کوئی منی ٹریل دینے سے قاصر ہے تو کوئی رسیدیں دینے سے۔ کوئی عوام کے درد میں مرا جا رہا ہے تو کوئی عوام کے احساس کی شدت سے دوچار ہے۔ دونوں طرف کے دعوے اور بیانیے سن کر فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ کون کتنا بڑا سماج سیوک ہے۔ ماضی کے کئی ادوار میں شوقِ حکمرانی پورے کرنے والے ہوں یا دورِ حاضر میں‘ سبھی کے ایجنڈے اور منشور عوام کی خدمت سے شروع ہو کر ملک و قوم کی ترقی پر ہی ختم ہوتے ہیں۔ بد قسمتی سے عوام کی خدمت کے بجائے مرمت اور ترقی کسی قرقی سے کم دکھائی نہیں دیتی۔ بد قسمتی کا یہ دور کئی دہائیوں سے ذلتِ جاریہ کی طرح جاری ہے۔ برسر اقتدار آتے ہی 100 دن کا ہدف دینے والی حکومت کے عملے سمیت سبھی پائلٹ آزمائشی پرواز میں ہی ایکسپوز ہو گئے۔ 100 روزہ کارکردگی کے دوران ہی یہ عقدہ کھل گیا تھا کہ اقتدار کا جہاز حالات کی موجوں کے حوالے کر دیا گیا ہے۔
وزیر اعظم کبھی فرماتے ہیں کہ اگلے تین ماہ میں پاکستان ایشیا کا تیز ترین ترقی کرنے والا ملک ہو گا تو کبھی پاکستان کو ایشین ٹائیگر سے تشبیہ دیتے دکھائی دیتے ہیں۔ خدا جانے ایسا کون سا چمتکار ہے جو تین سال گزارنے کے بعد اب ہونے جا رہا ہے۔ ان سبھی خوش بیانیوں کے ساتھ یہ بھی فرماتے ہیں کہ حکومت کے لیے تین ماہ انتہائی اہم ہیں اور قومی اداروں سے تعلقات بھی مثالی ہیں۔ اگر تعلقات مثالی ہیں تو اس کی وضاحت یا توثیق کی ضرورت کیوں پیش آ رہی ہے؟ اگر واقعی مثالی ہیں‘ تو وزیر اعظم سمیت سبھی سیاسی پنڈت ہوں یا جغادری اگلے تین ماہ کو سبھی اہم اور مشکل کیوں قرار دے رہے ہیں؟ جناب وزیر اعظم یہ بھی کہتے ہیں کہ احتساب کا مکمل نہ ہونا ہماری سب سے بڑی ناکامی ہو گی۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ انہیں بخوبی اندازہ ہے کہ کڑے احتساب کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکا۔ سوال یہ ہے کہ وہ احتساب میں اگر واقعی سنجیدہ ہیں تو احتساب کے عمل کو سبوتاژ کرنے والے کون سی سلیمانی ٹوپی پہن کر نکلے چلے جارہے ہیں۔ نیب میں مالم جبہ کیس کی انکوائری کس کے حکم پر بند کی گئی جبکہ پشاور ہائیکورٹ کے ریمارکس کے بعد وزیر اعظم کو ضرور معلوم کرنا چاہیے کہ وہ کون سے عناصر ہیں جو احتساب کے عمل میں رکاوٹ بن چکے ہیں۔ جناب وزیر اعظم اس حقیقت سے بھی با خبر ہوں گے کہ ملک بھر میں سب سے زیادہ اہم ترین اور ہائی پروفائل کیسز کی تحقیقات ہوں یا بااثر شخصیات کی گرفتاریاں‘ سبھی کا کریڈٹ اسی افسر کو جاتا ہے؛ تاہم اپوزیشن کا یہ واویلا بجا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت نے احتساب کا سٹیج صرف سیاسی مخالفین کے لیے سجایا ہے۔ یہ تاثر بھی دن بدن تقویت پکڑتا چلا جا رہا ہے کہ احتساب کی چکی صرف اپوزیشن کے دانے پیسنے کے لیے بار بار چلائی جا رہی ہے جبکہ حکومت میں موجود بیشتر ایسے لوگ موجیں مار رہے ہیں جو احتساب کے ادارے کو مطلوب ہونے کے باوجود اداروں کی پکڑ سے دور ہیں۔ کوئی حکمران پارٹی کا عہدے دار ہے تو کوئی کابینہ کو محفوظ پناہ گاہ سمجھتا ہے۔ کوئی ایوان وزیر اعظم کو ڈھال بنائے بیٹھا ہے تو کوئی شریکِ اقتدار ہے۔ حکومت کے ایک احتسابی چیمپئن دورہ لاہور کے دوران کس کے مہمان ہوتے ہیں اور میزبان کی طرف سے کیسی کیسی سہولتوں اور نعمتوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں‘ یہ مہمان داریاں اور میزبانیاں بھی ایک معمہ اور بدستور سوالیہ نشان ہے۔ سربراہ حکومت احتساب میں ناکامی کے جس خدشے سے دوچار ہیں اس کے لیے انہیں اپنے ارد گرد پائے جانے والے عناصر پر توجہ دینا ہو گی جو بریفنگ اور ڈی بریفنگ کے زور پر نجانے کیسے کیسے فیصلے کروائے چلے جارہے ہیں۔ ایسے فیصلے کروانے والے سرکاری بابو ہوں یا وزیر اور مشیر‘ یہ سبھی ہر دور میں حکمرانوں کے پائوں کی بیڑیاں اور گلے کے طوق بنتے چلے آئے ہیں۔ ان کا کمال یہ ہوتا ہے کہ وہ حکمرانوں کو سمجھ ہی نہیں آنے دیتے۔ نا موافق فیصلے ہوں یا غیرمقبول اقدامات‘ نتائج اور خمیازہ تو بہرحال حکمرانوں کو ہی بھگتنا پڑتا ہے۔ ایسے فیصلوں کے ماسٹرمائنڈ اکثر بریف کیس اٹھا کر پہلی فلائٹ پکڑتے ہیں تو کچھ وفاداری اور قائد کی تبدیلی کے بعد اگلی منزل اور اگلی گھات کی طرف رواں دواں نظر آتے ہیں۔
ماضی کے سبھی ادوار سے لے کر دور حاضر تک صورت حال جوں کی توں ہے۔ قوانین اور ضابطے توموجود ہیں مگر شخصیات اتنی با اثر اور طاقت ور ہیں کہ کوئی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ سربراہ حکومت ان سبھی حقیقتوں سے آشنا ہونے کے باوجود احتساب میں ناکامی کے خدشات سے خدا جانے کیوں دوچار ہیں؟ معاملات تو اب بے نقاب اور بے لباس ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ اب کیسے خدشات اور کیسے تحفظات۔ ہونی روکیاں رکدی نئیں۔ ویسے بھی اسحاق ڈار کی رکنیت بحال ہو چکی ہے اور تین سال پہلے بے دم اور نڈھال مسلم لیگ (ن) میں جان پڑ چکی ہے کہ اگلے تین ماہ کی اہمیت زبان زد عام ہے۔ خاطر جمع رکھیں احتساب میں ناکامی کے سبھی خدشات درست اور منطقی ہیں۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔
دوسری طرف عوام کا درد لیے حزب اختلاف کا حال بھی زیادہ مختلف نہیں۔ کوئی احتساب کے خوف سے بیماری کی آڑ میں بیرون ملک بیٹھ کر قومی سلامتی کے اداروں کو للکارتا ہے تو کوئی خود کو خادم اعلیٰ ثابت کرنے کے لیے آج بھی بضد ہے۔ دونوں اپنا حساب دے پائے ہیں نہ ہی اولادوں کے ہوش رُبا مال اسباب‘ جائیدادیں اور اکائونٹس کا کوئی حساب ہے۔ کس قدر ڈھٹائی سے کہتے ہیں کہ میں حساب کیوں دوں‘ وہ جانیں اور ادارے جانیں۔ نیب کی اسیر ایک خاتون سیاسی رہنما جب پیشی پر آتی تھیں تو ان کے پروٹوکول سے محسوس ہوتا تھا کہ جتنا بڑا ملزم اتنا بڑا پروٹوکول۔ پیشی پر آنے سے پہلے اگر ان سیاست دانوں کے گیٹ اَپ پر پابندی لگا دی جائے تو ان کی شکلیں دیکھنے سے تعلق رکھیں گی۔ اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہو گا کہ پیشی کے بعد عدالتوں کے باہر یہ مجمع نہیں لگائیں گے اور نہ ہی لمبے چوڑے بھاشن دے سکیں گے‘ اور یہ ترلا بھی کریں گے کہ انہیں خاموشی سے لایا جائے اور خاموشی سے واپس لے جایا جائے۔ خیر اب تو وزیر اعظم کے خدشات کے احترام میں یہ پیشیاں‘ ریمانڈ اور گرفتاریوں کا موسم بھی ختم ہوتا نظر آ رہا ہے۔
چلتے چلتے وزیر خزانہ شوکت ترین کا انتباہ بھی قلم آرائی پر مسلسل اکسا رہا ہے۔ موصوف فرماتے ہیں کہ عوام ٹیکس دیں ورنہ لینے آئیں گے۔ اب نوٹس کے بجائے آمدنی اور واجب الادا ٹیکس ہم بتائیں گے جو عوام کو دینا ہو۔ وزیر خزانہ پہلے سے بدحال عوام کو للکارے ضرور ماریں لیکن یہ بھی بتائیں کہ خواص سے ٹیکس کون لے گا؟ ارکان اسمبلی کی ٹیکس ڈائریکٹری اور 'سماج سیوک‘ نیتائوں کے ادا کردہ ٹیکس دیکھ کر یہ دھمکیاں اور للکارے یقینا عوام کو ہی بنتے ہیں۔ عثمان بزدار سے لے کر خسرو بختیار اور محمود خان‘ شاہ محمود قریشی کے علاوہ آصف علی زرداری اور شہباز شریف سمیت نجانے کتنے ہی 'سماج سیوک‘ نیتائوں کا ٹیکس دیکھ کر بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ نیتا کچھ نہیں دیتا۔ جو لینا ہے عوام سے ہی لو۔