میرا بیٹا شاہ میر ہی میری طاقت اور میری کمزوری ہے‘ جسے آئندہ موٹربائیک چلانے سے باز رکھنے کیلئے نجانے کتنی ہی توجیہات اس کے سامنے رکھتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ ہم اپنی اگلی نسل کو کس کس بات سے روکیں گے۔ عصرِ حاضر اور آنے والے وقت کا تو باوا آدم ہی نرالا ہے۔ یہاں ٹریفک لین سے لے کر آئین اور قانون تک سبھی کی وہ دُھول اُڑائی جا رہی ہے کہ الامان والحفیظ۔ خیر طویل بھاشن کے بعد شفقتِ پدری کے تحت یہ طے پایا کہ میری گاڑی بھی اسی کی ہے وہ جب چاہے جتنی دیر چاہے استعمال کر سکتا ہے لیکن موٹر بائیک کو دوبارہ ہاتھ نہیں لگائے گا۔ بظاہر تو یہ معاہدہ طے پا چکا ہے لیکن اس پر عمل درآمد کے امکانات انتہائی معدوم نظر آنے کی ایک وجہ شاہ میر کا بیانیہ ہے کہ اگر سبھی لوگ آپ کی طرح سوچنا شروع کر دیں تو سڑکوں پر ایک بھی موٹرسائیکل نظر نہ آئے۔ اس ساری تمہید کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ بیگم صاحبہ کا فون آیا کہ گھر میں کافی مہمان آئے ہوئے ہیں آج جلدی گھر آجائیں۔
دن بھر کے جھمیلوں کو مختصر کر کے گھر پہنچا ہی تھا کہ شاہ میر کے نمبر سے آنے والی کال اٹینڈکی تو آواز آئی ''انکل! میں شاہ میر کا دوست شہروز بول رہا ہوں شاہ میر کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے، آپ جلدی آجائیں‘‘۔ فون بند ہوگیا اور مجھے یوں محسوس ہوا گویا سماعت پر کسی نے بمباری کر ڈالی ہو۔ بمشکل اوسان بحال کر کے دوبارہ کال کی اور پوچھا کہ ایکسیڈنٹ کہاں ہوا ہے، شاہ میر کیسا ہے۔ گھر میں کسی کو بتائے بغیر مہمان آئے بھانجے حمزہ عظیم کو اشارہ کر کے باہربلایا اور کہا کہ فوراً گاڑی میں بیٹھو اور گاڑی جائے وقوعہ کی طرف دوڑا دی۔ اچھی خاصی سپیڈ کے باوجود یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے گاڑی کے ٹائر سڑک نے جکڑ لیے ہوں یا وہ کہیں دھنس گئے ہیں۔ لمحے صدیاں بن چکے تھے اور گھر سے ڈیوس روڈ تک کا راستہ کٹنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔
جیسے تیسے وہاں پہنچا تو بیٹے کی شکل دیکھتے ہی نہ صرف دل کو قرار آیا بلکہ طمانیت کے ایک احساس نے مزید حوصلہ دیا کہ وہ اپنے دوستوں کے حصار میں تھا۔ اس کے سبھی دوست حادثے کی اطلاع ملتے ہی نہ صرف مجھ سے پہلے پہنچ چکے تھے بلکہ ریسکیو 1122 کو کال بھی کر چکے تھے اور اس کو ہٹ کرنے والی گاڑی بھی انہی کے قبضے میں تھی جبکہ ڈرائیور اپنی گاڑی چھوڑ کر فرار ہو چکا تھا۔ اچھے اور مخلص دوستوں جیسی نعمت سے مالا مال شاہ میر مجھے اپنا ہی عکس لگا۔ میری زندگی بھی دوست احباب کے گرد گھومتی اور رواں دواں ہے۔ میں کس کس کا نام لوں ایک سے بڑھ کر ایک چاہنے اور جان نثار کرنے والا دوست میرے احباب کے خزانے میں ممتاز مقام رکھتا ہے۔
میں شاہ میر کے ان سبھی دوستوں کا شکر گزار ہوں جن میں عبداﷲ ہو یا ابراہیم... شہروز ہو یا ابوبکر اور رافیل‘ سبھی غم و غصے میں بھرے اور جان چھڑکتے دکھائی دیے۔ یہ بچے اس گاڑی والے کو کسی طور بخشنے کو تیار نہ تھے۔ ان میں ایک بولا کہ انکل اس گاڑی والے نے شراب پی رکھی تھی اور وہ شاہ میر کو ٹکر مار کر پارکنگ میں کھڑی موٹر سائیکلوں پر چڑھ دوڑا۔ شاہ میر کے ساتھ موٹرسائیکل پر سوار عبداﷲ کو معجزانہ طور پر چوٹیں کم آئیں اور وہ اپنے حواس کھونے کے بجائے کار سوار کی طرف لپکا تو اس نے معذرت کرتے ہوئے معقول رقم کی پیشکش کی جسے عبداﷲ نے ٹھکراتے ہوئے کہا کہ تم یہاں سے کہیں نہیں جاؤ گے۔ اس پر کار سوار حالات کی سنگینی بھانپتے ہوئے کار چھوڑ کر فرار ہوگیا۔ یہ بچے اس کار سوار کے بارے میں شدید جذبات رکھنے کے ساتھ ساتھ انتہائی مشتعل بھی تھے۔ انہیں سمجھا بجھا کر ساتھ چلنے کو کہا کہ ہماری پہلے ترجیح شاہ میر کی صحت اور علاج معالجہ ہے۔ آپ سب ان جھمیلوں سے دور رہو ‘انہیں میں خود دیکھ لوں گا۔ میرے سمجھانے بجھانے پر وہ میرے ساتھ چلنے پر راضی ہوئے کہ شاہ میر کو طبّی امداد کے لیے ہسپتال لے جانا زیادہ ضروری ہے۔ اپنے بیٹے کے ساتھ ان کی وابستگی اور جان نثاری دیکھ کر مجھے ان سبھی بچوں پر نہ صرف بے پناہ پیار آیا بلکہ اپنے بیٹے کے حسنِ انتخاب کی بھی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکا۔
