تختِ پنجاب کا معرکہ عدالتی فیصلے کے مرہونِ منت تھا۔ کئی روز کی اعصاب شکن صورتحال نے سبھی کو اپنی طرف متوجہ کر رکھا تھا۔ لمحہ لمحہ بدلتی صورتحال ہو یا پینترے‘ نفسیات اور اعصاب پر ڈرون حملوں سے ہرگز کم نہیں تھے۔ آخر کار سپریم کورٹ کے تین رُکنی بنچ نے ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کو کالعدم قرار دیتے ہوئے چودھری پرویز الٰہی کو پنجاب کا وزیراعلیٰ قرار دے دیا ہے۔ حکومتی اتحاد ہو یا تحریک انصاف‘ دونوں طرف آگ برابر لگی ہوئی ہے۔ اپنے اپنے سیاسی پنڈتوں اور دانشوروں کے ساتھ رائے عامہ کو گھمانے اور پوائنٹ سکورنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ تختِ پنجاب پر راج حمزہ شہباز کا ہو یا پرویز الٰہی کا‘ صورتحال میں بہتری اور ڈیڈلاک کا خاتمہ دور دور تک نظر نہیں آ رہا۔ گورنر راج کے امکانات کو بھی مسترد نہیں کیا جا سکتا؛ تاہم راج کسی کا بھی ہو عوام کا کسی راج سے کوئی لینا دینا نہ ماضی میں تھا نہ آئندہ کبھی ہوگا۔ اپنے اپنے سیاسی رہنمائوں کی ذاتی خواہشات پر مبنی سیاست کا ایندھن بننے والے عوام اس سیاسی سرکس کے تماشائی بن کر بس تالیاں ہی بجاتے رہیں گے۔
بھوک اقتدار کی ہو یا مال و زر کی‘ کسی وبال سے کم نہیں۔ مملکتِ خداداد میں ایسے بھوکوں اور بھوک کے ماروں کی حالت دیدنی ہے۔ بھوک مٹانے کے لیے کیسے کیسے ہتھکنڈوں اور حربوں سے لے کر ملکی سالمیت اور استحکام داؤ پر لگانے سے بھی نہیں چوکتے۔ حکمران ماضی کے ہوں یا دورِ حاضر کے‘ سبھی نے وتیرہ بنا لیا ہے کہ اقتدار میں ہوں تو ادارے زندہ باد‘ اقتدار سے باہر ہوں تو حصولِ اقتدار کے لیے استحکامِ پاکستان کی علامت اداروں کے بارے میں الزام تراشی اور ہرزہ سرائی سے بھی گریز نہیں کرتے۔ مسلسل بداعمالیوں کے بعد کسی سازش کی ضرورت باقی رہتی ہے؟ انحراف آئین سے ہو یا عوام سے کیے گئے وعدوں سے‘ دونوں صورتوں میں یہ ملک و قوم کے خلاف سازش ہے۔ بیرونی مداخلت کا بیانیہ بھی ضرور بیچیں لیکن خیال رہے کہ شعلہ بیانی اور اشتعال انگیزی میں اس حد تک نہ چلے جائیں کہ اپنی لگائی آگ کل آپ سے بھی نہ بجھے۔ خدا جانے کوئی غفلت ہے یا کوئی سزا‘ سالہا سال سے انہی رہنماؤں کو آزمائے چلے جا رہے ہیں۔
