ملک بھر میں مباحثے کا سماں ہے۔ ماہرانہ رائے سے لے کر دانشوری سمیت نجانے کون کون سی توجیہات اور قانونی حیثیت کو لے کر تبادلوں کو ٹاپ ٹرینڈ بنایا جارہا ہے۔ صورتحال کو نازک قرار دینے سے لے کر مستقبل کے منظرنامے تک پیشگوئیاں بھی خوب جاری ہیں۔ کوئے اقتدار کی تاریخ ایسے معاملات سے بھری پڑی ہے تاہم یہ کریڈٹ موجودہ حکومت کو ضرور جاتا ہے کہ طرز حکمرانی سے لے کر طرز سیاست تک سبھی معاملات میں ماضی کے تمام ریکارڈ ‘ریکارڈ مدت میں توڑتی چلی جارہی ہے۔ اس صورتحال تک پہنچنے کے لیے بھی حکومت نے ماضی کے حکمرانوں کا ایک اور ریکارڈ قلیل مدت میں توڑ ڈالا ہے۔ سیاسی پنڈتوں سے لے کر قانونی اور آئینی ماہرین سمیت اہلِ دانش تک اس ایشوپر میدان سجائے بیٹھے ہیں تاہم ان سبھی کو خبر ہو کہ فوری نتیجہ نکالنے کے لیے وہ جو سٹیج لگائے بیٹھے ہیں وہ نتیجہ فوری برآمد نہیں ہوتا۔ ایسی صبرآزما صورتحال میں نفسیات اور اعصاب کے ساتھ ساتھ زبان اور کیفیات کو قابو میں رکھنے والے ہی مطلوبہ نتائج حاصل کرسکتے ہیں۔ وزیر اطلاعات کا کہنا ہے کہ وزیراعظم اور آرمی چیف کے مابین مشاورت کا عمل مکمل ہوچکا ہے اور وزیراعظم کے سمری منظور کرتے ہی نئے ڈی جی آئی ایس آئی کا نوٹیفکیشن جاری ہوجائے گااور یقینا ایسا ہی ہوگا۔ اس پر مزید تبصرہ اور قلم آرائی سے اختصار اور احتیاط بہترین حکمت عملی ہے۔
اب چلتے ہیں اس پورے سچ کی طرف جو نہ صرف پوری طرح آشکار ہوچکا ہے بلکہ یہ کہنا بھی بے جا نہ ہوگا سچ کو جاننے‘ ماننے اور تسلیم کیے بغیر اب کام نہیں چلے گا۔ سچ کیا ہے؟ سچ یہی ہے کہ آدمی‘ آدمی کو کیا دے گا‘ جو بھی دے گا‘ وہی خدا دے گا۔ ان زمینی خداؤں نے عوام کو کیا دینا ہے اور یہ دے بھی کیا سکتے ہیں؟ شوقِ سلطانی کے دیوانے حکمران کنبہ پروری اور بندہ پروری کے سوا کر بھی کیا سکتے ہیں؟ ان کی اپنی پوری نہیں پڑ رہی۔ ایسے میں یہ عوام کو کیا دے سکتے ہیں؟ گورننس اور میرٹ سے مشروط اداروں میں جب حکمرانوں کے ذاتی رفقا اور مصاحبین کا دور دورہ ہو تو کیسی گورننس اور کہاں کا میرٹ؟
صورتحال یہ ہے کہ حکومتی کارکردگی سے نالاں ارکانِ اسمبلی بھی اپنی ہی حکومت کے خلاف بول پڑتے ہیں۔ حال ہی میں ایک رکن اسمبلی تو اپنی حکومت کی گورننس کا رونا روتے روتے خود بھی پھوٹ پھوٹ کر رو پڑے تھے۔ جب حکومتی ارکانِ اسمبلی مایوس ہوکر خود رو پڑیں تو بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بے کس اور لاچار عوام کی حالتِ زار کیا ہوگی۔ اس عوام کے شب و روز کیسے گزرتے ہوں گے؟ اس رکنِ اسمبلی کو حلقے میں کس عوامی ردِّعمل اور مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہوگا جو عوام کی حالتِ زار اور جوابدہی کے خوف سے ہی رو پڑے۔ اکثر ارکانِ اسمبلی تو یہ بھی کہتے پائے گئے کہ اس حکومت نے تو ہماری سیاست کا خاتمہ ہی کر دیا ہے۔ اس طرزِ حکمرانی نے اس قابل نہیں چھوڑا کہ عوام کا سامنا کر سکیں اور آئندہ کسی الیکشن میں ووٹ مانگنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
آسمان کو چھوتی قیمتوں کی وجہ سے عوام کی پہنچ سے باہر نکلتی اشیائے ضروریہ‘ بچوں کی گمشدگی اور ان سے درندگی کے واقعات کے علاوہ ڈینگی سے متاثرہ مریضوں سے بھرے ہسپتال اور ہلاکتوں سمیت دیگر بدانتظامیوں پر پھٹ پڑنے والے حکومتی ارکانِ اسمبلی اور بعض وزرا کی مایوسی دیکھ کر صاف لگتا ہے کہ حکومت گورننس کی اہلیت اور استطاعت سے محروم ہے۔ عوام کی آس اور اُمید کا قتل کرنے والے نہ تو کوئی فیصلہ عوام کے حق میں کر سکتے ہیں اور نہ ہی عوام کی فلاح کے لیے کوئی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اب جو کرنا ہے قدرت نے ہی کرنا ہے جس نے حکمرانوں کو گورننس عطا تو کی لیکن وہ اس عطا کو اپنی ہی کوئی ادا سمجھ بیٹھے اور مسلسل خطا در خطا کیے چلے جارہے ہیں۔
