چھوٹی بڑی نجانے کتنی خبریں عوام کو اپنی امیدوں اور آسوں کی قبریں دکھائی دیتی ہوں گی۔ میرے خیال میں دنیا بھر میں ممتاز‘ اہمیت کی حامل اور ملک و قوم کا فخر ہماری انٹیلی جنس ایجنسی کے سربراہ کی تعیناتی کے معاملے کو بلا وجہ طول دیا جا رہا ہے۔ حکومت تقرری کے معاملے پر مسلسل تاریخیں اور شیڈول جاری کر رہی ہے۔ کئی حکومتی چیمپئنز کے بیانات سن کر بے اختیار منہ سے نکلتا ہے کہ ان سبھی کے 'کارناموں‘ کی فائلیں قومی اداروں کی الماریوں میں یقینا احتجاج کرتی ہوں گی کہ کیسے کیسے راز جو اِن فائلوں میں ہیں‘ ان عوام سے پوشیدہ رکھے گئے ہیں جو حکمرانوں کی بد عہدیوں اور بے وفائیوں کے باوجود انہیں مینڈیٹ دیے چلے جا رہے ہیں۔
پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں جناب وزیر اعظم سے صحافیوں نے جب ڈی جی کی سمری اور تقرری کے حوالے سے سوال کیا‘ تو شنید ہے کہ جواب دینے کے بجائے قہقہہ بکھیر کر چلتے بنے۔ اس اہم ترین اور حساس نوعیت کے معاملے پر ملک بھر میں مباحثے کا سماں ہے۔ دانش وروں سے لے کر دور کی کوڑی لانے والوں تک سب میں مقابلہ جاری ہے‘ تاہم یہ معاملہ خاموشی اور تحمل سے دیکھا جا رہا ہے اور ممکن ہے کئی کے نامۂ اعمال کی فائل بھی بھاری ہوتی چلی جا رہی ہو۔ خدا جانے وہ اس بھاری بوجھ کو اٹھا پائیں گے یا نہیں۔
جہاں وزیروں اور مشیروں کی اہلیت نا معلوم اور قابلیت صفر محسوس ہو‘ اور وہ زبان اور قول کی حرمت سے نا آشنا نمائشی دعوے اور جھوٹے وعدے کرتے نہ تھکتے ہوں تو ایسے میں الفاظ بھی سراپا احتجاج ہوتے ہوں گے کہ بولنے والوں کو خود نہیں معلوم کہ جو الفاظ اپنے منہ سے ادا کر رہے ہیں ان کی حرمت کے تقاضے کیا ہیں‘ ان کے معانی و مفہوم کیا ہیں۔ زبان سے ادا ہونے والے الفاظ کا دل و دماغ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا‘ جو منہ میں آتا ہے بس کہے چلے جاتے ہیں۔ انہیں خود نہیں معلوم کہ ان کے بلند بانگ دعووں سے عوام کیسی کیسی اُمیدیں باندھ کر خوش فہمیوں اور خوش گمانیوں کے لمبے سفر پر چل پڑتے ہیں اور کھلی آنکھ سے خوابوں کے کیسے کیسے محل سجا لیتے ہیں اور حکمرانوں کی جفاؤں کے نتیجے میں جب ان کے خواب چکنا چور ہوتے ہیں تو آنکھوں میں سجائے خوابوں کی جگہ کرچیاں لے لیتی ہیں۔
تبادلوں کے معاملے میں ذاتی خواہشات پر مبنی تبصرہ کرنے والے ہوں یا وفاداری کا ثبوت دینے والے سبھی کو خبر ہونی چاہیے کہ مسلح افواج کے فیصلے قابلیت‘ اہلیت‘ مہارت اور میرٹ کو مدنظر رکھ کر کیے جاتے ہیں۔ سیاست اور لابنگ سے پاک فیصلے ہی عساکرِ پاکستان کا طرہ امتیاز ہیں۔ کسی کے جانے یا آنے سے پالیسیاں اور ترجیحات ہرگز تبدیل نہیں ہوتیں۔ یہاں نام نہیں کام بولتے ہیں تاہم ناموں سے کاموں اور منظر ناموں کو مشروط کرنے والے ہوں یا دلوں میں دبی خواہشات کا گاہے گاہے اظہار کرنے والے‘ ان سبھی کو معلوم ہونا چاہئے کہ ملک کے طول و عرض میں یہی ایک ادارہ ہے جس کی قابلیت اور مہارت اسے دنیا بھر میں ممتاز کیے ہوئے ہے اور یہ عالمی درجہ بندی میں 10 بہترین عساکر میں بھی شامل ہے۔ یہ اعزاز بھی ہماری عساکر کا ہی ہے‘ جو اپنے کام کے ساتھ ساتھ ہر اس جگہ سول حکومت کے شانہ بشانہ ہوتی ہے جہاں اس کی ضرورت ہوتی ہے۔ گھوسٹ سکولوں کا کھوج لگانا ہو یا مردم شماری‘ قدرتی آفت ہو یا حادثہ‘ امن و امان کا سوال ہو یا دہشت گردی کا قلع قمع‘ جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت ہو یا نظریاتی‘ کون سا ایسا محاذ ہے جہاں پاک فوج قوم کے ہم قدم اور اس کی مددگار نہیں ہے۔ اس کے علاوہ کئی معاملات میں توازن قائم رکھنے کے کریڈٹ سے لے کر طاقت و اختیارات کے بگڑتے ہوئے توازن کو مدار اور حدود میں واپس لانے تک نجانے کون کون سے کریڈٹ اس کو جاتے ہیں۔
