وزیراعلیٰ پنجاب کا یہ دعویٰ خوش آئند ہے کہ صوبہ پنجاب پولیو فری ہو چکا ہے۔ہمارے وزیراعلیٰ انتہائی خوش گمان اور سب اچھا پر یقین رکھنے والے حکمران ہیں‘بلکہ سرسبز پاکستان پروگرام کا اتنا گہرا اثر لیے ہوئے ہیں کہ انہیں ہر طرف ہرادکھائی دیتا ہے۔پولیوفری پنجاب کے دعوے کی اصل حقیقت یہ ہے کہ تحریک انصاف کے اقتدار میں آنے سے پہلے ماحولیاتی نمونوں کی تجزیاتی رپورٹس میں پنجاب پولیو فری ہوچکا تھا۔ انصاف سرکار ورثے میں ملنے والے پولیو فری پنجاب کو سنبھال نہ سکی اور عالمی ادارۂ صحت کی جانب سے ریڈ الرٹ جاری ہونے کے باجود زمینی حقائق سے انکاری رہی۔فروری2020ء میں شہر لاہور کی ساڑھے چار سالہ بچی امیشا پولیو کی بھینٹ چڑھ گئی اور تختِ پنجاب کے سارے چیمپئنز پولیو مہم کی کامیابی کا کریڈٹ لیتے رہے۔
2019-20ء کے ماحولیاتی نمونوں کی تجزیاتی رپورٹیں چیخ چیخ کر اعلان کرتی رہیں کہ پولیو کا وائرس انتظامی مشینری اور سرکار کی گورننس کو پچھاڑ چکا ہے‘ اور محکمہ صحت کے سبھی اقدامات بھی پولیو کا شکار ہوچکے ہیں لیکن مجال ہے جو کسی کے کان پہ جوں تک رینگی ہو؛ تاہم وزیراعلیٰ کے اس تازہ ترین دعوے کے بعد یہ مقامِ شکر ہے کہ ماحولیاتی نمونوں کی پولیو فری رپورٹس صوبہ پنجاب کو چار سال پرانے مقام پر واپس لے آئی ہیں۔ دیر آید درست آید! پولیو فری پنجاب کے دعوے کو برقرار رکھنے کے لیے سخت مانیٹرنگ اور اقدامات کے تسلسل کی اشد ضرورت ہے‘ تب کہیں جاکر ہم ریڈ زون سے باہر نکل پائیں گے۔خدا کرے کہ وزیراعلیٰ کا پولیو فری پنجاب کا اعلان واقعی سچ ہوجائے کیونکہ محکمہ صحت میں بھی دیگر محکموں کی طرح ایسے کاریگر پائے جاتے ہیں جو محض نمبر ٹانکنے کے لیے ایسے ایسے مفروضوں پر بیان جاری کروا دیتے ہیں جو بعد ازاں حکمرانوں کی سبکی اور جگ ہنسائی کا باعث بنتے ہیں۔ وزیراعلیٰ کو ایسے موقع پرست اور جگاڑیے سرکاری بابوئوں سے نہ صرف ہوشیار رہنا چاہیے بلکہ سب اچھا کی رپورٹوں پر بھی کڑی نظر رکھنا چاہیے۔اکثر بریفنگ دینے والے شیشے میں اتارنے کا فن خوب جانتے ہیں۔
گزشتہ برس کورونا کی پہلی لہر کے دوران ایک کاریگر ڈاکٹر نے وزیراعلیٰ کو بریفنگ دیتے ہوئے یہ خوشخبری بھی سنا دی تھی کہ وہ کورونا ویکسین کی تیاری کے لیے کام رہے ہیں۔ ہر دور میں من چاہی پوسٹنگ حاصل کرنے میں کامیاب ٹھہرنے والے ڈاکٹر صاحب نے وزیراعلیٰ کو ایک نئی تھیوری بھی پیش کی تھی کہ غیر ملکی کورونا ویکسین ہمارے ہاں شاید مؤثر نہ ہو اس لئے ہم اپنے ماحول اورملک کے عین مطابق ویکسین تیار کرنے جا رہے ہیں۔ ویکسین تو تیار نہ ہو سکی لیکن بریفنگ دینے والے چیمپئن نے اہلِ خانہ سمیت خود غیر ملکی ویکسین ضرور لگوا لی؛ تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر دور میں کلیدی عہدے انجوائے کرنے والے ایسے کئی انتظامی چیمپئنز وزیراعلیٰ کے گرد نہ صرف اکٹھے ہوچکے ہیں بلکہ سب اچھا کا راگ بھی مسلسل الاپے جارہے ہیں۔سابق ادوار میں بہترین اور مثالی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے سبھی سرکاری بابوآج مایوس کن کارکردگی کے ساتھ عوام میں بد دلی اور بے یقینی پھیلائے چلے جارہے ہیں۔سب اچھا کا منتر پڑھنے والے حکمرانوں کوکس طرح شیشے میں اتارتے اور گمراہ کن فرضی اعداد وشمار کے ساتھ کارکردگی کے پہاڑ کیسے بناتے ہیں۔ ایسے سرکاری بابوئوں پر تفصیلی اور تحقیقی جائزہ قارئین کے پیشِ نظر رکھنا تھا مگر اخبارات کے ڈھیر میں ایک منہ چڑاتی خبر نے قلم کا دھارا ہی موڑ ڈالا۔ بے رحم قاتل ڈور انیس سالہ اسد کی شہ رگ پر یوں چلی کہ سانس کی ڈور ہی ٹوٹ گئی۔یہ ڈور جواں سال اسد کے گلے پر نہیں چلی بلکہ اس کے ماں باپ کے گلے پر چلی جنہوں نے اسے پال پوس کر اس لیے بڑا کیا تھا کہ ان کے بڑھاپے کا سہارا بنے گا لیکن ابھی وہ ماں باپ کا سہارا بنا ہی تھا کہ نئی نویلی نوکری کے چوبیسویں روز‘ رات گئے نوکری سے واپس آرہا تھا کہ نجانے کہاں سے خونی ڈور آئی اور اس کی شہ رگ پر چھری کی طرح چل گئی۔ یوں لگتا ہے کہ چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے۔
اس دلخراش واقعے نے ماضی کے ایسے سبھی واقعات کے زخم ہرے کر ڈالے ہیں۔یہ کیسا کھیل ہے‘ یہ کیسا شوق ہے‘ اس سے بڑھ کر خون کی ہولی اور کیا ہوگی؟ پابندی کے باوجود پتنگ بازی جاری ہے اور اس سے جڑے سانحات بھی تواتر سے رونما ہوتے چلے آرہے ہیں۔ کرۂ ارض پر شاید ہی کوئی ایسا خطہ ہو جہاں آئین سے قوانین تک‘ سماجیات سے معاشیات تک اوراخلاقی قدروں تک سبھی کو بگاڑنے اور حشر نشر کرنے میں ہمارا کوئی ثانی ہو۔ایسے سانحات پر نوٹس بھی لیا جاتا ہے ایک آدھ تھانیدار بھی معطل کردیا جاتا ہے اور پھر ان ناحق مرنے والوں کی قبروں کے ساتھ ہی حکومتی اقدامات کی بھی ایک قبر بن جاتی ہے۔ سبھی دعوے‘ سبھی نوٹسز اس قبر میں ہمیشہ کے لیے دفن ہوجاتے ہیں‘ یعنی ایسے سانحات کی جتنی خبریں ہیں اتنی ہی قبریں۔ ان ناحق مارے جانے والوں کا خون رائیگاں سمجھنے والوں کو خبر ہوکہ جن مظلوموں کو انصاف نہیں ملتا‘ جن کے قاتل کیفرِ کردار تک نہیں پہنچتے‘ ان مظلوموں کی فریادیں بارگاہِ الٰہی میں پیش ہو کر دہائی دیتی ہیں۔ حکومتی ذمہ داران پولیس کوان واقعات کا ذمہ دار قرار دے کر عوام کو اور خود کو بری الذمہ تصور کرتے ہیں جبکہ ان واقعات کی ذمہ داری صرف پولیس پر نہیں بلکہ پورے معاشرے پر عائد ہوتی ہے۔