اپنے حالیہ کالموں میں کئی بار توجہ دلا چکا ہوں کہ انسداد ڈینگی پر پیشگی اقدامات صفر ہیں۔ اگر ڈینگی کا مچھر بپھر گیا تو اس کا سامنا اور مقابلہ کرنا مشکل ہو جائے گا‘ لیکن متعلقہ حکام سب اچھا کا راگ الاپتے رہے اور ڈینگی کا لاروا پلتا رہا۔ انسدادِ ڈینگی پروگرام بھی شہباز شریف سے عناد کی نذر کر کے سابقہ دور کی تمام پالیسیاں اور انسداد ڈینگی پروگرام نظر انداز کردیے گئے۔ واقفانِ حال بخوبی جانتے ہیں کہ شہباز شریف نے کابینہ کمیٹی برائے انسداد ڈینگی قائم کی تھی جس میں صوبائی وزرا‘ صوبائی سیکرٹری پولیس اور ضلعی انتظامیہ کے افسران باقاعدگی سے شریک ہوتے تھے اور ڈینگی لاروا کے تدارک کیلئے متعلقہ محکموں کی کارکردگی کو سختی سے مانیٹر کرتے تھے۔ ڈینگی لاروا کے تدارک کے لیے قبرستانوں سے لے کر سڑکوں اور دکانوں تک‘ سرکاری محکموں سے لے کر پرائیویٹ اداروں تک روزانہ کی بنیاد پر سبھی کا معائنہ کیا جاتا تھا۔ اگر کسی تھانے کی حدود میں کہیں لاروا برآمد ہو جاتا تو ایس ایچ او معطل یا لائن حاضر کر دیا جاتا تھا۔ اسی طرح جس دکان یا دفتر سے لاروا مل جاتا اس کے خلاف مقدمہ یقینی تھا۔ سوئمنگ پولز‘ نمائشی فواروں اور ایئر کنڈیشنرز سے نکلنے والے پانی سے لے کر پرندوں کے لیے رکھے گئے پانی کے برتنوں تک سبھی خشک نظر آتے تھے اور اگر ان میں کہیں پانی نظر آ جاتا تو ذمہ داران کے خلاف فوری کارروائی عمل میں لائی جاتی تھی۔ اس کام میں ضلعی انتظامیہ پیش پیش نظر آتی جبکہ اس حکومت کی ضلعی انتظامیہ تو جیسے ''ضلعی انتقامیہ‘‘ کا کردار ادا کرتی نظر آتی ہے۔ ڈینگی کا ڈنگ انتہائی تیز ہو چکا اور مچھر بپھر چکا ہے اور کورونا کی صورتحال سے سہمے اور نڈھال عوام اب ڈینگی مچھر کے رحم و کرم پر نظر آتے ہیں۔ ہسپتالوں میں روزمرہ کے مریضوں کو دھتکار اور پھٹکار کے سوا کچھ نہیں ملتا تو ڈینگی سے متاثرہ مریضوں کا کون پرسان حال ہو گا؟ جس طرح کورونا کے انتظامات نمائشی اور کاغذی ثابت ہوئے اسی طرح انسداد ڈینگی پروگرام بھی دکھاوا بنتا نظر آ رہا ہے۔
وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کی انتظامی ٹیم میں شامل افسران میں اکثر اعلیٰ عہدوں پر تعینات لوگ شہباز شریف کے قریبی اور فرنٹ لائن بیوروکریٹس میں شمار کیے جاتے تھے۔ تعجب ہے ان میں سے کسی چیمپئن نے وزیراعلیٰ صاحب کو نہیں بتایا کہ انسداد ڈینگی کے لیے ہم باقاعدہ پیش بندی اور منصوبہ بندی کیا کرتے تھے۔ اگر اس میں ذرا بھی غفلت برتی گئی تو ڈینگی مچھر 2011ء والی تباہی مچا سکتا ہے۔ افسران وہی‘ وسائل وہی‘ اہداف وہی‘ مسائل وہی تو پھر نتائج یکسر مختلف کیوں؟ سابقہ حکومت جو نتائج انہی افسران سے برآمد کرتی تھی وہ نتائج موجودہ حکومت کیوں نہیں برآمد کروا سکی؟ وہ تیاری کہاں گئی جس کے دعوے حکومت کے برسر اقتدار آنے سے پہلے امور حکومت چلانے کے حوالے سے کیے جاتے رہے؟ وہ مہارت کہاں رہ گئی جس کا ڈنکا بجایا جاتا تھا؟ وہ قابلیت کیا ہوئی جس کا چرچا تھا؟ وہ گورننس کہاں جا چھپی جس کی نوید سنائی گئی تھی؟ وہ میرٹ کون کھا گیا جو تحریک انصاف نے نافذ کرنا تھا؟ ویسے بھی ہسپتالوں میں اکثر بجلی جیسی بنیادی سہولت نہ ہو تو اس کے تصور سے ہی انسان کانپ جاتا ہے۔ یہاں تو بجلی اور جان بچانے والی اہم سہولیات بھی کب کی ختم ہو چکی ہیں۔ ٹوٹے ہوئے فرش‘ ٹوٹی ہوئی سٹریچرز اور خستہ وہیل چیئرز کے علاوہ بستروں اور عمارتوں کی حالت ِزار کسی بھوت بنگلے سے کم نہیں۔ خدا جانے کون سی کارکردگی اور کون سے اقدامات پر نازاں اور اترائے پھرتے ہیں۔ حق تو یوں ہے کہ حق ادا نہ ہوا!