"AAC" (space) message & send to 7575

خدا کرے یہ پشیمانی ہی ہو

وزیراعظم نے مزارِ قائد پر اپنے تاثرات قلم بند کرتے ہوئے قائد سے نہ صرف معذرت کی بلکہ یہ اعتراف بھی کیا کہ ہم اس راستے پر نہ چل سکے جس کی آپ کو ہم سے امید تھی۔دلوں کا حال اور نیتوں کا بھید تو بس وہی ذات جانتی ہے جس کے قبضہ قدرت میں ہماری جان ہے اور جو ہماری شہ رگ سے زیادہ قریب ہے۔ قائدکے مزار پر شہباز شریف کی تحریری معذرت پر میرا فوری اور پہلا ردعمل کچھ یوں تھاکہ
ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا
خدا کرے کہ یہ پشیمانی ہی ہو۔ اب تو اعتبار کرتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے۔ اس اعتراف کوتو یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ دیر آید درست آید۔ چونکہ دیر تو اتنی ہو چکی ہے کہ دیر آید یا نہ آید کا فرق ہی مٹ چکا ہے۔ ہمارے ہاں سیاسی شعبدہ بازی اور پوائنٹ سکورنگ کے لیے ایسی باتوں اور سہاروں کا استعمال ہمیشہ سے معمول رہا ہے۔ تاہم بدگمانی کے بجائے کچھ دیر کے لیے خوش گمانی کی چادر اوڑھ لینے میں کوئی حرج نہیں۔ مزارِ قائدپر احساس ندامت اور معذرت میں اگر کہیں تھوڑا بہت بھی اخلاص اور ضمیر کا عمل دخل ہے تو بخدا یہ مقام اس سفر کا نقطہ آغاز بن سکتا ہے جس کا آغاز نہ ہوسکا۔ اس خواب کی تعبیر بن سکتا ہے جو مصورِ پاکستان نے دیکھا تھا۔ بانیٔ پاکستان کی تعلیمات اور فرمودات روڈ میپ بن جائیںتو سیاہ بختی کو رونے والوں کو بھی کہیں قرار آسکتا ہے۔ قائد کی حکم عدولیوں اور نافرمانیوں کی تاریخ اتنی طویل ہے کہ ماضی کے اوراق پلٹیں تو یہ دردناک حقیقت ہی دن کا چین اور رات کا سکون لوٹنے کیلئے کافی ہے کہ مملکت خداداد پرحکمرانی کرنے والے پون صدی سے ملک و قوم کو کس طرح تختۂ مشق بنائے ہوئے ہیں۔ یہ دیکھ کر قائد اور اقبال کی روحیں بے چین ہوتی ہوں گی۔
ایک الگ وطن کے حصول کیلئے برصغیر کے چوٹی کے مسلم رہنماؤں نے اپنی زندگیاں صرف کر دیں‘ مسلمانوں نے بے پناہ جانی اور مالی قربانیاں دیں۔ انسانی تاریخ کی سب سے بڑی تقسیم کے نتیجے میں حاصل ہونے والا یہ ملک لیکن ان حکمرانوں کو بہت سستا مل گیااسی لیے ہمیں اس کی قدر اور اہمیت کا احساس نہیں۔ پاکستان کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کیلئے دی جانے والی قربانیوں کی داستان دلخراش ہے۔ اس دردناک کہانی کے کردار ہزاروں خاندان آج بھی یہ زخم بھلا نہیں پائے‘ تقسیم کے وقت کے مناظر ان کے ذہنوں سے محو نہیں ہو پائے مگر اُس نسل کو 75 برس گزارنے کے بعد بھی یہ احساس بے چین کئے رکھتا ہے کہ تمام عمر چلے گھر نہیں آیا اور گھر کیوں نہیں آیا‘ اس کا جواب گھر والوں کے پاس بھی نہیں۔ وطنِ عزیز کو آج تک ایسا کوئی حکمران نصیب نہیں ہوا جو گورننس سے آشنا اور مردم شناس ہو۔ خواہشات اور مفادات کے گرد گھومتی پالیسیوں کی تشکیل سے تکمیل تک انہیں اپنے رفقا اور مصاحبین کے سوا کوئی دکھائی نہیں دیتا۔ ناموافق اور نام نہاد رہبروں کے پیچھے نامعلوم منزل کی طرف چلتے چلتے یہ قوم ہلکان اور اس کی حالت ناقابلِ بیان ہے۔ قیام پاکستان سے لے کر لمحہ موجود تک حکمرانوں نے کیا کچھ دائو پر نہیں لگایا۔ملکی وقار سے لے کر معاشی استحکام تک‘سماجی انصاف سے لے کر قانون تک‘ میرٹ سے لے کر گورننس تک سبھی کچھ تہ وبالا کئے رکھا‘کس شان سے حلف اور عوام سے کیے وعدوں سے انحراف بھی کیے چلے جارہے ہیں۔
سرکاری وسائل پر کنبہ پروری سے لے کر بندہ پروری تک کیسا کیسا جان لیوا منظر ہماری تاریخ کا سیاہ باب ہے۔ ذاتی مفادات سے لے کر مخصوص مقاصد تک‘ مصلحتوں اور مجبوریوں سے لے کر بد نیتی اور بد انتظامی تک سبھی کچھ مملکت خدا داد میں طرزِ حکمرانی رہا ہے۔ روزِ اول سے مسلط حکمران یہی عذر تراشتے نظر آئے کہ ملک انتہائی نازک موڑ سے گزر رہا ہے‘ قوم کو صبرو تحمل کا مظاہرہ کرنا پڑے گا۔ قیام پاکستان کے وقت جو حالات تھے‘ اس سے بڑھ کر بھلا نازک موڑ اور کیا ہوگا؟ کیسے کیسے چیلنجز اور آزمائشیں مملکتِ خداداد کو درپیش تھیں۔مہاجرین کی آباد کاری‘روزگار کے انتظام و انصرام کے مسائل‘انفراسٹرکچر سے لے کر استعدادِ کار تک مالی مشکلات سے لے کر وسائل کی عدم فراہمی تک کتنے ہی کٹھن مرحلے تقسیمِ ہند کے وقت درپیش رہے مگربانیٔ پاکستان نے ہرگز یہ عذر پیش نہیں کیا کہ انہیں خونریزی ‘قتل و غارت اور دیگر مصائب کا اندازہ نہ تھا۔ انہوں نے مشکل حالات سے فرار کیلئے نہ جواز گھڑے اور نہ توجیہات پیش کیں۔ بس اپنے اقوال اور فرمودات کا پاس رکھا اور کام کیا۔قائد اعظم کے بعد ہمارا نازک موڑ ہی ختم ہونے کو نہیں آرہا‘یہ کیسی مشکل ہے جو ہر دور میں عوام کو در پیش رہتی ہے۔ ہم لوگ اپنی بدعہدیوں اور بد اعمالیوں کے ساتھ تجدیدِ عہد کا دعویٰ کرتے ہیں تو یہ منظر نامہ دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم تجدید عہد نہیں تذلیل عہد کر رہے ہیں۔ 'سماج سیوک‘ حکمرانوں سے افسر شاہی تک سبھی کے اپنے اپنے ایجنڈے ہیں۔ اس ملک میں بسنے والے عوام سے ان کا کوئی تعلق ہے نہ سروکار۔ کوئی تکبر میں مبتلا دکھائی دیتا ہے تو کوئی قابلیت کے گھمنڈ میں اترائے پھرتا ہے۔ سب الفاظ کا گورکھ دھندہ دکھائی دیتا ہے‘ کبھی بنامِ دین تو کبھی بنامِ وطن‘ حصولِ اقتدار سے لے کر طولِ اقتدار تک عوام کو کیسے کیسے جھانسے اور دھوکے دیے جاتے ہیں۔
ماضی اور حال مستقبل کا آئینہ ہوتے ہیں۔ پہلا قدم ہی دوسرے قدم کی منزل اور سمت کی نشاندہی کرتا ہے‘ مملکتِ خداداد کا مستقبل کیا ہو سکتا ہے‘ اس کا بخوبی اندازہ لگانے کیلئے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں۔ ماضی کی خرابیاں کئی گنا اضافوں کے ساتھ ہر دور میں جاری رہی ہیں۔ نئے اور پرانے پاکستان کے درمیان بھٹکتے عوام کو کہیں بھی سکھ کا کوئی لمحہ میسر نہ آیا۔ کیونکہ یہ تبدیلیاں عوام کیلئے نہیں بلکہ انہی سیاستدانوں کیلئے ہیں۔ عوام کو اصل خوشخبری اسی دن میسر آ سکے گی جب اُن کا کوئی اپنا پاکستان میں حکمران ہوگا‘ وہی اصل دن ہوگا ‘ لیکن وہ دن نجانے کب آئے گا۔ اس دن کی آس میں کتنی ہی نسلیں قبروں میں جا سوئی ہیں اور باقی ہلکان اور شہر خموشاں کی مسافر نظر آتی ہیں‘ لیکن عوام کیلئے اچھے دن دور دور تک نظر نہیں آتے۔ اکثر محسوس ہوتا ہے کہ اشرافیہ اور حکمرانوں کے درمیان مقابلہ جاری ہے کہ کون عوام پر عرصۂ حیات کس قدر تنگ کرتا ہے۔ان سبھی کو عوام سے خدا واسطے کا بیر ہے۔ یہ الگ بات کہ اکثر عوام بھی اشرافیہ اور حکمرانوں کے مدمقابل کچھ اس طرح دکھائی دیتے ہیں کہ ہم بھی کسی سے کم نہیں۔
خدا کرے کہ شہباز شریف کی قائد کے دربار پر حاضری کے دوران معذرت اور ندامت کوئی سیاسی بیانیہ نہ ہو۔ان کی پشیمانی نمائشی نہ ہو۔ اگر ایسا ہوا تو یہ معذرتیں اور پشیمانیاں ساری عمر پیچھا نہیں چھوڑیں گی۔قائد کے دربار پرحکمرانوں کا آنا جانا‘فاتحہ خوانی اوراپنے تاثرات قلم بند کرنا‘ان سبھی سیاستدانوں کے لیے معمول اور پروٹوکول کی کارروائی تو ہو سکتی ہے لیکن ان کے بیانیے‘ عہد و پیمان ‘معذرتیں اورندامتیں ریکارڈ کا حصہ بن جاتی ہیں۔ان سے انحراف اور چشم پوشی قائد کی روح سے مذاق کے مترادف ہے۔
حکمرانی انعام سے کہیں بڑھ کر امتحان بھی ہے۔قدرت کی عطا کو اپنی ادا تصور کرنے والے ہمیشہ مغالطے میں ہی رہے ہیں۔قدرت کی اس عطا پر باربار خطا کے باوجود عطا کا جاری رہنا قدرت کی مزید عطا اورمہلت ہے۔سمجھنے والے سمجھ گئے ۔ جو نہ سمجھے وہ اناڑی ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں