تازہ اخبارات کے ڈھیر میں ایک شہ سرخی پر نظر اس لیے اٹک گئی کہ یہ پرانا اخبار کہاں سے آگیا؟ اپنا شک دور کرنے کے لیے اخبار پر درج تاریخ دیکھی تو اخبار بھی تازہ تھا لیکن سرخی کو دیکھ کر یقین کریں یہی لگا کہ کوئی پرانا اخبار تازہ اخبارات کی فائل میں شامل ہوگیا ہے۔ وزیراعظم کے بیان پر مبنی سرخی کچھ یوں تھی ''ریاست مدینہ کے سوا کوئی راستہ نہیں‘‘ اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا۔ حضورِ والا! عرصۂ اقتدار کی نصف مدت پوری ہونے کو ہے اور باقی نصف مدت کا کاؤنٹ ڈاؤن شروع ہو چکا ہے۔ ہمارے حکمران ابھی تک ماڈل ماڈل ہی کھیل رہے ہیں‘ یہ عوام کو لفظوں کے کھلونوں سے کب تک بہلاتے رہیں گے۔ یہ بیانیوں کے جھانسے اور وعدوں کے سیلاب کب تک عوام کا استحصال کرتے رہیں گے‘ کب تک ان کی حالتِ زار کے تماش بین بنے رہیں گے۔
جہاں طرزِ حکمرانی ابھی طے ہونا باقی ہو‘ وہاں کیسی اصلاحات‘ کہاں کی گورننس اور کون سا میرٹ ہو سکتا ہے؟ جس ریاستِ مدینہ کو استعارہ بنا کر مینڈیٹ طلب کیا گیا تھا وہاں نہ مشیروں کی بھرمار تھی‘ نہ معاونین کی بہتات‘ امورِ سلطنت میں مصاحبین کا کوئی کردار تھا نہ عمل دخل‘ نہ مال و دولت کی ریل پیل تھی‘ نہ کوئی انڈسٹریل زون تھا‘ نہ کوئی سٹاک مارکیٹ تھی۔ ریاستِ مدینہ مخلوق کے معاملے میں اﷲ سے ڈرتی اور رات کے اندھیرے میں بھیس بدل کر رعایا کی خبر گیری کرتی تھی۔ خلیفۂ وقت سے کُرتے کے کپڑے کا حساب طلب کرنے کا استحقاق عوام کو حاصل تھا اور دریائے فرات کے کنارے پیاس سے مر جانے والے کتے کا ذمہ دار بھی خلیفہ خود ہی کو ٹھہراتا تھا۔ ریاستِ مدینہ میں ایفائے عہد اور زبان و بیان کی حرمت ہی طرزِ حکمرانی کا خاصہ تھی۔ سماجی انصاف اور مساوات کا دور دورہ تھا۔ عدل و انصاف مثالی تھا‘ سرکاری وسائل پر نہ کنبہ پروری تھی نہ مصاحبین اور مشیروں کی موجیں‘ ریاستِ مدینہ کی مثالیں ضرور دیں‘ عوام کو الفاظ کے کھلونوں سے ضرور بہلائیں لیکن ریاستِ مدینہ میں کردار اور اخلاقیات کے جو معیار رائج تھے کبھی ان پر بھی کچھ توجہ فرمائیں‘ یعنی کتاب کے عنوان پر شور و غُل کے بجائے کتاب کے مندرجات کا بغور مطالعہ فرمائیں‘ تب کہیں جا کر ریاستِ مدینہ کے ماڈل کی اصل روح آشکار ہو سکے گی۔
نبی کریمﷺ نے کردار سازی پر ہی زور دیا تھا اور اس کے نتیجے میں ایسے ایسے باکردار لوگ ریاستِ مدینہ کو میسر آئے کہ تاریخِ انسانی میں اس سے بڑا کوئی انقلاب ہو ہی نہیں سکتا اور نہ ہی اس سے بہتر کوئی تعلیمات۔ ان تعلیمات سے استفادہ کئے بغیر ریاستِ مدینہ کا بار بار حوالہ دینا خود فریبی نہیں تو کیا ہے؟ مجھے اخبار کے پرانے ہونے کا گمان بھی اسی لیے ہوا کہ ایسے بیانات نجانے کتنی بار اخبارات کی شہ سرخیاں بن کر عوام کو نجانے کب سے چڑا رہے ہیں۔
وزیر اعظم کبھی کرپشن پر سزائے موت کی بات کرتے ہیں تو کبھی کرپشن پر برطرفی کی بات‘ کبھی چینی ماڈل سے متاثر نظر آتے ہیں تو کبھی انقلابِ ایران کی مثال دیتے ہیں‘ کبھی مہاتیر محمد کو رول ماڈل بناتے نظر آتے ہیں تو کبھی اپنی حکومت کو ریاستِ مدینہ کا پرتو ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پونے دو سال قبل پاکستان کے دورے پر آئے ملائیشیا کے تاریخ ساز حکمران مہاتیر محمد جاتے جاتے وزیر اعظم عمران خان کو ایک خاصے کی بات ضرور کہہ گئے تھے کہ قیادت کرپٹ نہیں ہونی چاہیے‘ ورنہ کرپشن کا خاتمہ ممکن نہیں۔ مہاتیر محمد کی بات سولہ آنے نہیں‘ بلکہ سولہ سو آنے درست ہے۔ کرپشن کے خلاف برسر پیکار حکومت کو ایک مہمان سربراہِ مملکت کا گھر آ کر ایسی بات کہہ جانا ایسے ہی ہے کہ بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی۔ گویا وہ بھی بخوبی جانتے ہیں کہ ہمارا بنیادی مسئلہ اور اصل بیماری کیا ہے۔ 94 سالہ عہد ساز شخصیت مہاتیر محمد کی طرف سے حکومتِ وقت کو دیے گئے اس مشورے اور نصیحت کو مزید آسان زبان میں یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ 'جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے‘۔
