کفر ٹوٹنے کے ساتھ ساتھ وہ قفل بھی کھلتا دکھائی دیتا ہے جو ملکی معیشت اور عوام کی قسمت پر لگا ہوا تھا۔خبر گرم ہے کہ اب متمول اور صاحبِ حیثیت طبقے سے بھی ٹیکس وصول کیا جائے گا۔مرتے کیا نہ کرتے۔جو ہاتھ عوام کی جیبوں میں گھسا رکھا تھا وہ ہاتھ اب اپنی جیبوں میں بھی ڈال رہے ہیں کہ مال ہلکا کرکے اس میگا بحران سے نکلنے کی شاید کوئی صورت نکل آئے۔یہ فیصلہ عوام کی محبت اور دردمندی پر مبنی ہرگز تصور نہ کیا جائے کیونکہ عوام کو مسلسل نچوڑنے کے بعد اب مزید گنجائش نہیں رہی۔عوام کی قربانی اس طرح رنگ لائی کہ حکمرانوں کو باور ہوچلا ہے کہ عوام کے پلے اب دینے کو کچھ نہیں رہا۔ان کے دیے ہوئے ٹیکسوں پر اب مزید موج مستی بھی ممکن نہیں رہی۔مملکت خداداد کو دونوں ہاتھوں سے کھانے اورلوٹنے والے اگر اسے بخش دیں تو شاید وینٹی لیٹر پر پڑی معیشت کی سانسوں کو کچھ قرار آجائے۔کھانے والوں نے اس طرح کھایا ہے کہ اس کا اقتصادی پیندا ہی چاٹ گئے ہیں اوردعوے کرتے ہیں معاشی استحکام اور اقتصادی اصلاحات کے۔ ملکی امور چلانے کیلئے ارب ہاروپے کا قرض لینا مجبوری بن چکی ہیاور مملکت خداداد پر شوقِ حکمرانی پورا کرنے سے لے کر مال بنانے اور موجیں مارنے والے سماج سیوک نیتا اور اشرافیہ اپنے اثاثوں اور آمدنیوں پر ٹیکس دینے سے ہمیشہ گریزاں اور فراری ہی رہی ہے۔ بھلے قرض اربوں کے بجائے کھربوں تک جاپہنچے۔ان کی بلا سے یہ ٹیکس بھی نذرانے اور تبرک کی طرح قوم پر احسان کرکے دیتے ہیں۔
آج متمول طبقے سے بوجھ بانٹنے اور قومی فرض نبھانے کی اپیل کرنے والے وزیراعظم کی توجہ چند ماہ قبل جاری ہونے والی ارکان اسمبلی کی ٹیکس ڈائریکٹری کی طرف دلواتا چلوں جس میںارکان کی طرف سے دیے گئے ٹیکسز کی شرمناک شرح عوامکی حالت زار اور بدترین معاشی بگاڑ کا راز فاش کرنے کے لیے کافی ہے۔ سیاسی اشرافیہ کا تعلق حزبِ اقتدار سے ہو یا حزبِ اختلاف سے‘ سبھی میں لاکھ اختلافات اور عناد کے باوجود ایک قدرِ مشترک ہے اور سبھی اس پر متفق ہیں کہ آمدنی اور اثاثے ہوشربا ہونے کے باوجود ٹیکس ہرگز نہیں دینا‘ البتہ ملک و قوم پر احسان کرتے ہوئے قومی خزانے میںٹوکن رقمیں جمع کروا ڈالتے ہیں۔گویا رند کے رند رہے‘ہاتھ سے جنت نہ گئی۔نمونے کے طور پر چند ماہ قبل سیاسی رہنماؤں کی طرف سے ادا کردہ ٹیکسز کی تفصیل بھی پیش کرتا چلوں۔
عثمان بزدا ر صاحب نے بحیثیت وزیراعلیٰ پنجاب کمال مہربانی کرتے ہوئے دو ہزار روپے ٹیکس ادا کرکے ملکی معیشت کو وہ استحکام دیا جس کے اثرات آج بھی بخوبی دیکھے اور محسوس کئے جاسکتے ہیں۔ اسی طرح آج کل وفاقی وزیر احسن اقبال صاحب نے 55 ہزار اور وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان صاحب نے 66 ہزار روپے ٹیکس دے کر ملک و قوم پرکوئی کم احسان نہیں کیا۔ سابق صدر آصف علی زرداری صاحب '' سب پہ بھاری‘‘ ہونے کے باوجود صرف 22 لاکھ روپے ٹیکس دے کرنازاں ہیں۔ اُن کے صاحبزادے پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی ملک و قوم پراحسان عظیم فرماتے ہوئے تقریباً پانچ لاکھ روپے ٹیکس دیا جبکہ ان کی سکیورٹی پر اٹھنے والے اخراجات ان کے دیے ہوئے ٹیکسز سے سینکڑوں گنا زیادہ ہوں گے‘ جن کا حساب نہ سندھ حکومت کے پاس ہے نہ ہی شاید وفاقی حکومت کے پاس۔