کتنی ہی نسلیں بدل گئیں۔ اقتدار کے جوہر آزمانے والے خاندان بھی وہی ہیں اور شوقِ حکمرانی کا شکار ہونے والے عوام بھی وہی ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ دونوں طرف باپ کی جگہ بیٹا اور دادا کی جگہ پوتا۔ نسل در نسل حاکم بھی وہی اور محکوم بھی وہی چلے آرہے ہیں۔ یہ سلسلہ بدلتا نظر نہیں آتا۔ خوش حالی کے سنہری خواب ہوں یا اچھے دنوں کی آس‘ نہ خوابوں کو تعبیر ملتی ہے نہ آس پوری ہوتی نظر آتی ہے۔ بس یہی خلاصہ ہے وطنِ عزیز کی اکثریت کی زندگانی کا۔ سراب کے پیچھے بھاگتے بھاگتے بالآخر قبروں میں جا سوتے ہیں۔ نسل در نسل رُلتے اور دربدر بھٹکتے عوام کو کبھی سوچنے کی توفیق ہی نہ ہوئی کہ ان کے خوابوں‘ امیدوں اور آسوں کا اگر قتل ہوا ہے تو اس کا کوئی قاتل بھی ہوگا۔ انہوں نے اگر پے در پے دھوکے کھائے ہیں تو کوئی دھوکا دینے والا بھی یقینا ہوگا۔ ان کے بچے اگر اچھی تعلیم اور پیٹ بھر روٹی سے محروم رہے تو اس محرومی کا ذمہ دار بھی تو کوئی ہوگا۔ داد رسی اور انصاف میں کہیں رکاوٹ ہے تو رکاوٹ پیدا کرنے والا بھی ضرور ہوگا۔ ملک و قوم کا خزانہ اگر لوٹا گیا ہے تو لٹیرا بھی تو کوئی ہوگا۔ لوگ بنیادی ضرورتوں سے محروم چلے آرہے ہیں تو محروم کرنے والا بھی کوئی ہوگا۔ ان کے بگڑے نصیب باوجود کوشش کے نہ سنوریں تو انہیں بگاڑنے والا بھی یقینا کوئی ہوگا۔ سڑکوں پر ناحق بہتا ہوا خون ہے تو اسے بہانے والا بھی کوئی ہوگا۔ ان کے بچوں کے ہاتھ میں کتاب کے بجائے ہتھیار اور اوزار ہیں تو کتاب چھیننے والا بھی تو کوئی ہوگا۔ کاش عوام کو کہیں ہوش آجائے۔ ہر دور میں مینڈیٹ بیچنے والوں نے کیسی منڈی لگا رکھی ہے۔ عوام کے ووٹ سے ایوانوں میں پہنچنے والوں کے سبھی فیصلے ذاتی مفادات اور نفسانی خواہشات میں نہ صرف لتھڑے ہوئے ہوتے ہیں بلکہ ان کے سبھی اقدامات بھی مائنس عوام ہوتے ہیں۔ انہیں عوام سے بس ووٹ کی حد تک سروکار ہوتا ہے کہ کس طرح ووٹ ہتھیانا ہے۔ ووٹ لینے کے بعد ''تُو کون تے میں کون؟‘‘۔
سیاسی اکھاڑے کا منظرنامہ اس قدر تشویشناک ہے کہ یہ خوف بڑھائے چلا جا رہا ہے کہ شاید سیاسی رہنماؤں کی زبانوں سے اگلتے ہوئے شعلے وہ آگ لگا چکے ہیں جو شاید اب ان سے بھی نہ بجھے۔ میدانِ جنگ کا منظر پیش کرتی مملکتِ خداداد بھی یقینا بارگاہِ الٰہی میں فریاد کرتی ہوگی کہ مجھے کن ناشکروں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا ہے۔ ناشکری کے مرتکب حکمران ہوں یا عوام‘ سبھی ایک سے بڑھ کر ایک اور نہلے پہ دہلا ثابت ہوئے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ سبھی سیاسی رہنما نہیں گلی محلے کے لڑاکے ہیں اور ان کے درمیان کوئی سیاسی معرکہ نہیں بلکہ گینگ وار چل رہی ہے۔ شاید یہ ہماری سیاسی روایت اور جمہوریت کا ''حسن‘‘ ہے۔
