جناب وزیر اعظم ایک بار پھر واضح کر چکے ہیں کہ چوروں کے سوا سب سے مذاکرات کر سکتے ہیں لیکن ممکن ہے یہ کسی مجبوری یا مصلحت کا تقاضا ہو کہ موجودہ حکومت کی کشتی پر کچھ ایسے لوگ بھی سوار ہیں جنہیں دھرنوں کے دوران عمران خان صاحب چور‘ ڈاکو اور نہ جانے کیسے کیسے القاب سے نوازتے رہے تھے۔ یہ درست ہے کہ راج نیتی کی مصلحتیں ہر دور میں برسرِ اقتدار جماعت کو اکثر ناقابلِ یقین سمجھوتوں پر مجبور کرتی چلی آئی ہیں۔ آصف علی زرداری جنہیں بے نظیر بھٹو کے قتل کی سازش میں شریک قرار دیتے رہے پھر انہی کو گلے لگانا پڑا اور انہوں نے اپنی حکومت میں ان کے لیے ڈپٹی پرائم منسٹر کا عہدہ بھی تراشا۔ یہ کیسا خطہ ہے‘ کیسا کیسا تماشا یہاں سیاسی بازی گر لگائے رکھتے ہیں۔ اکثر کرتب تو ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں بیان کرنے کے لیے ڈھونڈے سے بھی الفاظ نہیں ملتے۔ وہ کچھ کا کچھ کر جاتے ہیں اور ان کی پکڑ بھی نہیں ہو پاتی۔
پون دہائی سے ایک ہی دُہائی سنتے سنتے عوام کے کان پک رہے ہیں۔ اپوزیشن کہتی ہے کہ حکمران چور ہیں اور حکمران کہتے ہیں کہ ہمیں تو خزانہ ہی خالی ملا ہے۔ تعجب ہے قومی خزانہ بھی صاف ہے اور صفایا پھیرنے والوں کے ہاتھ اور دامن بھی صاف۔ ع
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو؟
ہاتھ پھیرنے والے اس صفائی سے ہاتھ پھیرتے رہے ہیں کہ احتساب کے ادارے کچھ پکڑنے کے بجائے آج بھی ہاتھ ملتے نظر آرہے ہیں۔ اپوزیشن کی جماعتیں ہوں یا تحریک انصاف‘ سبھی اقتدار کی ہنڈیا سے اپنے اپنے حصے کی بوٹیاں اڑائے چلے جا رہے ہیں۔ یہ اور بات کہ اقتدار کی ہنڈیا میں بوٹیاں ختم نہیں ہو رہیں اور ادھر عوام ہڈیوں کا ڈھانچہ بنتے چلے جا رہے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ اقتدار کی ہنڈیا سے اڑائی جانے والی بوٹیاں کہیں عوام کی بوٹیاں تو نہیں؟
دو بڑی اپوزیشن جماعتیں کثرت سے حکمرانی کے سبھی شوق پورے کر چکی ہیں۔ مسلم لیگ (ن) تین مرتبہ وفاق میں اور پانچ بار تخت پنجاب پر حکمرانی کے جوہر دکھا چکی ہے۔ اسی طرح پیپلز پارٹی ذوالفقار علی بھٹو صاحب کے دورِ حکومت کے بعد تین مرتبہ وفاق اور مسلسل تیسرے پانچ سالہ دور میں سندھ کے عوام پر شوقِ حکمرانی پورا کر رہی ہے۔ تعجب ہے کہ سبھی بڑی سیاسی جماعتیں اقتدار کے مزے لینے اور اپوزیشن کی صعوبتیں اور دھکے برابر کھانے کے بعد ایک دوسرے کو چور‘ ڈاکو اور لٹیرا بھی کہے چلے جا رہی ہیں۔ حصولِ اقتدار کے بعد استحکام اقتدار کے لیے ہر حکمران جماعت کو انہی ڈاکوئوں‘ لٹیروں اور چوروں کی ضرورت بھی خوب پڑتی ہے۔ انہیں شریک اقتدار کرتے وقت انہیں یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ آج جن سے سیاسی تعاون کی بھیک مانگی جا رہی ہے‘ ماضی میں ان کے بارے میں کیسے کیسے انکشافات کرتے رہے ہیں۔ اس معاملے میں ایم کیو ایم ہر دور میں ناگزیر اہمیت کی حامل رہی ہے۔
ماضی کے سبھی ادوار میں یہ جماعت حکمرانوں کی مجبوری ثابت ہوئی۔ عمران خان صاحب جس جماعت کو کراچی کے عوام اور امن کے لیے خطرہ قرار دیتے تھے‘ جس کی مبینہ مجرمانہ سرگرمیوں کے وہ پلندے اٹھائے پھرتے تھے‘ کنٹینر پر کھڑے ہو کر سانحہ 12 مئی میں ناحق مارے جانے والوں اور مظلوم خاندانوں کو انصاف دلوانے کے دعوے کیا کرتے تھے‘ سانحہ بلدیہ ٹائون کے ذمہ دار اصل چہروں کو بے نقاب کرنے کے وعدے کیا کرتے تھے‘ وہ سبھی شعلہ بیانیاں نہ صرف انتخابی نعرے ثابت ہوئے بلکہ سارے دعوے اور سارے وعدے راج نیتی کی مصلحتوں اور مجبوریوں کی سولی پر لٹکے دکھائی دے رہے ہیں۔
