پون صدی ہونے کو آئی‘ مملکتِ خداداد کے حصول کیلئے دی جانے والی قربانیوں کی داستان اتنی دلخراش ہے کہ ایسے درجنوں کالم بھی ناکافی ہیں۔ خاک و خون کی اس دردناک کہانی کا کردار بننے والے ہزاروں خاندان آج بھی یہ زخم بھلا نہیں پائے۔ان زخموں سے رسنے والا لہو آج بھی تقسیمِ ہند کے ہولناک مناظر ان کے ذہنوں سے محو نہیں ہونے دیتا۔ 73برس گنوانے کے بعد بھی یہ احساس بے چین کیے رکھتا ہے کہ تمام عمر چلے گھر نہیں آیا۔ وطنِ عزیز کو آج تک کوئی ایسا حکمران نصیب نہیں ہوا جو مردم شناسی کے ہنر سے آشنا ہو۔ ذاتی خواہشات اور مفادات کے گرد گھومتی پالیسیوں کی تشکیل اور تکمیل کیلئے انہیں رفقا اور مصاحبین کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ ناموافق اور نام نہاد رہبروں کے پیچھے نامعلوم منزل کی طرف چلتے چلتے یہ قوم نہ صرف ہلکان ہو چکی ہے بلکہ ان حکمرانوں کی اصل حقیقت بھی جان چکی ہے۔
ملک و قوم کے غم میں گھلنے والے لیڈر اپنی مصلحتوں‘ مجبوریوں اور دوستیوں کے ہاتھوں اس حد تک بے بس ہو جاتے ہیں کہ انہیں اس سے کوئی غرض ہی نہیں رہتی کہ وہ بدترین حکمرانی کے ریکارڈ توڑنے کے ساتھ ساتھ عوام کی آس اور امیدوں کو تہس نہس کر کے انہیں اعصابی اور نفسیاتی طو رپر تباہ کر رہے ہیں۔ کئی دہائیاں دو پارٹی نظام کی چکی میں پسنے والے عوام نے اپنی حالتِ زار بدلنے کے جھانسے میں آکر تبدیلی سرکار کو حکمرانی کا مینڈیٹ تو دے دیا لیکن میدانِ عمل میں آنے کے باوجود نہ سماجی انصاف قائم ہو سکا اور نہ ہی قانون کی حکمرانی قائم ہوئی‘ نہ گورننس پروان چڑھی اور نہ ہی میرٹ کا بول بالا ہوا۔ان حکمرانوں کو بھی ایسے پالیسی ساز میسر آگئے جو ہر دور میں حکمرانوں کے گلے کا طوق اور پیروں کی بیڑیاں بنتے چلے آئے ہیں۔
اپوزیشن کی سرکردہ شخصیات پر آمدن سے زائد اثاثوں کے الزامات ہیں تو حکمران جماعت پر عقل اور ویژن سے زیادہ گفتگو کا چارج بنتا ہے۔ کبھی اقتصادی اصلاحات کے نام پر توکبھی پولیس ریفارمز کے نام پر‘ کبھی سماجی انصاف کے نام پر تو کبھی قانون کی حکمرانی کے نام پر‘ کبھی بنامِ دین تو کبھی بنام وطن‘ کبھی خوشحالی کے جھانسے تو کبھی بلند بانگ دعوے کرنے والوں کو کیا معلوم کہ گورننس بھی کسی عبادت سے کم نہیں اوراس عبادت کی قضا کے مرتکب ہونے کی معافی نہیں‘گزشتہ چند دہائیوں پر ہی نظر ڈال لیں تو پوری بات سمجھ میں آجائے گی۔ اگر کہیں کمی ہے تو صرف سبق حاصل کرنے والوں کی۔ کیسے کیسے شجرِ ممنوعہ مکافاتِ عمل کی چلتی پھرتی تصویر بنے خشک پتوں کی طرح ہوا کے دوش پہ اُڑتے نظر آتے ہیں۔
126 دن کے دھرنے میں عوام کو تواتر سے سہانے خواب دکھائے گئے کہ تحریک انصاف کے ماہرین کی وہ ٹیم مصروفِ عمل ہے جو برسرِ اقتدار آتے ہی عوام کے دن بدل کر رکھ دے گی۔ اس ٹیم کے سرخیل اسد عمر کے بارے کہا جاتا تھا کہ ملک بھر میں خوشحالی کی وہ بارش کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جس سے ملک کا کوناکونا سیراب ہو جائے گا۔ یہ بھی بتایا گیا کہ ہم کشکول لے کر آئی ایم ایف کے پاس بالکل نہیں جائیں گے اور نہ ہی اس کی بلیک میلنگ میں آئیں گے۔ جو آسمان سے تارے توڑ کر لانے کے دعوے کیا کرتے تھے برسرِ اقتدار آنے کے بعد انہوں نے عوام کو دن میں تارے دکھا ڈالے اور خوشحالی کے سارے دعوے جھانسے ثابت ہوئے اور اقتصادی چیمپئن اسدعمر کو گھر بھجوا کر اچھے بچوں کی طرح آئی ایم ایف سے نہ صرف رجوع کیا گیا بلکہ اس کی شرائط پر اسی کے نمائندوں کو شریک اقتدار کرنے میں بھی ذرا ہچکچاہٹ محسوس کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی گئی۔