ہسپتال میں شاہ میر کو طبّی امداد دی جارہی تھی، ادھر میرے کانوں میں اپنے والد مرحوم و مغفور، جو میرے لیے کسی پیر سے کم نہ تھے‘ کے الفاظ گونج رہے تھے کہ بیٹا جب ہماری جگہ پر آؤ گے تو خود بخود پتہ چل جائے گا کہ میں تمہارے رات دیر سے آنے پر کیوں متفکر اور جاگتا رہتا ہوں۔ اس وقت ہمیں اپنے والدین کی نصیحتوں اور احتیاطوں کی کبھی سمجھ نہیں آتی تھی اور ہم ہمیشہ یہی سمجھتے رہے کہ ہمارے بزرگ ہمارے کام کی نوعیت سے نہ صرف ناواقف ہیں بلکہ اکثر رات گئے آنے سے خواہ مخواہ ہی پریشان رہتے ہیں۔ والد صاحب کے انتقال کے بعد شاید ہی کوئی ایسا دن اور لمحہ آیا ہو جس نے مجھے ان کی نصیحتوں اور احتیاطوں کی منطق باور نہ کروائی ہو۔
نئی نسل‘ جو خود کو ڈیجیٹل دور کی پیداوار اور عقل کل سمجھتی ہے، کیلئے یہ مقامِ فکر ہے کہ بزرگوں کی نصیحتیں، منطقیں اور احتیاطیں کبھی بلا جواز نہیں ہوتیں‘ یہ سبھی زندگی کا حاصل اور تجربات کا نچوڑ ہوتی ہیں۔ ہمارے بزرگ ہمیں ان حالات اور حادثات سے بچانے کی کوشش کرتے ہیں جس کا ادراک انہیں ہم سے کہیں زیادہ ہوتا ہے۔ ہلاکت اور بربادی ہے ان سبھی کیلئے جنہیں اپنے بزرگوں کی نصیحتیں ناگوار لگتی ہیں۔ کسی دانا نے یونہی نہیں کہا کہ جس شخص کو اپنے بزرگوں کی نصیحت اور مخلص احباب کے مشورے ناگوار گزرنے لگیں سمجھ لو کہ اس نے اپنی بربادی کا گڑھا خود کھود ڈالا۔
قارئین! آج مصمم ارادہ ہے کہ مجہول سیاست سے بچ بچا کر نہ تو گورننس کے گورکھ دھندے پر بات کریں گے اور نہ ہی میرٹ کے تار تار ہونے کا رونا روئیں گے۔ آج ہم اپنی جہالت کا وہ اعتراف کریں گے کہ ہم جانتے بوجھتے اسے تسلیم کرنے سے انکاری رہتے ہیں۔ سقراط نے کیا خوب کہا تھا کہ میں جاہل ہوں اور میرے اردگرد رہنے والے بھی جاہل ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ میں اپنی جہالت کو جان گیا ہوں اور وہ نہیں جانتے۔ سقراط کا یہ قول کتنا بڑا الارم ہے جو نجانے کب سے صبح، دوپہر ، شام بجتا ہی چلا آرہا ہے لیکن کون ہے جو اس پہ کان دھرتا ہے۔ بزرگوں کے تجربات اور مشاہدات کو ان کی کم عقلی یا وسوسے سمجھتے ہوئے انہیں اگلے وقتوں کے لوگ قرار دینے والے یقینا خسارے میں ہیں۔
نفسانفسی کے اس گھمسان میں خوف آتا ہے کہ ٹیکنالوجی کی دوڑ میں اخلاقی اور سماجی اقدار کا وہ حشرنشر ہوتا نظر آرہا ہے کہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ: ؎
ہے دل کیلئے موت مشینوں کی حکومت
احساسِ مروت کو کچل دیتے ہیں آلات
جدید علوم کا مقصد ہرگز یہ نہیں کہ اپنی اعلیٰ روایات‘رسم و رواج اور رکھ رکھاؤ‘ سبھی کو کسی صف کی طرح لپیٹ کر ایک کونے میں کھڑا کر دیا جائے۔ ہماری سماجی قدریں اور اخلاقی روایات سمٹتے سمٹتے ناپید ہوتی چلی جارہی ہیں۔ ان سبھی کو مشعل ِراہ بنانے کے بجائے نئی نسل فرار حاصل کرتی نظر آتی ہے جو بڑے سماجی بگاڑ سے لے کراخلاقی قدروں کو ریزہ ریزہ کرتی دکھائی دیتی ہے۔ ٹیکنالوجی کا مطلب ترقی ضرور ہے‘ لیکن اپنی اقدار کی قیمت پراس ترقی کا انجام تنزلی سے کم نہیں ہے۔ آدم بیزاری ہو یا انکارِ رواداری‘ خود پسندی ہو یا خود فریبی‘ منصب کا رعب ہو یا علمیت کا زعم‘ یہ سبھی جہالت کی اقسام ہیں۔ ہمیں اپنی اپنی جہالت کو کھوجنا ہوگا اور جو اپنی جہالت کو جان گیا وہ اپنا آپ پہچان گیا۔ اسی جان پہچان کا نام ہی وہ زندگی ہے جو اپنے اندر کائنات کے سبھی رنگ سموئے ہوئے ہے۔ چلتے چلتے ایک خاصے کی بات ''باادب بانصیب‘بے ادب بے نصیب‘‘۔