جو طرزِ حکمرانی عوامی مینڈیٹ کو فروخت کر ڈالے‘ آئین اور حلف سے انحراف روایت بن جائے‘ حکمرانوں سے وفا اور بیماروں سے شفا چھین لے‘ داد رسی کے لیے مارے مارے پھرنے والوں سے فریاد کا حق چھین لے‘ اشرف المخلوقات ہونے کے باوجود بنیادی حقوق سے محروم کر ڈالے‘ چہروں سے مسکراہٹ چھین لے‘ جذبوں سے احساس چھین لے‘ بچوں سے ان کا بچپن چھین لے‘ بڑے بوڑھوں سے ان کے بڑھاپے کا آسرا چھین لے‘ قابل پڑھے لکھے اور ہنر مند لوگوں سے ان کا مستقبل چھین لے‘ منہ زور اور طاقتور کے سامنے غریب کی عزتِ نفس اور غیرت چھین لے‘ حتیٰ کہ وہ سہانے خواب بھی چھین لے جو ہر دور میں لوگوں کو تواتر سے دکھائے جاتے ہیں‘ جو سماجی انصاف کی نفی کی صورت میں اخلاقی قدروں سے لے کر تحمل‘ برداشت اور رواداری تک سبھی کچھ چھین لے‘ ایسے نظام کے تحت زندگی گزارنا کس قدر جان جوکھوں کا کام ہے۔ اکثر تو اس کی قیمت جان سے گزر کر ہی چکانا پڑتی ہے۔
ایک بار پھر عوام کا مینڈیٹ بیچنے والے اقتدار کی جنگ جیتنے کے لیے ایک دوسرے کی جان کے درپے ہیں۔ ایک دوسرے سے بار بار ڈسے جانے والے ایک بار پھر ایک دوسرے کو آزمانے پر مجبور نظر آتے ہیں۔ پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ ملک و قوم‘ عوام کے ٹیکسوں پر پلنے والی اشرافیہ کا بوجھ اُٹھاتے اٹھاتے ہلکان ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ اندیشوں اور وسوسوں کے سائے اتنے طویل ہوتے جا رہے ہیں کہ ان کے سامنے عوام تو بس بونے ہی دکھائی دیتے ہیں۔ مایوسیوں کے گڑھے دلدل بن چکے ہیں۔ ان سے باہر نکلنے کی کوشش کرنے والا مزید دھنستا چلا جا رہا ہے اور اب یہ عالم ہے کہ عوام اس طرزِ حکمرانی کے اثراتِ بد سہتے سہتے حالات کے رحم و کرم پر ہیں۔ لگتا ہے‘ نہ حالات بدلیں گے‘ نہ ہی عوام کی حالتِ زار بدلتی دکھائی دیتی ہے۔ ہر گزرتا دن جہاں مایوسیوں کے اندھیروں میں اضافے کا باعث بن رہا ہے وہاں یہ سوال بھی روز بروز اہمیت اختیار کرتا چلا جا رہا ہے کہ آخر ایسا کب تک چلے گا؟اقتدار میں آنے والے جمہوریت کے فاتح بن کراور ہارنے والے دھاندلی کا الزام لگا کر اسی طرح سڑکوں پر دھمال ڈالتے رہیں گے۔ آئین اور ضابطے عوام کی سہولت اور مملکت کا نظام چلانے کیلئے بنائے جاتے ہیں مگر جب قواعد و ضوابط کا اُلٹا استعمال ہو تو نہ نظام چلتا ہے نہ ریاست۔ گورننس اور میرٹ کے معنی الٹانے والوں نے مملکتِ خداداد کو جہاں مشکل ترین حالات سے دوچار کرڈالا ہے وہاں اندیشوں اور وسوسوں کی گہری کھائیوں میں دھکیلنے کے علاوہ کیسے کیسے کڑے سوالات بھی جواب سے محروم ہیں۔ اس سب کا کہیں تو انت ہونا چاہیے۔