اپوزیشن بجٹ کو عوام دشمن قرار دے رہی ہے جبکہ حکومتی حلقوں میں مبارک سلامت کا سماں ہے کہ کیسا عوام دوست بجٹ پیش کیا ہے۔ بجٹ ماضی کی حکومتوں نے پیش کیا ہو یا دورِ حاضر کے حکمرانوں نے اس کی حیثیت محض بجٹ شو کی ہی ہوتی ہے۔ ایک نمائشی سی کارروائی ہے جس میں وزیر خزانہ پارلیمنٹ میں گھنٹے دوگھنٹے کی تقریر کرتا ہے‘ اپوزیشن شور مچا کر بجٹ کی دستاویزات پھاڑ کر ہوا میں اُڑاتی ہے اور یوں وزیر خزانہ کا اقتصادی بھاشن اپوزیشن کے ہنگامے میں دب کر رہ جاتا ہے‘ لیکن تمام تر شور شرابے کے باوجود وزیر صاحب انتہائی مستقل مزاجی سے اپنی تقریر حاضرین اور سامعین کے کانوں میں اُنڈیلے چلے جاتے ہیں۔
بجٹ تو ایک رسم ہے جو ہر سال باقاعدگی اور بڑے زوروشور سے منائی جاتی ہے۔ اس میں حکومتِ وقت اعدادوشمار کا گورکھ دھندا کچھ اس انداز سے پیش کرتی ہے کہ بجٹ کے بعد ہر طرف خوشحالی کا دور دورہ ہو گا‘ دودھ کی نہریںبہتی نظر آئیں گی‘ مہنگائی کا جن دھمال ڈالنا بند کر دے گا‘ اشیائے ضروریہ عوام کی قوتِ خرید سے باہر نہیں ہوں گی۔ یہ دلفریب جھانسے ہر بجٹ کے مین آئٹمز ہوتے ہیں جبکہ اصل واردات کو ہمیشہ خفیہ ہی رکھا جاتا ہے۔ بجٹ کے موقع پر جو ٹیکے عوام کو نہ لگا کر عوام دوست حکومت کا ڈھول بجایا جاتا ہے وہ سبھی ٹیکے بجٹ کے بعد پورا سال وقتاً فوقتاً عوام کو بالجبر لگائے جاتے ہیں۔ فیس سیونگ اور مزاحمت سے بچنے کے لیے یہ جادوگری سبھی حکومتیں بڑی مہارت سے کرتی ہیں کہ بجٹ کے موقع پر سبھی صدمات عوام کو دینے کے بجائے اس کا دورانیہ پورے سال پر محیط کر دیا جاتا ہے۔ پارلیمنٹ میں پیش کیا جانے والا بجٹ تو بس اس بجٹ کا نقطۂ آغاز ہوتا ہے‘ عوام کو تو روز ایک نئے بجٹ کا سامنا ہوتا ہے۔
ہر بجٹ پر ملک بھر میں مباحثے کا سماں ہوتا ہے کہ یہ بجٹ کیسا ہے؟ عوام دوست ہے یا عوام دشمن؟ کیا حزب ِاقتدار‘ کیا حزبِ اختلاف سبھی پوائنٹ سکورنگ میں مگن نظر آتے ہیں۔ ماہرین معاشیات بجٹ کے ظاہری و پوشیدہ نکات کا آپریشن کرتے نظر آتے ہیں‘ پرنٹ میڈیا سے لے کر الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا سے لے کر تھڑوں اور ڈرائنگ رومز تک جاری بجٹ پر بحث دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہر شخص ہی دانشور اور ماہرِ اقتصادیات ہے۔ سالانہ بجٹ تو پہلا ٹیکہ ہوتا ہے‘ اس ٹیکے کے بعد سارا سال جو ٹیکے سپلیمنٹری بجٹ کے طورپر عوام کو لگائے جاتے ہیں وہ سبھی ملا کر ہی ''اصل اور حقیقی بجٹ‘‘ بنتا ہے‘ تاہم بجٹ پر دانشوری بھگارنے والوں کو خبر ہوکہ ابھی کچھ دانشوری اپنے پاس رکھیں‘ پورا سال باقی ہے‘ ابھی مزید امتحانات اور صدمات کے ساتھ تکلیف دہ ٹیکے سال بھر عوام کو لگتے رہیں گے۔ اس تناظر میں بجٹ پر مزید قلم آرائی الفاظ اور وقت کا ضیاع معلوم ہوتی ہے۔ پارلیمنٹ میں بجٹ کی ہنگامہ آرائی تو تھم چکی ہے؛ تاہم ایک اور معرکہ حکومت کو درپیش ہے ؎
اک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اُترا تو میں نے دیکھا
یہ معرکہ بھی حکومت سَر کرتی نظر آتی ہے۔ ڈپٹی سپیکر قاسم خان سوری کے خلاف اپوزیشن دوسری مرتبہ صف آرا ہے۔ ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پر رائے شماری تین روز بعد کی جائے گی لیکن اس مرتبہ بھی اپوزیشن کو مایوسی اور ہاتھ ملنے کے سوا کچھ ملنے والا نہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اپوزیشن 2019ء میں منہ کی کھانے کے بعد دوبارہ عدم اعتماد کیوں لائی ہے؟ قاسم سوری کی وکٹ دن بدن کیوں اہمیت اختیار کرتی جارہی ہے؟ مخصوص عناصر یہ وکٹ گرانے کے کیوں در پے ہیں؟ قاسم سوری کا وجود کس کس کے لیے ناقابلِ برداشت ہوتا چلا جا رہا ہے؟ انہیں اجلاس کی کارروائی چلاتے دیکھ کر کس کس کے سینے پر سانپ لوٹتے ہیں؟ ہواؤں کا رُخ بدلنے کے تمنائی خود ہوا کے دوش پر خشک پتے کی طرح اُڑتے پھرتے ہیں اور چلے ہیں قاسم سوری کے خلاف عدم اعتماد کامیاب کرانے۔ محمود اچکزئی سے لے کر لشکری رئیسانی تک نجانے کتنے اس تحریک کی کامیابی کے لیے بے چین اور اپنے نظریاتی حلیفوں کو اس قابل سمجھ بیٹھے ہیں کہ وہ پیپلز پارٹی اور( ن) لیگ کے ساتھ مل کر قاسم سوری کا معرکہ مار لیں گے۔
قاسم سوری سے مخاصمت اور وجۂ عناد کی طرف چلیں تو پسِ پردہ عزائم سے پردہ کچھ یوں اٹھتا ہے کہ شیر شاہ سوری کے قبیلے سے تعلق رکھنے والا قاسم خان کوئی سردار یا نواب نہیں بلکہ ایک عام سے مکان کا مکین ہے۔ چھوٹے بھائیوں کے ثانوی کاروبار ہیں‘ وہ گھر میں سب سے بڑے ہیں۔ حسب نسب والے بڑے بڑے سرداروں اور نوابوں کو چکرا دینے کے لیے بس یہی کافی تھا کہ بلوچستان سے تو عام آدمی کونسلر تک نہیں بن سکتا‘ وہاں کے عوام کے ووٹ پر حق صرف اونچے شملے والے نوابوں اور سرداروں کا ہے‘ ایسے میں قاسم خان سوری نے لشکری رئیسانی اور محمود خان اچکزئی جیسے پہاڑ جیسے حریفوں کو مات کیسے دے دی۔ غالباً یہ سورما سوری کے ہاتھوں شکست کے بعد داغِ ندامت لیے اپنے نظریاتی حلیفوں سے مدد مانگتے پھرتے ہیں کہ قاسم خان سوری اجلاس کی کارروائی چلاتا انہیں ایک آنکھ نہیں بھاتا۔
یہ سبھی نظریاتی حلیف بطور اپوزیشن قاسم سوری سے اس قدر نالاں اور خائف تھے کہ قاسم خان سوری کو نااہل قرار دینے کے لیے رٹ پٹیشن دائر کی گئی تو قاسم سوری کے پاس اپنے حریفوں کے پائے کا وکیل کرنے کے پیسے بھی نہیں تھے اور یہ بات جب وزیراعظم عمران خان کے علم میں آئی تو انہوں نے پارٹی کو قاسم سوری کے وکیل کی فیس ادا کرنے کی ہدایت کی۔ قاسم سوری نے جب بلاول بھٹو کو تقریر کی اجازت نہیں دی تو پیپلز پارٹی نے اسے نہ صرف بڑا مسئلہ بنا دیا بلکہ آصف علی زرداری بھی ان کے اس اقدام پر سیخ پا ہوگئے۔ شور شرابا کرنے پر پیپلز پارٹی کے ایم این اے آغا رفیع الدین کو اسمبلی سے نکال دیا گیا تو قاسم سوری کے خلاف باقاعدہ میٹنگ کی گئی کہ اس سے کیسے نجات حاصل کی جائے۔
اسمبلی میں قاسم سوری عمران خان کے وژن کی مضبوط ترین فصیل ہے اور یہ فصیل سَر کرنے کے لیے اپوزیشن ایک بار پھر سر جوڑ بیٹھی ہے۔ بلوچستان کے عام نوجوان کا سپیکر کی کرسی پر بیٹھنا وہاں کے سرداروں اور نوابوں کو کیسے برداشت ہوسکتا ہے۔ قاسم سوری کے خلاف عدمِ اعتماد کا فیصلہ تو آئندہ چند روز میں ہو ہی جائے گا لیکن یہ عدم اعتماد صرف قاسم خان سوری کے خلاف نہیں بلکہ تحریک انصاف کی پوری حکومت کو چیلنج ہے۔ اپوزیشن کی کامیابی حکومتی کشتی میں بڑے سوراخ کے مترادف ہوگی‘ تاہم حکومت کو اپنوں میں بھی خالص اپنے تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
اکثر شریکِ اقتدار مخصوص اشاروں کے مرہونِ منت ہوتے ہیں اور تحریک انصاف کی حکومت میں بھی ایسے اشاروں پہ چلنے والوں کی کمی نہیں جو بدلتے اور بگڑتے حالات میں اگلی منزل اور اگلی گھات کی طرف رواں دواں نظر آتے ہیں۔ انہیں نہ تحریکِ انصاف سے کوئی سروکار ہے اور نہ اپنے نام اور ساکھ کی کوئی پروا۔یہ تحریک انصاف سے پہلے بھی اشاروں پر شریکِ اقتدار بن کر اقتدار کے مزے لوٹتے رہے اور آئندہ بھی کوئی نہ کوئی جگاڑ لگا لیں گے۔ یہ ڈال ڈال پر بیٹھنے والے پنچھی ہیں‘ آج اس ٹہنی پر تو کل اُس ٹہنی پر‘آج اس کی آغوش میں تو کل کسی اور کی‘انہیں تو بس بوئے سلطانی سے مطلب ہے۔ ہوسِ اقتدار نے انہیں نظریات سے بے نیاز کر ڈالا ہے۔ ان کا ایک ہی نظریہ ہے اور ایک ہی ایجنڈا ‘اور وہ ہے اقتدار۔ حکومت میں شریک فیصلہ سازوں کی اکثریت ڈال ڈال پر بیٹھنے والے پنچھیوں کی ہی ہے۔ یہ جب اُڑن چھو ہوں گے تو خان صاحب کے پاس قاسم خان سوری اور شہریار آفریدی جیسے غیر مشروط جانثار ہی رہ جائیں گے۔