اس وقت کے قائد حزب اختلاف اور آج کے وزیراعظم شہباز شریف صاحب نے بھی ہوشربا اثاثوں کے باوجود ٹیکس کی مد میں تقریباً 82 لاکھ روپے دے کر اپنی برادری میں نمایاں مقام برقرار رکھا۔اس وقت کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نیصرف آٹھ لاکھ روپے بطور ٹیکس جمع کروائے۔ اس دور کے وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے دو لاکھ روپے ٹیکس ادا کر کیقومی خزانے کا حوصلہ بڑھایا۔ سابق وزیر اعظم عمران خان جو چند برس پہلے تک ایک دو لاکھ روپے ٹیکس دیا کرتے تھے‘ اُنہوں نے بحیثیت وزیراعظم سال 2019ء میں تقریباً 98 لاکھ روپے ٹیکس دیا۔ یہ معمہ تاحال حل طلب ہے کہ وزیر اعظم بننے کے بعد ان کی آمدنی میں اضافہ کیسے اور کن ذرائع سے ہوا؟ تاہم یہ امر باعثِ اطمینان ہے کہ انہوں نے اپنی بڑھتی ہوئی آمدنی پر ٹیکس ادا کیا ہے۔ یہ سوال بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ وہ تین سو کنال کے گھر میں ضرور رہتے ہیں اور اُن کا مالی طور پر شریف خاندان اور زرداری خاندان سے کوئی موازنہ نہیں بنتا۔ تاہم یہ معمہ بھی حل طلب ہے کہ شہباز شریف اور آصف علی زرداری کے ادا کردہ ٹیکسز عمران خان سے کم کیسے رہے؟
شاہد خاقان عباسی نے سال 2019ء میں 48 لاکھ 71 ہزار رویے ٹیکس دیا جبکہ گزشتہ سال یعنی ایک سال قبل اُنہوں نے 22 کروڑ روپے ٹیکس دیا تھا۔ خسرو بختیار جیسے غیر معمولی صاحب حیثیت نے بھی بحیثیت وفاقی وزیرصرف ڈیڑھ لاکھروپے دے کر ٹیکس نظام کی جانبداری کو مزید جانبدار کرڈالا۔ جہاں ٹیکس کی ادائیگی پہ بھی سیاستدانوں اور حکمرانوں کی اجارہ داری ہے وہاں ایسے اراکین اسمبلی بھی موجود ہیں جن کی ٹیکس ادائیگیوں کا حجم تبرک اور نذرانوں کو بھی شرما ڈالے۔ خدا جانے کیسے اور کیوں سیاست دانوں کے گوشواروں کو من و عن تسلیم کر لیا جاتا ہے‘ بلکہ ٹیکس بھی ان کی مرضی کی شرح اور سہولت کے مطابق وصول کیا جاتا ہے۔ یہ سبھی مراعات اور آسانیاںصرف ان اشرافیہ کے لیے ہی کیوں جن کی وسیع و عریض جائیدادوں سے لے کر کمپنیوں اور فیکٹریوں اور ملکی و غیرملکی کرنسی کے اکائونٹس اور لگژری گاڑیوں تک کا نہ کوئی شمار ہے نہ ہی کوئی انت۔ بے نامی جائیدادوں اور اکائونٹس کی تفصیل میں جائیں تو بات کہاں سے کہاں جا پہنچے گی۔ کس کس کا نام لیں‘ جتنا بڑا نام اتناہی معمولی اور حقیر سا ٹیکس۔
ان کے روزمرہ کے اخراجات اور لائف سٹائل سے لے کر بچوں کے ملکی و غیر ملکی تعلیمی اداروں اور بیرون ملک سیر سپاٹوں تک اخراجات کا کوئی شمار نہیں‘ مگر ان کے ٹیکس دیکھیں۔ عام آدمی کو انکم ٹیکس کا نوٹس آ جائے تو دستاویزی ثبوت اور تمام تروضاحتوں کے باوجود کئی برس جان نہیں چھوٹتی۔ کھاتوں میں دس دس‘ بیس بیس سال پرانے مردے آج بھی عام آدمی کو ہلکان کئے ہوئے ہیں۔ کوئی گاڑی بدل لے یا مکان‘ شادی بیاہ کے اخراجات سے لے کر دیگر تفصیلات تک سبھی کا ایسے حساب لیتے ہیں کہ حساب دینے والا سو بار حساب دے لے تو بھی متعلقہ ادارے کا حساب کتاب نہ اسے قبول کرتا ہے نہ ہی معافی ملتی ہے۔ خدا جانے ہماری سیاسی اشرافیہ کے پاس کون سی گیدڑ سنگھی ہے‘ کون سا الہ دین کا چراغ ہے‘ کون سی سلیمانی ٹوپی یا عمرو عیار کی زنبیل ہے‘ نہ ان کی دولت کے انبار کسی ادارے کو نظر آتے ہیں اور نہ ہی ان کے اربوں کھربوں کے کھاتے اور درجنوں کمپنیاں اور فیکٹریاں۔ ممکن ہے ان کے فراہم کردہ گوشوارے چوم کر آنکھوں سے لگا کر کہا گیا ہو کہ سرکار آپ کا یہ ٹیکس تو ہم بطور ہدیہ وصول کرتے ہیں‘ اصل وصولیاں تو عوام اور ان بے وسیلہ ٹیکس گزاروں سے کی جاتی ہیں جن کی ہم تک کوئی رسائی ہے اور نہ ہی کوئی شنوائی۔ آپ جو گوشوارے جمع کروائیں گے ہم انہیں سچ مان کر آپ کا ٹیکس وصول کریں گے۔خسارے عوام کے اور موجیں آپ کی۔
آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔اب تک تو عوام ہی ٹیکس دیتے چلے آئے ہیں۔ سنا ہے کہ اب اشرافیہ بھی عوام کا بوجھ بانٹے گی۔ہاتھ لینے والے ہوں یا چھیننے والے۔ان کے لیے ہاتھ سے دینا جاں لیوا مرحلہ ہی ہوتا ہے۔سمیٹنے اور لینے والے کب دیتے ہیں اور کیا دیتے ہیں۔ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا۔