تقریبِ حلف برداری تو خوب یاد ہوگی جس میں گورنر پنجاب جنرل(ر) غلام جیلانی نے چائے کی ٹرے اٹھائے لے جاتے ہوئے ویٹر کے سر سے کلاہ اُتار کر نواز شریف کے سر پہ یوں رکھ دی‘ گویا حاضرینِ محفل کے لیے کھلا پیغام ہو کہ بیرا ہو یا نواز شریف جادو کی چھڑی بہرحال انہی کے ہاتھ میں ہے۔ 
ان کو یہ بھی بخوبی یاد ہوگا کہ 1985ء کے عام انتخابات کے نتیجے میں انہیں وزیراعلیٰ بنانے کا فیصلہ اکثریت کے لیے ناقابلِ قبول تھا۔ بیشتر اراکینِ اسمبلی تو باقاعدہ مزاحمت پر آمادہ تھے۔ اچھے خاصے قدر آور‘ حسب نسب اور اونچے شملے والے سیاست دان خود وزارتِ اعلیٰ کے اُمیدوار تھے۔ ایسے میں انہیں نظرانداز کر کے ایک بابو ٹائپ ایم پی اے کو وزارتِ اعلیٰ کے منصب پر فائز کرنا پوری اسمبلی کے لیے سوالیہ نشان تھا۔ جس شخص کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہ تھا‘ وہ اسے وزیر اعلیٰ کے طور پر کیسے قبول کرتے؟ یہ سبھی نواز شریف کے خلاف متحد بھی ہوگئے تھے کہ وزراتِ اعلیٰ کے لیے ہم نہ سہی‘ کوئی ہم سا تو ہو۔ اور یہ بابو ٹائپ نوازشریف تو ہرگز قابل قبول نہیں۔ پنجاب اسمبلی میں اس ڈیڈلاک کے پیش نظر جنرل ضیا الحق کو لاہور آنا پڑا اور انہوں نے ارکانِ اسمبلی کو دوٹوک واضح کیا کہ وزیراعلیٰ نواز شریف ہی رہیں گے۔ ان کی تبدیلی اور متبادل قیادت کی کوششیں کرنے والے کان کھول کر سن لیں کہ انہیں اپنے مقصد میں کامیابی ہرگز نہیں ہوگی اور نواز شریف سے ہی تعاون کرنا ہوگا۔ فوجی سہاروں کے مرہونِ منت ایوانِ اقتدار میں داخل ہونے والے کس منہ سے اداروں کے خلاف بات کر رہے ہیں؟ جس مملکتِ خداداد میں نواز شریف تین بار وزیراعظم اور دو بار سب سے بڑے صوبے کے وزیراعلیٰ بنے اور ان کے چھوٹے بھائی شہباز شریف بھی تین بار اسی صوبے میں وزراتِ اعلیٰ کے مزے لوٹتے رہے جبکہ بیٹی‘ بھتیجے‘ بھائی‘ عزیزواقارب اور ملنے ملانے والے بھی اسمبلیوں میں بیٹھنے کے علاوہ وزارتوں اور اہم اداروں کے کرتا دھرتابنتے رہے۔ اُس مملکتِ خداداد کے ساتھ انہوں نے کیا کیا کھلواڑ نہیں کیا۔ 1994ء میں بے نظیر بھٹو کی حکومت کے خلاف بڑے زور و شور سے تحریک نجات شروع کی اور ٹرین مارچ کے دوران ملتان ریلوے سٹیشن پر جوشِ خطابت میں یہ بھی کہہ ڈالا کہ موجود حکومت غلط بیانی سے کام لے رہی ہے اور پاکستان کے پاس ایٹم بم موجود ہے۔ افغانستان میں جنگ بندی کے بعد سوویت یونین اپنی پہلے والی اہمیت بری طرح کھو چکی تھی اور عالمی منظر نامے پر پاکستان کی اہمیت میں بھی کمی واقع ہو چکی تھی۔ ایسے میں نواز شریف صاحب کے اس بیان نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور پریسلر ترمیم کے نتیجے میں ہمیں سخت دفاعی پابندیوں کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ خطیر رقوم ادا کرنے کے باوجود ہمارے ایف16طیاروں کی فراہمی کا معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا۔ اگر اس وقت نوازشریف کے اس بیان کو قومی سلامتی کے تناظر میں دیکھ لیا جاتا تو شاید آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔ نواز شریف کی شخصیت کا ایک اور تضاد بھی شیئر کرتا چلوں کہ 1998ء میں بھارت کی طرف سے ایٹمی دھماکوں کے بعد بطور وزیراعظم نواز شریف پر جب ایٹمی دھماکے کرنے کا دباؤ آیا تو پہلے انہوں نے آئیں بائیں شائیں سے کام لیا لیکن دباؤ ڈالنے والوں نے کچھ اس طرح دباؤ ڈالا کہ انہوں نے مجبوراً 28مئی 1998ء کو ایٹمی دھماکے تو کرا ڈالے لیکن نہ صرف دھماکوں کا کریڈٹ لینا شروع کر دیابلکہ خود کو اُس ایٹم بم کا خالق سمجھ بیٹھے جس کا انکشاف وہ 1994ء میں ملتان ریلوے سٹیشن پر ٹرین مارچ سے خطاب کرتے ہوئے بھی کر چکے تھے۔ واقفانِ حال ان سبھی حالات سے بخوبی واقف ہیں۔ 
ہزاروں میل دور بیٹھ کر ملک و قوم کے درد میں گھلنے والوں کی حب الوطنی کا ایک اورنمونہ پیشِ خدمت ہے۔ 1992ء میں جنرل آصف نواز جنجوعہ نے کراچی میں دہشت گردی کے خلاف آپریشن شروع کیا تو سب سے پہلے حاکمِ وقت نواز شریف کو اپنے اقتدار کے لالے پڑ گئے۔ ایم کیو ایم کے عقوبت خانوں کی دلخراش داستانیں جب منظرِ عام پر آئیں تو ہر دردِ دل رکھنے والا لرز کر رہ گیا۔ نہیں لرزے تو مجبوریوں اور مصلتحوں کے مارے حکمران نہیں لرزے۔ کیسا کیسا انمول ہیرا ایم کیو ایم کے غضب کا نشانہ بنا۔ 
اگر نوازشریف صاحب اپنا اقتدار بچانے کے لیے اس وقت مصلحت اور مجبوری میں لتھڑے ہوئے فیصلے نہ کرتے تو برطانیہ میں بیٹھا پاکستان کے خلاف سازشوں کا آلہ کارجنرل آصف نواز جنجوعہ کے شکنجے میں آچکا ہوتا۔ کراچی کی بربادی سے لے کر قتل و غارت اور دہشت و بربریت تک کی طویل داستان کا ایک ایک حرف گواہی دیتا ہے کہ کراچی میں ایک آمر کے لگائے گئے پودے کو تلف ہونے سے بچانے میں بہت سے لوگوں نے کردار ادا کیا ہے۔ اس پر ستم یہ کہ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ ہر دور میں ہر حکمران نے حصول اقتدار سے لے کر طولِ اقتدار تک اس پودے کا نہ صرف سہارا لیا بلکہ بھر بھر مشکیں ڈال کر اسے خوب پروان بھی چڑھایا ہے۔ 
تاریخ گواہ ہے کہ جس نے بھی ذاتی مفادات اور مخصوص مقاصد سے مجبورہوکر مصلحتوں میں لتھڑے ہوئے فیصلے کئے نہ وہ رہا اور نہ ہی اس کی سیاست۔ ماضی کے یہ حکمران آج عبرت کا نشان بن چکے ہیں۔ سات سمندر پار بیٹھے ملک و قوم کا غم کھانے والوں کے بیانات ہوا میں تیر چلانے کے سوا کچھ نہیں۔ایک دوست نے تو انہیں ایسا ''جمہوری جنگجو‘‘ قرار دیا ہے جو ہزاروں میل دور بیٹھ کر شمشیر زنی اور شہ سواری کے جوہر دکھا رہے ہیں۔ نوازشریف صاحب کی اس حالت اور کیفیت کو انہوں نے غصے کے بجائے ہمدردی اور علاج کا مستحق قرار دیا ہے۔ بات اگر علاج پر ہی آن پہنچی ہے کہ ان کے جسمانی علاج تو کئی بار ہو چکے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں