"AAC" (space) message & send to 7575

تصویر

تحریکِ لبیک کی بحالی کے بعد حکومت کے اوسان بھی بحال ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ انتظامی محاذ پر پسپائی کے باوجود تحریک لبیک سے مفاہمت کو سیاسی محاذ پر ایک اہم پیشرفت اور بریک تھرو بجا طور پرکہا جاسکتا ہے۔ 'وہ جو ناخوب تھا بتدریج وہی خوب ہوا‘ کے مصداق تحریک لبیک کی بحالی اور مفاہمت آئندہ الیکشن میںکیا رنگ لاتی ہے اس کا انحصار آنے والے حالات پر ہے۔ یہ مفاہمت آئندہ الیکشن میں مزاحمت اور ووٹ کی تقسیم سے بچنے کیلئے بجا طور پر بڑا سیاسی فیصلہ ہے جو تحریک انصاف کو عام انتخابات میں بڑی مخالفت سے بچا سکتا ہے۔ حکومت تحریک لبیک کی بحالی کو وسیع تر قومی مفاد سے منسوب کر رہی ہے جبکہ حکومت پنجاب کے ترجمان حسان خاور اسے قوم کیلئے خوشخبری قرار دے رہے ہیں۔ دور کی کوڑی لانے والے مستقبل کے سیاسی منظرنامے میں تحریک لبیک کو ناقابل تردید سیاسی قوت دیکھ رہے ہیں اور انہیں آئندہ انتخابات اور اسمبلیوں میں ان کی نمائندگی کے امکانات بھی روشن اور قوی دکھائی دے رہے ہیں۔ اپنی اہمیت اور بیانیے کو تسلیم کروانے کا کریڈٹ ٹی ایل پی کی حکمت عملی اور جدوجہد کے ساتھ ساتھ حکومتی اقدامات اور نالائقی کو بھی جاتا ہے۔ عوام کو خوف و ہراس سے دوچار کرنے اور قومی املاک کو ناقابل تلافی نقصان پہچانے کے علاوہ عوام کی جائیدادو ں کی تباہی کے ساتھ ساتھ جلائو گھیرائو کے نتیجے میں ارب ہا روپے کے جو نقصانات ہوئے وہ سبھی کس کھاتے میں؟ اگر تحریک لبیک کا موقف حکومت کیلئے قابل قبول اور منطقی تھا تو پھر ملک بھر میں یہ تماشا لگانے والوں کا تعین بھی ضرور ہونا چاہیے۔ یہ مفاہمت اور تحریک لبیک کی بحالی ہی کشیدگی اور مسئلے کا حل تھا تو اسے بروقت کیوں نہیں حل کیا گیا؟
حکومت اپنے فیصلوں اور اقدامات پر نظرثانی کے بعد جب یہ تسلیم کرچکی ہے کہ تحریک لبیک کو کالعدم کرنے کا فیصلہ غلط تھا اور ان کے مطالبات بھی قابل غور اور جائز ہیں تو پھر اپنے وژن کی کمی اور سیاسی ناکامی کو پولیس کے کھاتے میں کیوں ڈالا جارہا ہے؟ اگر پولیس ذمہ دار ہے تو حکومت کے وہ سبھی چیمپئن بھی برابرکے ذمہ دار ہیں جو دھمکی آمیز بیانات اور اشتعال انگیز تقریریں کرکے حالات کوپوائنٹ آف نو ریٹرن پرلے گئے تھے۔ جو وزیر اور مشیر ہرفن مولا بنے پھرتے تھے وہ سبھی نجانے کن کونوں کھدروں میں جاچھپے تھے۔ اس تماشے کے بعد یہ بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ ہرحکومت کو اپنی غلطی کے ازالے کے لیے قربانی کے چند بکرے درکار ہوتے ہیں۔ سانحہ ماڈل ٹائون کے بعد قربانی کا بکرا صرف پولیس افسران ہی بنے۔ جن انتظامی افسران کو طاہرالقادری صاحب پولیس کے ساتھ مزاحمت کا ذمہ دار ٹھہراتے تھے ان میں شامل ایک اعلیٰ افسر پنجاب اور وفاق میں کئی بار اعلیٰ عہدوں پر رہنے کے بعد آج کل صوبائی محتسب کے منصب پر فائز ہیں جبکہ چھوٹے تھانیداروں سے لے کر دیگر پولیس افسران تک سبھی دربدر ہیں اور وضاحتیں دیتے پھرتے ہیں۔ سانحہ ماڈل ٹائون کے نتیجے میں جو قیامت پولیس پر ٹوٹی اسے دہرانے سے گریز کرنے والے ایک بار پھر قربانی کا بکرا بن چکے ہیں جبکہ شہباز شریف ہوں یا ان کے سیاسی رفقائے کار اور سرکاری بابو‘ سانحہ ماڈل ٹائون میں نامزد ہونے کے باوجود موجیں مارتے پھر رہے ہیں۔ ہر بار ہر دور میں قربانی کے بکرے پولیس سے ہی لیے جاتے ہیں۔
