آج پھر تھوڑا سا مر گیا ہوں میں... سانحہ مچھ کا قتل عام ہو یا شہرِ اقتدار میں قانون کے رکھوالوں کے ہاتھوں نہتے اور معصوم طالب علم کے خون کی ہولی‘ چھوٹے بھائی کے ہاتھوں بڑے بھائی کا قتل ہو یا باپ کے ہاتھوں بیٹے کا خون‘ چھٹی منزل سے معصوم بچی پھینک کر چھلانگ لگانے والی ماں ہو یا آوارہ کتوں کے ہاتھوں بھنبھوڑے جانے والے جیتے جاگتے انسان... ان سبھی خبروں سے دل پہلے ہی کیا کم افسردہ اور غمگین تھا کہ ضیاالحق نقشبندی کی ایک فون کال نے دل کا کام تمام ہی کر دیا۔ فون کال تو بند ہو گئی لیکن یہ الفاظ سماعت اور اعصاب کے لیے کسی بم سے کم نہیں تھے کہ رؤف طاہر ہمیں چھوڑ کر چلے گئے۔ دل کا دورہ جان لیوا ثابت ہوا اور ان کے چاہنے والے دل پکڑ کر رہ گئے۔
یہ خیال ہی کس قدر جان لیوا ہے کہ رؤف طاہر کا نام اب ''روزنامہ دنیا‘‘ کے ادارتی صفحے سے قبر کے کتبے پر منتقل ہو جائے گا۔ ہم اپنے مرنے تک نہ جانے کتنی بار مرتے ہیں... قطرہ قطرہ... ریزہ ریزہ... دھیرے دھیرے... اور ٹکڑوں میں نہ جانے کتنی بار۔ یہ چلاچلی کا میلہ ہے‘ ہر کسی کو اپنی باری پر چلے ہی جانا ہے‘ لیکن جب بھی کوئی عزیز‘ کوئی اپنا‘ کوئی پیارا اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس کی موت کے ساتھ ہم بھی تھوڑے سے مر گئے ہیں۔ اس کی موت کی تلخی کو اپنے اندر یوں محسوس کرتے ہیں گویا چند قطرے موت ہمارے اندر بھی سرایت کر چکی ہے۔ یہ ہماری رگوں میں ایسے دندناتی پھرتی ہے گویا وہ لے جانے تو ہمارے کسی پیارے کو آئی تھی‘ لیکن اپنی نشانی ہمارے رگوں میں چھوڑ گئی ہے۔ ہم اس موت کو قطرہ قطرہ محسوس کرتے‘ ریزہ ریزہ بکھرتے اور ٹکڑوں میں تقسیم ہوتے چلے جاتے ہیں۔
نوے کی دہائی کے چند ابتدائی برسوں میں رؤف طاہر سے کم و بیش روز ملاقات اور بیٹھک معمول کا حصہ تھا۔ مرحوم نصراﷲ غلزئی اور ان کی جوڑی مشہور تھی۔ ہمیشہ ان کے ساتھ ہوتے بلکہ یہ اکٹھے آتے اور اکٹھے ہی جاتے تھے۔ رؤف طاہر ان دنوں ہفت روزہ ''زندگی‘‘ سے منسلک تھے جبکہ نصراﷲ غلزئی ہفت روزہ ''تکبیر‘‘ کے بیوروچیف تھے۔ گرمیوں کی طویل دوپہریں حالاتِ حاضرہ اور دیگر گپ شپ میں ہی گزر جایا کرتی تھیں۔ پھر گردشِ دوراں نے اس طرح گھیرا کہ ملاقاتیں کم ہوتے ہوتے بہت ہی کم ہو کر رہ گئیں۔ وہ نوائے وقت سے منسلک ہونے کے بعد سعودی عرب میں ایک اُردو میگزین کی ادارت سنبھال کر پردیسی ہو کر رہ گئے۔ وطن واپس آ کر ایک روزنامے کے لیے کالم لکھنے کے علاوہ پاکستان ریلویز میں ڈائریکٹر جنرل تعلقاتِ عامہ کی ذمہ داریاں بھی نبھاتے رہے۔ اب گزشتہ چار برسوں سے وہ روزنامہ دنیا میں کالم لکھنے کے ساتھ ساتھ شہر کی ہر بزمِ احباب کی زینت بنے دِکھائی دیتے تھے۔
ڈاکٹر امجد ثاقب کی ''اخوّت‘‘ یونیورسٹی میں برنچ پر ہونے والے حالیہ ملاقات میں اپنی اسی روایتی اپنائیت اور محبت سے ملے اور بولے تمہارا کالم پڑھنا واجب سمجھتا ہوں‘ اگر کبھی دن میں نہ پڑھ سکوں تو رات سونے سے پہلے قضا سمجھ کر پڑھتا ہوں۔ اُف خدایا! یہ دنیا بھی کیا گورکھ دھندا ہے‘ جب ہمیں ایک دوسرے کی ضرورت ہوتی ہے اور ہم ایک دوسرے کے عادی ہو جاتے ہیں تو اَبدی جدائی مقدّر بن جاتی ہے۔ ابھی چند روز قبل ہی برادرِ محترم عبدالقادر حسن اور سید انور قدوائی (نواب صاحب) کے تعزیتی ریفرنس میں ان کی یادوں اور باتوں سے بھری ایک سوگوار محفل کے اثرات ابھی ختم نہیں ہوئے تھے کہ رؤف طاہر کی جدائی کی منحوس خبر نے آن جکڑا ہے۔ اگلے چند دنوں میں ''منو بھائی‘‘ کی تیسری برسی ان کی یادوں کی بارات بن کر آنے والی ہے۔