پولیس گلی گلی پھر کر پتنگ بازی کو کیسے کنٹرول کر سکتی ہے؟ یہ صرف انتظامی مسئلہ نہیں بلکہ سماجی اور اخلاقی مسئلہ بھی ہے۔ یہ پورے معاشرے کی ذمہ داری ہے کہ سب اپنے اردگرد نظر رکھیں‘ اس جاں لیوا شوق کے سامان کی تیاری سے لے کر پتنگ بازی تک سبھی کچھ تو ہمارے اردگرد ہو رہا ہوتا ہے۔ نہ پتنگ نے سلیمانی ٹوپی پہنی ہوتی ہے اور نہ پتنگ اُڑانے والے نے۔ یہ کس طرح ممکن ہے کہ کسی چھت سے پتنگ اُڑائی جائے اور اس کے اردگرد رہنے والوں کو پتا نہ چلے کہ فلاں چھت سے پتنگ اُڑائی جا رہی ہے۔ ہمسایے میں اگر کسی کے گھر آگ لگی ہو تو چند بوکے یہ سوچ کر ضرور ڈال دینے چاہئیں کہ یہ آگ کہیں میرے گھر تک نہ آن پہنچے۔ اسی طرح پتنگ بازی کی اطلاع ایمرجنسی 15 پر ضرور کرنی چاہیے کہ یہ خونیں ڈور کہیں میرے آنگن میں نہ پھر جائے۔ ویسے بھی پتنگ اُڑانے والے سے کیسی ہمدردی‘ کیسی ہمسائیگی اور کہاں کی وضع داری۔ یہ سبھی کچھ نبھانے والے پتنگ بازوں کے ساتھ اس خونیں کھیل میں برابر کے شریک ہوتے ہیں۔
پتنگ بازی کو نظرانداز کرنا مجرمانہ غفلت سے ہرگز کم نہیں۔ اس حوالے سے معاشرے میں یہ احساس اُجاگر کرنے کی ضرورت ہے کہ پتنگ بازی کرنے والا ہمارا کھلا دشمن ہے۔ مساجد‘ تعلیمی اداروں اور سوشل میڈیا پر آگاہی مہم چلانا بھی ضروری ہے کہ جہاں پتنگ بازی ہوتی نظر آئے‘ فوری طور پر پولیس کو اطلاع ضرور کریں تاکہ یہ جاں لیوا شوق مزید قیمتی اور معصوم جانیں لینے کا باعث نہ بنے۔ ایسے واقعات پر پولیس کو موردِ الزام ٹھہرا کر ہم کسی طرح بری الذمہ نہیں ہو سکتے۔ یہ بات اچھی طرح ذہن نشیں کر لینی چاہیے کہ یہ مسئلہ صرف انتظامی نہیں بلکہ سماجی اور اخلاقی بھی ہے۔ اپنی اخلاقی اور سماجی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے انتظامیہ کا مددگار بننا ہوگا‘ تب کہیں جاکر یہ جاں لیوا کھیل روکا جا سکے گا۔اگر ایسا نہ کیا گیا تو...ایسے دلخراش واقعات ہوتے رہیں گے۔ حکمران نوٹس لیتے رہیں گے۔پولیس افسران معطل ہوتے رہیں گے اور یہ واقعات دہرائے جاتے رہیں گے۔لوگ مرتے رہیں گے۔قبریں بنتی رہیں گی۔ مرنے والوں کی اور حکومتی اقدامات کی۔