74واں یوم آزادی پوری قوم روایتی جوش وجذبے کے ساتھ منا رہی ہے۔ یہ پون صدی کا قصہ ہے۔ اس دوران ٹریفک کے سگنل سے لے کرآئین و قانون توڑنے والوں تک‘ گلی محلوں سے لے کر اقتدار کے ایوانوں تک‘ عوام سے لے کر خواص تک‘ سرکاری بابوئوں سے لے کر حکمرانوں تک سبھی آزاد ہیں۔ احترامِ آدمیت سے لے کر قانون اور ضابطوں تک‘ سماجی و اخلاقی قدروں سے لے کر تحمل اور بردباری تک‘ ادنیٰ سے لے کر اعلیٰ تک‘ انتظامیہ سے لے کر اشرافیہ تک‘ فرائضِ منصبی سے لے کر احساسِ ذمہ داری تک ہر کوئی بے نیاز اور آزاد دکھائی دیتا ہے۔ سڑکوں پہ جوق در جوق نکلنے سے لے کر ڈھول ڈھمکے اور گانے بجانے تک‘ ساری رات سڑکوں پر غل غپاڑے اور موج مستی سے لے کر ہلڑ بازی اور طوفانِ بدتمیزی تک‘ جشن آزادی کے نام پر مادر پدر آزادی کے سارے مناظر اس بار بھی دیکھنے کو ملیں گے؛ تاہم اس بار سرکاری عمارتوں پر آرائش و چراغاں کے بجائے جشن آزادی کو سرسبز پاکستان سے منسوب کرنا ایک انوکھا اور انتہائی قابل تعریف اقدام اور سرسبز پاکستان کی طرف ایک اہم سنگ میل ہے۔ خدا کرے کہ اس قوم کو پودوں اور درختوں کی اہمیت اور افادیت کا ادراک ہو جائے تو ہم نجانے کیسی کیسی بیماریوں اور آلودگیوں سے نہ صرف نجات پا جائیں بلکہ آنے والی نسلوں کو ایک صحتمند ماحول کا تحفہ بھی دے جائیں۔ پون صدی میں یہ پہلا جشن آزادی ہے جسے جھنڈیوں کے بجائے پودے لگا کر وطن سے محبت کی ترغیب دے کر منفرد بنایا جا رہا ہے جبکہ باقی سبھی احوال اور معاملات روزِ اول سے تادم تحریر جوں کے توں جاری و ساری ہیں۔
ماضی اور حال مستقبل کا آئینہ ہوتے ہیں‘ بد قسمتی سے ملک و قوم کا مستقبل ماضی اور حال سے مختلف نظر نہیں آ رہا۔ گویا وہی چال بے ڈھنگی‘ جو پہلے تھی سو اب بھی ہے۔ پہلا قدم ہی دوسرے قدم کی منزل اور سمت کی نشان دہی کرتا ہے مملکتِ خداداد کا مستقبل کیا ہو سکتا ہے‘ اس کا بخوبی اندازہ لگانے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں۔ ماضی کی خرابیاں کئی گنا اضافوں کے ساتھ بدستور جاری ہیں۔ حال کی بد حالی آنے والے وقت کا منہ چڑاتی ہے۔ ہمارے ارادوں سے لے کر نیتوں تک‘ معیشت سے لے کر گورننس اور میرٹ تک‘ سماجی انصاف سے لے کر قانون کی حکمرانی تک‘ تجاوزات سے لے کر احتساب تک‘ ملکی وقار سے لے کر غیرتِ قومی تک‘ ذاتی مفادات سے لے کر عزائم تک‘ مصلحتوں اور مجبوریوں سے لے کر بد انتظامیوں اور بد عنوانیوں تک‘ سبھی ملک و قوم کے مستقبل کے چلتے پھرتے عکس ہیں جو مستقبل کا منظرنامہ پیش کرتے نظر آتے ہیں۔ جہاں حال ماضی سے بد تر ہو تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ماضی کا آسیب‘ کردار اور چہروں کی تبدیلی کے باوجود ہمارے حال کے ساتھ ساتھ مستقبل کو بھی جکڑے ہوئے ہے۔ مملکتِ خداداد کی صورت حال ڈھکی چھپی نہیں ''نئے پاکستان‘‘ میں کئی گنا اضافوں کے ساتھ وہ سب کچھ جاری و ساری ہے‘ جو پرانے پاکستان میں ہوتا چلا آیا تھا۔ نئے پاکستان کے خالق پرانے پاکستان کی طرزِ حکمرانی سے لے کر من مانیوں تک‘ سبھی پر تنقید کے جو نشتر چلایا کرتے تھے‘ آج خود ان کی زد میں نظر آتے ہیں۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ کرداروں اور چہروں کی تبدیلی کے ساتھ وہ سب کچھ اسی بے حسی سے آج بھی زور و شور سے جاری ہے۔ ایسے میں بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مستقبل کا پاکستان کیسا ہو گا۔ نہ پرانے پاکستان میں عوام کو سکھ کا کوئی لمحہ میسر آیا اور نہ نئے پاکستان میں‘ کیونکہ یہ تبدیلیاں عوام کے نہیں بلکہ انہی سیاستدانوں کے لیے ہیں۔ عوام کو اصل خوشخبری اسی دن میسر آ سکے گی جب اُن کے آدرشوں والا پاکستان ہوگا‘ وہی خوشخبری کا اصل دن ہوگا اور وہ دن نجانے کب آئے گا۔ اس دن کی آس میں کتنی ہی نسلیں قبروں میں جا سوئی ہیں اور باقی ہلکان اور شہر خموشاں کی مسافر نظر آتی ہیں‘ لیکن عوام کے اچھے دن دور دور تک نظر نہیں آتے۔ اکثر یوں محسوس ہوتا ہے کہ اشرافیہ اور حکمرانوں کے درمیان مقابلہ جاری ہے کہ کون عوام پر عرصۂ حیات کس قدر تنگ کرتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اکثر عوام بھی اشرافیہ اور حکمرانوں کے مدمقابل کچھ اس طرح دکھائی دیتے ہیں کہ ہم بھی کسی سے کم نہیں۔
اس ملک کے حکمران پون صدی سے مملکتِ خداداد کو کس طرح تختہ مشق بنا رہے ہیں یہ دیکھ کر قائد اور اقبال کی روحیں بے چین ہوتی ہوں گی۔ جس وطن کے حصول کے لیے بر صغیر کے چوٹی کے مسلم رہنماؤں نے اپنی زندگیاں صرف کر دیں‘ مسلم عوام نے بے پناہ جانی و مالی قربانیاں برداشت کیں‘ وہ ملک ہمیں سستا مل گیا‘ اسی لیے ہمیں اس کی قدر اور اہمیت کا احساس نہیں۔ پاکستان کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کیلئے دی جانے والی قربانیوں کی داستان دلخراش ہے۔ اس دردناک کہانی کے کردار ہزاروں خاندان آج بھی یہ زخم بھلا نہیں پائے‘ تقسیم ہند کے وقت کے ہولناک مناظر ان کے ذہنوں سے محو نہیں ہو پائے۔ مگر اُس نسل کو 74 برس گنوانے کے بعد بھی یہ احساس بے چین کئے رکھتا ہے کہ تمام عمر چلے گھر نہیں آیا اور گھر کیوں نہیں آیا اس کا جواب گھر والوں کے پاس بھی نہیں۔ وطنِ عزیز کو آج تک ایسا کوئی حکمران نصیب نہیں ہوا جو گورننس سے آشنا اور مردم شناس ہو۔ خواہشات اور مفادات کے گرد گھومتی پالیسیوں کی تشکیل سے تکمیل تک انہیں اپنے رفقا اور مصاحبین کے سوا کوئی دکھائی نہیں دیتا۔ ناموافق اور نام نہاد رہبروں کے پیچھے نامعلوم منزل کی طرف چلتے چلتے یہ قوم ہلکان اور اس کی حالت ناقابلِ بیان ہے۔ قیام پاکستان سے لے کر لمحۂ موجود تک حکمرانوں نے کیا کچھ داؤ پر نہیں لگایا‘ ملکی وقار سے لے کر معاشی استحکام تک‘ سماجی انصاف سے لے کر آئین اور قانون تک‘ میرٹ سے لے کر گورننس تک سبھی کچھ تہ وبالا کئے رکھا۔
سرکاری وسائل پر کنبہ پروری سے لے کر بندہ پروری تک کیسا کیسا جان لیوا منظر ہماری تاریخ کا سیاہ باب ہے۔ ذاتی مفادات سے لے کر مخصوص مقاصد تک‘ مصلحتوں اور مجبوریوں سے لے کر بد نیتی اور بد انتظامی تک سبھی کچھ تو مملکت خداداد کا طرزِ حکمرانی رہا ہے۔ روز اول سے مسلط حکمران یہی عذر تراشتے نظر آئے کہ ملک انتہائی نازک موڑ سے گزر رہا ہے‘ قوم کو صبرو تحمل کا مظاہرہ کرنا پڑے گا۔ قیام پاکستان کے وقت جو حالات تھے‘ اس سے بڑھ کر بھلا نازک موڑ اور کیا ہوگا؟ کیسے کیسے چیلنجز اور آزمائشیں مملکت خداداد کو درپیش تھیں‘ مہاجرین کی آباد کاری‘ روزگار کے انتظام و انصرام کے مسائل‘ انفراسٹرکچر سے لیکر استعدادِ کار تک‘ مالی مشکلات سے لیکر وسائل کی عدم فراہمی تک کتنے ہی کٹھن مرحلے تقسیمِ ہند کے وقت درپیش رہے مگربانیٔ پاکستان نے ہرگز یہ عذر پیش نہیں کیا کہ انہیں خون ریزی‘ قتل و غارت اور دیگر مصائب کا اندازہ نہ تھا۔ انہوں نے مشکل حالات سے فرار کیلئے نہ کوئی جواز گھڑے اور نہ ہی توجیہات پیش کیں‘ بس اپنے اقوال اور فرمودات کا پاس رکھا اور کام کیا‘ جیسا کہ وہ قیامِ پاکستان سے پہلے کیا کرتے تھے مگر قائد اعظم کے بعد ہمارا نازک موڑ ہی ختم ہونے کو نہیں آرہا‘یہ کیسی مشکل ہے جو ہر دور میں عوام کو در پیش رہتی ہے۔ ہم لوگ اپنی بدعہدیوں اور بد اعمالیوں کے ساتھ ہر یوم آزادی پر تجدید عہد کا دعویٰ کرتے ہیں تو یہ منظر نامہ دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم تجدید عہد نہیں کچھ اور کررہے ہیں۔
سماج سیوک حکمرانوں سے لے کر افسر شاہی تک سبھی کے اپنے اپنے ایجنڈے اور دھندے ہیں۔ اس ملک میں بسنے والے عوام سے ان کا کوئی تعلق ہے نہ سروکار۔ کوئی عاجزی کے تکبر میں مبتلا دکھائی دیتا ہے تو کوئی مہارت اور قابلیت کے گھمنڈ میں اترائے پھرتا ہے۔ سب الفاظ کا گورکھ دھندہ دکھائی دیتا ہے‘ کبھی بنام دین تو کبھی بنام وطن‘ حصول اقتدار سے لے کر طول اقتدار تک عوام کو کیسے کیسے جھانسے اور دھوکے دیے جاتے ہیں۔ محو حیرت ہوں کہ اس منظرنامے کو کیا نام دیا جائے‘ تجدیدِ عہد یا تنقیص عہد؟