یہ کیسا خطہ ہے؟ اس میں بسنے والوں نے کیسا مقدر پایا ہے؟ سالہا سال گزر جائیں‘ کتنی ہی رتیں بیت جائیں‘ کتنے ہی موسم تبدیل ہو جائیں‘ کتنے ہی حکمران بدل جائیں‘ لیکن عوام کی حالت کسی صورت تبدیل ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔ روزِ اول سے لمحۂ موجود تک‘ سانحات اور صدمات قوم کا مقدر بنے چلے آ رہے ہیں۔ حالات کا ماتم جوں کا توں ہے۔ عوام کی مت مارنے سے خواص کا ضمیر مارنے تک کیسی کیسی واردات صبح شام‘ جا بجا اور ہر سو‘ کس قدر ڈھٹائی سے کھلے عام جاری ہے۔ بوئے سلطانی کے مارے ہوئوں کا سایہ اس ملک پر کسی آسیب سے کم ثابت نہیں ہوا۔ یہ آسیب کیا کچھ نہیں کھا گیا‘ نیت سے لے کر معیشت تک‘ سماجی انصاف سے لے کر آئین اور قانون تک‘ میرٹ سے لے کر گورننس تک‘ رواداری سے وضع داری تک‘ تحمل و برداشت سے لے کر بردباری تک‘ سبھی کچھ تو تہ و بالا ہو چکا ہے۔ ایسے کرداروں کا ذکر نہ کرنا قارئین اور تاریخ کے ساتھ ناانصافی ہو گی جو کئی دہائیوں تک عوام اوراداروں کے لیے آزمائش بنے رہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) ملک کے سب سے بڑے صوبے پر پانچ مرتبہ حکمرانی کے علاوہ تین مرتبہ وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز رہی۔ پیپلز پارٹی کو بھی کل ملا کر چار دفعہ حکومت کا موقع ملا‘ مگر ان جماعتوں نے ملک کے لیے کیا کیا؟ نواز شریف احتساب کا سامنا کرتے کرتے لندن نکل گئے اور خود ساختہ جلا وطنی کے دوران قومی اداروں پر تنقید کر کے شرمسار بھی نہیں۔ موصوف جب بھی اقتدار میں آئے اداروں کے لیے سخت امتحان ثابت ہوئے۔ بوئے سلطانی سے مجبور حکمران ہر دور میں اداروں اور اہم شخصیات سے ٹکرانے کی کوشش کرتے رہے۔ ان محاذ آرائیوں کے نتائج واضح اور ظاہر و باہر ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو اور نواز شریف کی برطرفی اور اس کے بعد طویل مدت کے لیے سیاسی جمہوری سیٹ اپ کا خلا تاریخ کا حصہ ہے۔ آج بھی منتقم مزاجی اور شخصی عناد جن کی شخصیت پر غالب ہے ان پر واضح ہونا چاہیے کہ وہ قومی سلامتی کے تقاضوں سے بے نیاز ہو کر جوش خطابت میں احتیاط کا دامن کھو بیٹھتے ہیں مگر تاریخ ان کے کردار و عمل کو فراموش نہیں کرتی۔ خدا جانے کوئے اقتدار میں کسی آسیب کا سایہ ہے یا کچھ اور کہ جن کی مالا جپتے برسر اقتدار آتے ہیں‘ اقتدار کا رنگ چڑھتے ہی رنگ بدلنا شروع کر دیتے ہیں اور پھر اختلافات سے ہوتے ہوئے مزاحمت اور تصادم کے راستے پر یوں دوڑنے لگتے ہیں کہ ٹھوکر لگنے تک ہوش نہیں آتا۔ ہوش آنے پر عوام کا درد جاگنے کے ساتھ ساتھ اصولی سیاست کا بخار بھی خوب چڑھ جاتا ہے‘ تاہم ہماری اشرافیہ اقتدار میں آنے کے لیے یقین دہانیوں اور وعدوں کا زینہ استعمال کرتی ہے‘ برسرِ اقتدار آتے ہی وعدہ فراموشی کا راستہ اختیار کرتی ہے اور اس کی اس ادا کا سامنا کرتے کرتے عوام ہلکان اور ادھ موے ہو چکے ہیں۔ مزید تبصرے کے بجائے یہ اشعار صورتحال کا بہترین استعارہ ہیں:
یہ کیا کہ خاک ہوئے ہم جہاں‘ وہیں کے نہیں
جو ہم یہاں کے نہیں ہیں تو پھر کہیں کے نہیں
وفا سرشت میں ہوتی تو سامنے آتی
وہ کیا فلک سے نبھائیں گے جو زمیں کے نہیں
میں نے ایک اور بھی محفل میں انہیں دیکھا ہے
یہ جو سب ترے نظر آتے ہیں‘ سب ترے نہیں