مختلف ذرائع سے سمیٹے ہوئے مال سے اپنے قائد کو پالنے والی ایک جماعت کا پاکستانی ورژن وفاق میں حکومتی حلیف اور شریک اقتدار ہے۔ موجودہ حکومت بھی ماضی کے حکمرانوں کی روش پر رواں دواں اور اس کو شریک اقتدار کر کے نازاں اور مطمئن ہے۔ اسی طرح ا ٹھارہویں ترمیم کی آڑ میں پیپلز پارٹی نے سندھ کے عوام سے جو کھلواڑ کیا اس کے اَن گنت نمونے کراچی سمیت پورے سندھ میں جا بجا دکھائی دیتے ہیں۔ سندھ سرکار کی بد اعمالیوں اور لوٹ مار کی چونکا دینے والی داستانیں منظر عام پر آ چکی ہیں۔ لوٹ مار اور نفسا نفسی کے اس گھمسان میں نہ کسی حکمران نے کوئی لحاظ کیا اور نہ کسی منصب دار نے۔ ایسا اندھیر مچائے رکھا کہ بند آنکھ سے بھی سب صاف صاف نظر آ رہا ہے۔
بات ہو رہی تھی کہ چوروں سے مذاکرات نہیں کریں گے۔ خدا جانے کن چوروں کی بات کی جاتی ہے۔ یہاں تو ہر جماعت کے اپنے اپنے چور ہیں اور اپنے اپنے سچ کے ساتھ سبھی اپنا اپنا الو سیدھا کیے چلے جا رہی ہیں۔ وزیر اعظم صاحب شاید اپوزیشن جماعتوں میں موجود چوروں کی بات کر رہے ہوں گے کیونکہ ماضی کے اکثر مبینہ چوروں کو تو وہ شریکِ اقتدار کر چکے ہیں اس لیے انہیں عوام کی سہولت کے لیے یہ وضاحت ضرور کر دینی چاہئے کہ ان کا اشارہ صرف اپوزیشن جماعتوں کی طرف ہے۔ برسر اقتدار اور حلیف جماعتوں میں موجود مبینہ چور سمجھتے ہیں کہ وہ نہ تو اس بیان کی زد میں آتے ہیں اور نہ ہی ان پر کوئی قانون لاگو ہوتا ہے۔ چور بھی کہے چور چور کے مصداق ایسا سماں بنا ہوا ہے کہ یوں لگتا ہے کہ یہ ملک نہیں بلکہ چورستان ہے۔
چیف جسٹس آف پاکستان جناب جسٹس گلزار احمد نے عدالتی فیصلوں میں تاخیر اور کیسوں کے انبار کا ذمہ دار بیوروکریسی کو قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بیوروکریسی اپنا کام دیانت داری سے بروقت کرے تو عدالتی بوجھ کم ہو سکتا ہے۔ یہ بات تو حقیقت ہے‘ اگر سبھی ادارے اپنی اپنی ذمہ داریاں نبھاتے ہوں تو اس ملک کی تقدیر ہی بدل جائے۔ ایک سینئر پولیس آفیسر سے یہ موضوع اکثر زیر بحث رہتا ہے کہ اگر داد رسی اور شنوائی کا نظام متحرک ہو تو یہاں رشتے اور عزتیں اس طرح پامال نہ ہو رہی ہوں۔ جہاں اخلاقی قدریں نا پید ہو جائیں وہاں قانونی چارہ جوئی کی دکانیں خوب چلتی ہیں۔ اگر تھانوں میں داد رسی اور انصاف ملتا ہو تو عدالتوں کے احاطوں میں تنگ آمد بجنگ آمد کے تحت ہونے والی قتل و غارت اور انتہائی نوعیت کی کارروائیاں ختم ہو سکتی ہیں۔ پولیس کی تفتیش سے غیر مطمئن انصاف کے متلاشی جب یہ محسوس کرتے ہیں کہ انہیں انصاف نہیں ملے گا تو وہ قانون کو ہاتھ میں لے لیتے ہیں۔ ایسے حالات کو کنٹرول کرنے کے لیے اگر حکومت سنجیدہ اور مخلص ہے تو ہمیں فوری طور پر فوجداری نظامِ انصاف سے جڑے شعبوں اور ثالثی کے کاموں میں جامع اصلاحات کی ضرورت ہے۔
کریمنل جسٹس سسٹم ریفارم کمیٹی وقت کی اہم ضرورت ہے جس میں وزارتِ قانون اور داخلہ سمیت تمام صوبائی وزرائے اعلیٰ، چیف سیکرٹریز، آئی جی پیز، پراسیکیوٹر جنرلز، اٹارنی جنرل، قانونی ماہرین اور سول سوسائٹی کے ممتاز نمائندے شامل ہوں۔ اراکین، کریمنل جوڈیشل سسٹم پر تمام سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے سٹریٹیجک پلان وضع کریں۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد خود مختاری کے زعم میں مبتلا صوبے کریمنل جوڈیشل سسٹم پر خود کو جوابدہ تصور نہیں کرتے جبکہ آئین کے آرٹیکل 142‘ 143 کے تحت صوبے اس حساس معاملے پر وفاق کی جواب طلبی سے آزاد نہیں ہیں۔ اس ریفام کمیٹی کا سربراہ وزیر اعظم صاحب کو خود ہونا چاہیے اور اس کا اجلاس بھی باقاعدگی اور سنجیدگی سے ہو‘ تب کہیں جا کر ریفارمز کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے اور ملک میں حقیقی تبدیلی کے کچھ آثار نمایاں ہونا شروع ہو سکیں گے۔