اسد عمر سے لے کر عمرشیخ تک نجانے کتنے ہی کردار ایسے ہیں جن کی قابلیت اور مہارت کے ڈنکے سرکاری سطح پر بجائے گئے لیکن جوں جوں وقت گزرتا گیا ڈھول کا پول کھلتا چلا گیا۔ سبکدوش ہونے والے لاہور پولیس کے سربراہ کے بارے بھی حکمران کیسی کیسی خوش گمانیاں رکھتے تھے کہ ( ن) لیگ کے قلع قمع سے لے کر اس پولیسنگ کے نفاذ تک جس کا خواب دھرنوں میں دکھایا جاتا تھا ‘یہ سب صرف عمر شیخ ہی کر سکتے ہیں۔ ایسے مشیروں کو بھی خدا پوچھے کہ جنہوں نے عمر شیخ کو ایک ایسا نمونہ بنا کر پیش کیا کہ جس کی تعیناتی کے ساتھ چھڑی گھماتے ہی سارا منظر نامہ بدل جائے گا۔ وزیراعظم کے تعریفی کلمات نے بھی شیخ صاحب میں وہ ہوا بھر دی کہ ساری توقعات‘ اہداف اور خوش گمانیوں کے غبارے بہت جلد پھٹ گئے۔ وزیراعظم صاحب ایسی ہی تعریفیں تبدیل ہونے والے ہر آئی جی اور چیف سیکرٹری کی کرتے رہے ہیں کہ اس بار ان کا انتخاب وہ ساری توقعات اور دعوے پورے کرے گا جن کا اظہار وہ انتخابی مہم اور دھرنوں میں کرتے رہے ہیں؛ تاہم ایک بات غور طلب ہے کہ موجودہ آئی جی انعام غنی اور حال ہی میں تعینات ہونے والے لاہور پولیس کے سربراہ غلام محمود ڈوگر کے بارے میں ابھی تک سربراہِ حکومت کی طرف سے کوئی تعریفی بیان جاری نہیں ہوا جو اِن افسران کیلئے خوش آئند ہو سکتا ہے کیونکہ مشاہدہ یہ ہے کہ جس کی تعریف شدت سے کی جاتی ہے اس کا عرصۂ تعیناتی اتنا ہی مختصر ہوتا چلا جاتا ہے۔ دونوں مذکورہ افسران سمیت بیشتر ریجنل پولیس افسر بھی اس تعریف سے تاحال محفوظ ہیں اور اپنا اپنا کام نہ صرف بخوبی سرانجام دے رہے ہیں بلکہ حکومت کیلئے سبکی اور شرمندگی کا سامان بھی نہیں بن رہے۔ ان آرپی اوزکو فری ہینڈ اور مینڈیٹ دے کر بجا طور غیر معمولی نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں؛ تاہم یہ کہنا بھی قطعی بے جا نہ ہوگا کہ حکومت نے لاہور پولیس کے حالیہ تجربے سے ہونے والی سبکی کا ازالہ کرنے میں زیادہ دیر نہیں لگائی اور لاہور پولیس کے نئے سربراہ کا انتخاب اس بات کی گواہی ہے کہ سرکار کو نہ صرف اپنی غلطی کا اعتراف کرنا آتا ہے بلکہ وہ اس کا ازالہ بھی بخوبی کرنا جانتی ہے۔ لاہور پولیس کی کمان سنبھالتے ہی انہوں نے سماجی بگاڑ کا باعث بننے والے شہر کے سب سے حساس اور دیرینہ مسئلے کو اپنا ہدف بنا کر ان غنڈہ عناصر پر ہاتھ ڈال دیا ہے جو عرصہ دراز سے ریاست اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کیلئے سوالیہ نشان بنے ہوئے تھے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب کی طرف سے انہیں اس اہم اقدام پر بھر پور مینڈیٹ حاصل ہے تاہم اب یہ توقع کی جاتی ہے کہ اس بار شہر لاہور کے باسیوں کو سود خوری‘ بھتہ خوری‘ قبضہ مافیا اور دھونس دھاندلی جیسے اُن ناسوروں سے بھی نجات حاصل ہو سکے گی جنہوں نے شریف اور بے وسیلہ شہریوں کی زندگی اجیرن بنا رکھی ہے۔ کمان کی تبدیلی سے لاہور کے ڈی آئی جی آپریشنز اور انویسٹی گیشن کی وہ کارکردگی بھی نمایاں ہو سکے گی جو سابقہ کمان کی بے جا مداخلت کی وجہ سے دھندلا گئی تھی۔ چلتے چلتے یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ اگر حکومت تھانوں میں عوام کو دھتکار اور پھٹکار سے چھٹکارا دلوانے میں سنجیدہ ہے تو ان فائلوں کا ضرور پتہ کرے جو محکمہ پولیس کی جانب سے منظوری کے لیے اعلیٰ سطح پر بھجوائی جا چکی ہیں۔
اور اہم بات یہ ہے کہ یہ لاہور پولیس ہی نہیں جس میں سدھار لانے کی ضرورت تھی بلکہ پورے ملک میں قانون کے نفاذ اور امن و امان برقرار رکھنے کے ذمہ دار اس ادارے پر توجہ مبذول کرنا حالات اور وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔ عوام کو زیادتیوں سے بچانے اور قانون کی خلاف ورزیوں کے مرتب افراد کو انصاف کے کٹہرے تک لانے کے لئے یہ بے حد ضروری بلکہ ناگزیر ہے۔