ماں باپ جیسی عزیز از جان ہستیوں سمیت کیسی کیسی ناگزیر صورتیں خواب و خیال بن کے رہ گئی ہیں۔ بارہ سال کی عمر میں ساتھ چھوڑ جانے والے عدیل احمد سے لے کر چند سال قبل بچھڑنے والے عظیم بھائی اور اعجاز غوری تک، سید عباس اطہر سے لے کر منو بھائی تک، سید انور قدوائی سے لے کر شفیق مرزا تک، پرویز حمید سے لے کر عزیز مظہر تک، جواد نظیر اور ریاض بٹالوی سے لے کر تنویر عباس نقوی تک، ثمر عباس زیدی سے لے کر رومان احسان تک، شیخ رؤف سے لے کر سہیل جاوید تک، معین احمد سے لے کر آصف علی پوتا تک، اکبر عادل سے لے کر شیخ ریاض بابر اور آفتاب تارڑ سمیت راجہ نگہت تک کتنے ہی عزیز اور پیارے دوست احباب اور عزیز و اقارب سمیت کس کس کا نام لوں‘ سبھی کو چشم تصور میں شب و روز ساتھ لیے پھرتا ہوں۔ نیند کو آدھی موت کہا جاتا ہے اور رات کو جب بھی اس آدھی موت کے لیے بستر پر جاتا ہوں تو بچھڑنے والوں کی یادوں اور باتوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ آدھی موت سے تا دیر دور کیے رکھتا ہے۔ ماں باپ، اساتذہ، عزیز و اقارب، دوست احباب کو چشم تصور میں اپنے ارد گرد محسوس کرنا اور ان سبھی کے لیے دعائے مغفرت روز کا معمول ہے۔ آج ان سبھی ناموں میں رؤف طاہر کا نام بھی شامل ہو چکا ہے۔ جن کے کبھی کالم پڑھا کرتے تھے اب اُن کی قبروں کے کتبے پڑھنے کو ملتے ہیں۔ ؎
اُن کو جاتے بھی ہم نے دیکھا ہے
جن کے جانے سے جان جاتی تھی
سالِ نو کے ابھی چند سورج ہی طلوع ہوئے ہیں کہ ابھی سے دِل ڈوبنا شروع ہو گیا ہے۔ ابھی تو پورا سال باقی ہے۔ نجانے ابھی کیا کیا دیکھنا اور کیا کیا بھگتنا باقی ہے۔ کبھی بچھڑنے والوں کو روتے ہیں تو کبھی بچھڑنے کے خوف سے روز جیتے اور روز مرتے ہیں... کبھی اپنی موت سے ڈر نہیں لگتا‘ لیکن اپنوں کے مرنے کا خوف کسی پل چین نہیں لینے دیتا۔ اس خوف کا اگلا مرحلہ اس سے بھی جان لیوا ہے کہ اپنی موت کا تصور ہی جان سے پیارے پس ماندگان کی فکر میں ہلکان کیے رکھتا ہے۔ یہ وسوسے‘ بے چینی اور غیر یقینی دن کا چین اور رات کی نیند لوٹنے کے علاوہ توڑنے اور پھوڑنے کا کام بھی بخوبی اور برابر کیے چلے جاتے ہیں۔ ان سوگوار اور افسردہ لمحات میں جانے کیسے کیسے وسوسے اور اندیشے نگلے چلے جاتے ہیں۔
ایک دن اس طرح بھی ہونا ہے
رنگ کو روشنی میں کھونا ہے
اپنے اپنے گھروں میں رکھی ہوئی
ڈائری، دوست دیکھتے ہوں گے
ان کی آنکھوں کے خاکدانوں میں
ایک صحرا سا پھیلتا ہو گا
اور کچھ بے نشاں صفحوں سے
نام میرا بھی کٹ گیا ہو گا
میں آج بھی ان سبھی ناموں کو اپنی ڈائری میں اسی طرح سنبھالے ہوئے ہوں‘ جس طرح ان کی زندگیوں میں سنبھالتا رہا... میری اوقات اور ہمت نہیں کہ میں ان کا نام محض اس لیے ڈائری سے کاٹ دوں کہ وہ دنیا سے جا چکے ہیں۔ کوئی ایک نام کاٹنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ کیا دنیا سے جانے والے کبھی دِل سے بھی جاتے ہیں؟ ہرگز نہیں... نام سنبھالنے کا کم از کم ایک فائدہ ضرور ہوتا ہے کہ جب بھی ان کا نام ڈائری کے اوراق پلٹتے ہوئے سامنے آتا ہے تو بے اختیار کلمہ خیر منہ سے جاری ہو جاتا ہے... میں بھی اسی کلمۂ خیر کا طلب گار ہوں اور یہی تمنا ہے کہ میرا نام کسی دوست کی ڈائری سے کبھی سے نہ کٹے کیونکہ جو نام ڈائری سے کاٹ دئیے جاتے ہیں وہ دِل سے بھی کٹ جاتے ہیں۔