اسی طرح سانحہ لیاقت باغ میں بے نظیر بھٹوکی شہادت کے ذمہ دار بھی پولیس افسران ہی ٹھہرائے گئے جبکہ 2007ء میں وطن واپسی پر بے نظیر بھٹو نے اپنی متوقع غیر طبعی موت کے خدشے کا اظہار کرتے ہوئے کچھ لوگوں پر شک کا اظہار بھی کیا تھا کہ اگر مجھے قتل کر دیا گیا تو یہ لوگ میری موت کے ذمہ دار ہوں گے۔ بے نظیر کے خدشات درست ثابت ہوئے اور انہیں راولپنڈی کے لیاقت باغ میں ایک جلسۂ عام سے خطاب سے واپسی پر گولی کا نشانہ بنایا گیا‘ جو اُن کی موت کا باعث بنی۔ بے نظیر نے جن شخصیات پر شک کا اظہار کیا تھا ان میں سے ایک کو ان کے شوہر آصف علی زرداری نے گارڈ آف آنر دے کر رخصت کیا اور دوسرے کو استحکام اقتدار سے مجبور ہوکر ڈپٹی پرائم منسٹر کے منصب پر فائز کردیا۔ 2008ء کے عام انتخابات کی انتخابی مہم میں زرداری صاحب ان دونوں شخصیات کو برملا بے نظیر بھٹو کے قتل کا ذمہ دار ٹھہراتے تھے۔ جنہیں ذمہ دار قرار دیا انہی کو حلیف بنا کر شریک اقتدار بھی کیا جبکہ بے نظیر کے شک کی فہرست میں شامل دیگر افراد کل بھی موجیں مار رہے تھے اور آج بھی اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں۔
تاہم یہ بات طے ہے کہ وطن عزیز میں حادثات ہوں یا سانحات دونوں صورتوں میں قربانی کا بکرا انہیں بنایا جاتا ہے جن کا فیصلہ سازی میں کوئی کردار نہیں ہوتا۔ اصل ذمہ داروں اور فیصلہ سازوں کو بچانے کے لیے قربانی کے بکرے ہمارے ہاں ہمہ وقت وافر تعداد میں پیش کردیے جاتے ہیں۔ کسی کو دربدر اور کسی کو برباد کرکے یہ سبھی فیصلہ ساز نئے روپ اور نئے بہروپ کے ساتھ ہر دور میں قائد اور پارٹی کی تبدیلی کرکے کھلا دھوکا دینے پھر آجاتے ہیں۔
حکومت اور تحریک لبیک ایک دوسرے کے رقیب سے رفیق بن چکے ہیں اور آنے والے دنوں میں یہ حلیف بھی بنتے دکھائی دیتے ہیں اور شعلے اگلنے والے وزیروں اور مشیروں کے منہ سے پھول جھڑرہے ہیں۔ یہ منظرنامہ دیکھ کر نجانے کیوں خیال آتا ہے کہ یہ سبھی اپنی اپنی جگہ اپنے اپنے موقف اور اپنے اپنے بیانیوں کے ساتھ ٹھیک تھے۔ تحریک لبیک کو کالعدم قرار دینے کا فیصلہ بھی غلط تھا۔ حکومت میں تعینات لوگ بھی غلط اور نااہل تھے۔ عوام تو کسی کھاتے میں ہی نہیں‘ کنٹینر کھڑے کرکے تو کبھی خندقیں کھود کر عوام کا کاروبارِ زندگی بند کرنے سے لے کر انہیں پرائی آگ کا ایندھن بنانے تک حکمران ہر دور میں عام آدمی کو اپنے فیصلوں اور اقدامات کی سولی پر چڑھاتے چلے آئے ہیں۔ اس بار بھی کوئی انہونی نہیں ہوئی وہی تاریخ دہرائی گئی ہے جو ہر دور میں رقم کی جاتی رہی ہے۔
حکمران ماضی کے ہوں یا دور حاضر کے‘ حصول اقتدار سے لے کر طول اقتدار تک وہ سب کچھ بے دریغ کر گزرتے ہیں جن اقدامات سے گھن کھایا کرتے تھے اور عوام کیلئے زہر قاتل قرار دیتے تھے۔ برسراقتدار آکر ان اقدامات کو کبھی مشعل راہ تو کبھی نصب العین بنا لیتے ہیں۔ ان کے کوئی نظریات ہیں نہ ہی اخلاقیات۔ نہ کوئی اصول ہیں نہ کسی ضابطے کے پابند۔ عوام کے مسائل سے انہیں کوئی سروکار ہے نہ عوام کی حالت زار کا کوئی احساس۔ کل کے حریف آج کے حلیف‘ آج کے حلیف کل کے حریف بنتے دیر نہیں لگتی۔ مفادات کے جھنڈے تلے یوں اکٹھے نظر آتے ہیں جیسے ان میں کوئی اختلاف تھا نہ ہی کوئی عناد۔ ان کے اختلافات بھی مفادات کے مرہونِ منت ہوتے ہیں اور نظریات بھی مفادات کے گرد گھومتے ہیں۔
چلتے چلتے ایک مشورہ پیش خدمت ہے کہ حکومت کو چاہیے‘ آئندہ ایسی صورتحال میں کسی جماعت کو کالعدم کرنے کے بجائے پولیس‘ میڈیا اور عوام کو ہی کالعدم کردیا کریں۔ کامیاب مذاکرات اور بڑے تصادم سے بچائو کا کریڈٹ لینے والے شکرگزار ہوں ان کے جنہوں نے بروقت اپنا کردار ادا کرکے اس بار بھی حکومت کو انتظامی اور سیاسی بحران سمیت بڑے سانحے سے بچا لیا۔ ایک جاری شدہ تصویر ہزاروں الفاظ پر بھاری ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں