جہاں حال ماضی سے بدتر ہوتا چلاجائے۔ ماضی کا آسیب‘ کردار اور چہروں کی تبدیلی کے باوجود ہمارے حال کے ساتھ ساتھ مستقبل کو بھی جکڑے ہوئے ہو۔ وہاں زیادہ سے زیادہ کیا ہوسکتا ہے؟ مملکتِ خداداد کی حالتِ حال ڈھکی چھپی نہیں‘ تاہم اس کا مستقبل زیادہ سے زیادہ کیا ہو سکتا ہے؟ اس کا اندازہ لگانے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت ہرگز نہیں۔ طرزِ حکمرانی اور مسلسل من مانی کے نتیجہ میں حکمرانوں کی نیت اور ارادوں سے لے کر دلوں کے بھید بھاؤ نے ایسے ایسے گل کھلائے ہیں کہ عوام بہار سے اس طرح پناہ مانگتے نظر آتے ہیں۔
شریکِ ذوقِ نظر ہو چلی ہے مایوسی
بہار آئے نہ آئے خزاں بدل جائے
ماضی کے سبھی ادوار سے لے کر دورِ حاضر تک عوام کو جس حکمرانی کا سامنا رہا ہے وہ غریب کو غریب تر اور امیر کو امیر ترین کرنے کا باعث بنی ہے۔ سفید پوش کی تو ایسی درگت بنی ہے کہ اس کی سفید پوشی کا بھرم مسلسل ٹوٹ پھوٹ کے بعد دھڑام سے گر چکا ہے۔ اس کی کرچیاں سمیٹے سمیٹے ہاتھ لہولہان اور دامن تارتار ہوچکا ہے۔ دو وقت کی روٹی‘ بچوں کی تعلیم و تربیت اور غمی خوشی تو درکنار بجلی کے بل اور مکان کے کرائے نے اس طرح نڈھال اور بدحال کر ڈالا ہے کہ کچھ سجھائی نہیں دے رہا۔ یہ حالاتِ پریشاں دن کی رسوائی اور رات کی بے چینی بن کر اس طرح خائف کیے ہوئے ہیں کہ مستقبل تو دور کی بات اسے اپنے حال پر یقین نہیں رہا۔ پٹرول کی ناقابلِ برداشت قیمتوں نے اشیائے ضروریہ سمیت ہر شے کو اس طرح آگ لگا ڈالی ہے کہ قوتِ خرید بھی جل کر بھسم ہو چکی ہے۔
وزیراعلیٰ پنجاب نے 100یونٹ تک ''مفت‘‘بجلی کا اعلان کرکے سستی روٹی والے مائنڈ سیٹ کو دہرایا ہے۔ معاشیات کا اصول ہے کہ کوئی بھی جنس جتنی زیادہ مقدار میں خریدی جاتی ہے اس کی قیمت اسی تناسب سے کم ہوتی چلی جاتی ہے۔ یعنی ریٹیل پرائس کے مقابلے میں ہول سیل پرائس ہمیشہ کم ہی ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں پالیسی سازوں میں خدا جانے کون سی بجلی بھری ہوئی ہے کہ الٹی گنگا بہائے چلے جا رہے ہیں۔ صارف جتنی زیادہ بجلی استعمال کرے گا اس کا ٹیرف اتنا ہی مہنگا اور اذیت ناک ہوتا چلا جائے گا۔ مخصوص وقت میں ایک سے دو ایئرکنڈیشنڈ چلانے والی فیملی بھی بجلی کا بل دینے کے بعد اس قابل کہاں رہتی ہے کہ وہ گھر کا دیگر خرچہ چلا سکے۔ ہمارے حکمران اور ماہرین حکمرانی عوام پر کرتے ہیں اور سہولت کاری عالمی مالیاتی اداروں کی۔ اس سہولت کاری کی قیمت چکاتے چکاتے عوام بدحالی کے تمام مراحل سے گزر کے ادھ موئے ہو چکے ہیں۔ یہ کوئی دھوکہ منڈی ہے یا نحوست؟ فیصلہ سازوں کا چمتکار ہے یا نیتِ بد کا؟ کسی کا کوئی سر پیر نہیں ہے۔ نیت سے لے کر معیشت تک۔ گورننس سے لے کر میرٹ تک۔ سماجیات سے لے کر اخلاقیات تک۔ آئین اور قانون سے لے کر ضابطوں تک۔ زندان سے ایوان تک۔ سبھی کا باوا آدم ہی نرالا ہے۔ ہر طرف آسیب کا ایسا سایہ ہے کہ کونے کونے سے سائیں سائیں کی آوازیں آتی ہیں۔ ریکارڈ کی درستی کے لیے عرض کرتا چلوں کہ سائیں سائیں کی یہ آوازیں حکمرانوں کے لیے جلترنگ اور عوام کے لیے آہ و بکا بن چکی ہیں۔ اس شہرِ آسیب کا سب کچھ ہی نرالا ہے۔ برادر محترم حسن نثار کا ایک شعر بے اختیار یاد آرہا ہے جو حالات کی عکاسی کے لیے بہترین استعارہ ہے۔
شہرِ آسیب میں آنکھیں ہی نہیں ہیں کافی
الٹا لٹکو گے تو سیدھا دکھائی دے گا
مملکتِ خداداد کے تمام پالیسی سازوں‘ اقتصادی ماہرین اور معیشت دانوں کوکھلا چیلنج ہے کہ وہ کسی اوسط درجے کے گھرانے کا بجٹ بناکر دکھائیں تو مانوں۔ اور چلے ہیں ملک کی معیشت کو سدھارنے اور اقتصادی اصلاحات کرنے۔ یاد رہے یہ اوسط درجے پر مشتمل آبادی ہی ملک کی اکثریت ہے۔ پاکستانیت سے عاری یہ سبھی سیاستدان کس طرح ملک و قوم کے نام پرکیسے کیسے ڈھونگ رچاتے اور عوام کا مسلسل استحصال کیے چلے جارہے ہیں۔ شاہانہ طرزِ زندگی‘ ناقابلِ شمار مال و دولت۔ ہوشربا اثاثے اور انڈے بچے دیتے وسیع و عریض ملکی و غیر ملکی کاروبار ہر دور میں ان کے ماضی کے ساتھ ساتھ سماجی و مالی حالات سے متصادم ہی رہے ہیں۔ یہ سبھی قائد اور پارٹی کی تبدیلی کے ساتھ بوئے سلطانی کے شوق پورے کرنے کے لیے عوام کا مینڈیٹ بھی بے دریغ بیچتے چلے آئے ہیں۔ پرانے اور نئے پاکستان کے چکر میں عوام کو ایسا گھمایا کہ عوام اپنا پاکستان ڈھونڈتے پھر رہے ہیں۔ ان سبھی سیاستدانوں کے اپنے اپنے ایجنڈے‘ اپنے اپنے عزائم‘ اپنی اپنی توجیہات‘ اپنے اپنے جواز‘ اپنی اپنی مجبوریاں‘ اپنی اپنی مصلحتیں اور اپنا اپنا پاکستان ہے۔ ان سبھی کے براہِ راست متاثرہ عوام ہر دور میں ہی ان سے پوچھتے ہیں کہ کیا ہمارا بھی کوئی پاکستان ہے یا نہیں؟ کاش! عوام کا بھی کوئی پاکستان ہوتا تو شاید نہ نئے پاکستان کا چورن بکتا اور نہ پرانے پاکستان کا۔
ماضی اور حال مستقبل کا آئینہ ہوتے ہیں‘ بد قسمتی سے ملک و قوم کا مستقبل ماضی اور حال سے مختلف نظر نہیں آ رہا۔ گویا ''وہی چال بے ڈھنگی‘ جو پہلے تھی سو اب بھی ہے‘‘۔ پہلا قدم ہی دوسرے قدم کی منزل اور سمت کی نشاندہی کرتا ہے‘ مملکتِ خدا داد کا مستقبل کیا ہو سکتا ہے۔ ماضی کی بداعمالیاں ہوں یا بدعہدیاں۔ یہ سبھی بدعتیں کئی گنا اضافوں کے ساتھ بدستور جاری ہیں۔ حال کی بد حالی آنے والے وقت کا منہ چڑاتی ہے۔ زندہ قوم کو خبر ہو کہ مصلحتوں اور مجبوریوں کا یہ سفر نہ صرف یونہی جاری رہے گا بلکہ گلے کے طوق بھی پنڈولم بن کر لٹکتے اور جھولتے ہی رہیں گے۔ عوام نما رعایا حالات کی صلیب پر جوں کے توں رہیں گے۔ پاکستانیت سے عاری‘ دل ہے پاکستانی کی دھنیں بجاتے رہیں گے۔ عوام روز جیتے روز مرتے اور ریزہ ریزہ دھیرے دھیرے بکھرتے رہیں گے۔ گورننس شرمسار اور میرٹ تار تار ہوتے رہیں گے۔ غریب زندہ درگور اور امیر‘ امیرترین ہوتے چلے جائیں گے۔ حکمرانوں کے چہرے ضرور بدلیں گے لیکن خاندان وہی رہیں گے۔ باپ کی جگہ بیٹا اور دادا کی جگہ پوتا ملک و قوم پر شوقِ حکمرانی پورے کرتے رہیں گے۔ تاہم یہ تلخ حقیقت واضح اور Crystal Clearہے کہ دھتکار اور پھٹکار کے سبھی مناظر جوں کے توں اور جاری رہیں گے۔ یہ کہنا بھی قطعی بے جا نہیں کہ سیاہ بختی کے بادل مزید گہرے اور بھیانک بن کر گرجتے اور سنگباری کرتے رہیں گے۔ حکمران اسی طرح نازاں اور شاداں بغلیں بجاتے رہیں گے۔ مال و دولت کے انبار پہاڑ بنتے چلے جائیں گے‘ ان کی بھوک ہوس بنتی چلی جائے گی۔ عوام بھوکوں مریں گے اور سیاستدان شکم سیری کرتے رہیں گے۔
حالاتِ پریشاں کے ماتم کے دوران ایک بڑا اور گھنائونا جرم بھی شیئر کرتا چلوں کہ مال بنانے کی ہوس میں عوام اور حکمران ایک دوسرے کے سامنے صف آرا اور مقابلے پر آمادہ دکھائی دیتے ہیں۔ قربانی کے جانوروں کا وزن بڑھانے کے لیے جو ٹیکے اور ٹوٹکے بیوپاری آزما رہے ہیں‘ وہ قربانی کے مقدس گوشت کو آلودہ اور مضر صحت بنانے کا باعث ہیں۔ جس معاشرے میں مردہ مرغیوں کو کوڈ ورڈ میں ''ٹھنڈی مرغی‘‘ کہہ کر کھلے عام تجارت کی جاتی ہو‘ جہاں کتوں اور گدھوں کا گوشت ریستورانوں میں پکائے جانے کے واقعات عام ہوں وہاں قربانی کے جانوروں کو اذیت پہچانے والے قدرے معصوم لگتے ہیں۔ کہاں کی انسانیت اور کیسی پاکستانیت؟ یوں لگتا ہے کہ ٹھنڈی مرغی نے ضمیر اور غیرت کو ٹھنڈا کرڈالا ہے۔