طرزِ حکمرانی کا کوئی ماڈل لے آئیے لیکن عوام کے چولہے گرم اور روٹی پوری کر کے ان کی چادر ان کے پاؤں تک دراز کرنے کا کوئی سامان کر ڈالیں۔ اکثریت ایسی ہے کہ پاؤں ڈھکتے ہیں تو سر ننگا ہو جاتا ہے‘ چادر سے سر ڈھانپتے ہیں تو پاؤں ننگے نظر آتے ہیں جبکہ ایسی مخلوق بھی جناب کی ہی رعایا ہے کہ جو چادر سے بے نیاز اور چھت سے محروم کھلے آسمانوں تلے اس طرزِ حکمرانی کی راہ تک رہی ہے کہ جو اِن کی حالتِ زار بدل سکے۔ جب تک حکومت کو طرزِ حکمرانی کے لیے کوئی ماڈل نہیں مل جاتا اس وقت تک بھلے جنگل کا ہی کوئی ماڈل لے آئیے کیونکہ:
سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے
سنا ہے شیر کا جب پیٹ بھر جائے تو وہ حملہ نہیں کرتا
درختوں کی گھنی چھاؤں میں جا کر لیٹ جاتا ہے
ہوا کے تیز جھونکے جب درختوں کو ہلاتے ہیں
تو مینا اپنے بچے چھوڑ کر
کوّے کے انڈوں کو پَروں سے ڈھانپ لیتی ہے
سنا ہے گھونسلے سے کوئی بچہ گر پڑے تو سارا جنگل جاگ جاتا ہے
سنا ہے جب کسی ندی کے پانی میں
بَئے کے گھونسلے کا گندمی سایہ لرزتا ہے
تو ندی کی رَو پہلی مچھلیاں اس کو پڑوسی مان لیتی ہیں
کوئی طوفان آ جائے‘ کوئی پُل ٹوٹ جائے
تو لکڑی کے کسی تختے پر
گلہری‘ سانپ‘ بکری اور چیتا ساتھ ہوتے ہیں
سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے
خداوندا‘ جلیل و معتبر‘ دانا و بینا‘ منصف و اکبر
میرے اس شہر میں اب جنگلوں کا ہی کوئی قانون نافذ کر
سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے
سماجی انصاف‘ قانون کی حکمرانی‘ گورننس اور میرٹ کے نام پر جو کچھ ریکارڈ مدت میں عوام کے ساتھ ہو چکا ہے ماضی کے سبھی ادوار میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ طرزِ حکمرانی کا ماڈل کیا ہو گا‘ کیسا ہو گا‘ کب ہو گا‘ ہو گا بھی یا نہیں ہو گا؟ یہ ایک نہ ختم ہونے والی اور طویل بحث ہے‘ تاہم ماڈل کے انتخاب تک جنگل کے دستور کو ہی اپنا کر عوام کی زندگی آسان کی جا سکتی ہے۔
اسی شہ سرخی کا دوسرا حصہ بھی عوام ہی سے منسوب ہے جس میں وزیر اعظم نے خوش خبری دی ہے کہ کورونا ویکسین کے لیے امیر غریب نہیں دیکھا جائے گا۔ خدا کرے ایسا ہی ہو کیونکہ لاک ڈاؤن کے دوران اربوں روپوں کے ریلیف اخراجات کا حساب آج بھی معمہ ہے اور اعلیٰ عدالتوں کے استفسار کے باوجود انصاف حکومت کورونا کے اخراجات کا حساب دینے سے قاصر ہے۔ اکثریت کو راشن کے بجائے بھاشن پر ہی گزارہ کرنا پڑا۔ ابھی کالم یہیں تک پہنچا تھا کہ گلشن اقبال پارک میں نصب علامہ اقبال کے مجسمے نے کالم کا دھارا ہی موڑ ڈالا... سوشل میڈیا پر شاعر مشرق کا یہ مجسمہ ٹاپ ٹرینڈ بن چکا ہے‘ جس پر صرف علامہ اقبال سے معافی ہی طلب کی جا سکتی ہے کہ اے مصّورِ پاکستان ہم شرمندہ ہیں کہ یہ سلوک صرف آپ ہی کے ساتھ روا نہیں رکھا گیا بلکہ اس دور میں ہر شعبے میں یہی کارکردگی دکھائی دیتی ہے۔ صرف آپ ہی کے مجسمے کو دیکھ کر پیروڈی کا گماں اور شرمندگی کا احساس نہیں ہوتا بلکہ ملک کے کونے کونے میں نجانے کتنے ایسے اقدامات ہیں جن پر گورننس شرمسار اور میرٹ تار تار نظر آتا ہے۔ کہیں اخلاقیات لیرو لیر ہیں تو کہیں سماجی انصاف اورقانون کی حکمرانی منہ چھپائے پھرتے ہیں۔ سرکار کو تو فرصت نہیں مگر ہم عوام شاعرِ مشرق سے ضرور شرمندہ ہیں۔