اقتدار کے بٹوارے اور وسائل کی بندر بانٹ میں مگن حکمرانوں کو خبر ہو کہ موت کا رقص اپنی تمام تر وحشت اور دردناک مناظر کے ساتھ جاری ہے۔اقتدار کی چھینا جھپٹی اور پوائنٹ سکورنگ سے فرصت ملے تو تباہی اور بربادی سے پیدا ہونے والے انسانی المیے پر بھی کچھ توجہ فرما لیں۔یہ اس قوم پر ان کا ایک احسانِ عظیم ہوگا۔اس قوم پر حکمرانوں کے احسانات کی فہرست اور داستان تو پہلے ہی بہت طویل ہے۔حادثات ہوں یا سانحات ‘قدرتی آفات ہوں یا کوئی اور ہنگامی صورتحال‘ فوٹو سیشن اور آنیوں جانیوں کے سواکسی کے پلے کچھ نہیں۔کھلے آسمان تلے بے سروسامانی کے عالم میں موت سے بچ جانے والے سیلاب زدگان کی آنکھیں ان حکمرانوں کی توجہ اور درشن کے لیے پتھرا چکی ہیں۔کسی کا پورا کنبہ سیلابی ریلا بہا لے گیاتو کوئی بچے کھچے اہل خانہ کے ساتھ بے رحم پانی کے رحم و کرم پر ہے۔ خدایا! یہ کیسی قیامت ہے کہ تیرے دیے ہوئے دو ہاتھوں سے مصیبت زدہ مخلوق کیا کیا کرے؟ ماں کو پکڑے تو باپ کو پانی بہا لے جاتا ہے‘بیوی کو بچاتا ہے تو بچے ہاتھ سے نکلے چلے جاتے ہیں۔ کس کس کو روئے اور کتنا روئے ۔اپنے پیاروں کو روئے ۔گھر بار کو روئے یا مال و اسباب کو روئے۔یہ رونا تو ان رونے والوں کے نصیبوں میں نجانے کب سے لکھا جاچکا ہے۔
ان بدنصیبوں کے نصیب بگاڑنے والوں نے اپنی دنیا سنوارنے کے لیے ان کی قسمت میں تباہی اور بربادی اس طرح شامل کردی کہ یہ کچھ کرنا بھی چاہیں تو کچھ نہیں کرسکتے۔سیلاب کی تباہی اور بربادی کے بعد پانی اترتے ہی عین اسی مقام پر دوبارہ جابسنا شہر خموشاں میں آباد ہونے کے مترادف ہے۔یہ جانتے بوجھتے کہ تواتر سے آنے والے بے رحم سیلابی ریلوں نے پہلے بھی نجانے کتنی بار ان بستیوں کو ملیا میٹ کرڈالا۔اس خوفناک حقیقت کے ساتھ دوبارہ اسی مقام پر رہنا ٹائم بم پر بیٹھنے سے ہرگز کم نہیں۔کسی نے اپنے انتخابی حلقے سے موٹر وے گزارنے کے لیے ضد پکڑ لی تو کسی نے اپنی زمینوں میں رنگ روڈ کا انٹر چینج اتارنے کی لیکن اس مخلوق کے بارے میں کسی نے ایوان میں آج تک آواز نہیں اٹھائی جو بارشوں اور سیلابی ریلوں میں تنکوں کی طرح بہہ جاتے ہیں ۔ان کا کہیں جنازہ ہوتا ہے اور نہ ہی انہیں قبرنصیب ہوتی ہے۔کیچڑ میں لت پت معصوم بچوں کی بہتی ہوئی لاشوں کے مناظر ہوںیا مدد کے لیے پکارتے بے یارو مددگار لوگ‘ گہرے پانیوں کے بیچ کسی پتھر پر پناہ ڈھونڈ کرگھنٹوں کسی معجزے کا انتظار کرنے والوں کو کیا معلوم کہ ان کے رہنما اقتدار کی چھینا جھپٹی میں مصروف ہیں۔کہیں بھاشن دیا جارہا ہے تو کہیں بیانیہ بیچا جارہا ہے۔
صوبائی حکومتوں کے ہیلی کاپٹرسیاسی جلسوں اور آنیوں جانیوں میں مصروف ہوں تو سیلاب زدگان کی پکارکون سنے؟یہ قیامت پہلی بار نہیں ٹوٹی اور شاید آخری بار بھی نہیں۔یہ وہی قیامت ہے جو نجانے کب سے ٹوٹتی چلی آرہی ہے۔اور اسی طرح ٹوٹتی رہے گی۔ پانی تو موت کا ریلا بن کر بہت کچھ بہالے جاتا ہے لیکن ان بستیوں میں موت کا رقص تادیر جاری رہتا ہے۔بیماریاں ہوں یا پیاروں سے جدائی کا جاں لیوا روگ۔روزگارکے مسائل ہوں یا گھروں کی آبادکاری۔یہ سبھی مراحل کسی عذابِ مسلسل سے کم نہیں۔کھلے آسمان تلے خیمہ بستیوں میں شب وروز گزارنے والے بجا طور پر کہہ سکتے ہیں کہ قیامت سے پہلے قیامت ہم نے دیکھی ہے ۔سلام ہے دردِ دل رکھنے والے ان پاکستانیوں کو جو سیلاب زدگان کی بحالی کے لیے خیمے‘ راشن‘ کپڑے اورادویات اور دیگر اشیائے ضروریات لے کر سیلابی ریلوں کی طرف رواں دواں ہیں۔مقام شکر ہے کہ ایسے حادثات اور سانحات میں یہ قوم بڑھ چڑھ کر مدد کرتی ہے اور متاثرین کی بحالی میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتی۔ این جی اوز ہوں یا عوام کی انفرادی اور اجتماعی کاوشیں‘فراخدلی اور سخاوت کے ساتھ دینے والے تو بہت کچھ دے رہے ہیں‘ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سرکار اور سرکاری وسائل کہاں مصروف ہیں؟
یہ اطلاعات بھی ناقابلِ تردید ہیں کہ سیاسی رہنما عوام کی طرف سے اکٹھے کیے گئے امدادی سامان پر حاتم طائی بنے ہوئے ہیں۔ زلزلہ زدگان ہوں یا سیلاب زدگان ‘حادثات کا شکار ہونے والے عوام ہوں یاکسی سانحے کا‘حکمران حاتم طائی کی تصویر بن کرفوٹو سیشن کرواتے نہیں تھکتے۔ایسے میں بارہ سال قبل پیش آنے والا ایک واقعہ بے اختیار اس لیے یاد آرہا ہے کہ سالہا سال گزر جائیں‘حکومتیں بدل جائیں لیکن حکمرانوں کی ترجیحات اور مائنڈ سیٹ جوں کا توں ہے۔ستمبر 2010ء میں پاکستان میں سیلاب آیا تو اقوام متحدہ کی سفیر مشہور اداکارہ انجلینا جولی نے پاکستان کا دورہ کیا کہ سیلابی تباہ کاریوں کے بعد متاثرین کی بحالی کے لیے پاکستان کی امداد کا تعین کیا جاسکے۔واپسی پر انجلینا جولی نے اقوام متحدہ میں اپنی جو رپورٹ پیش کی وہ پاکستان کی طرزِ حکمرانی کا اصل چہرہ تھی۔رپورٹ کے مندرجات کچھ یوں تھے کہ مجھے یہ دیکھ کر شدید دکھ ہوا جب میرے سامنے بااثر حکومتی شخصیات سیلاب زدگان کو دھکے دے کر روک رہے تھے ۔ مجھے اس وقت اور تکلیف ہوئی جب پاکستان کے وزیراعظم نے یہ خواہش ظاہر کی اور مجبور کیا کہ میری فیملی کے لوگ آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔میرے انکار کے باوجود وزیراعظم کی فیملی مجھ سے ملنے کیلئے ملتان سے ایک خصوصی طیارے میں اسلام آباد آئی اور میرے لیے بیش قیمت تحائف بھی ساتھ لائی۔ وزیراعظم کی ڈائننگ ٹیبل پر انواع واقسام کے کھانے دیکھ کر مجھے شدید رنج ہوا کہ جس ملک میں لوگ فاقوں سے مر رہے تھے اور ٹیبل پر موجودیہ کھاناکئی سو لوگوں کیلئے کافی تھا جو صرف آٹے کے ایک تھیلے اور پانی کی ایک چھوٹی بوتل کیلئے ایک دوسرے کو دھکے دے کر ہماری ٹیم سے حاصل کرنے کے خواہشمند تھے۔میرے لیے یہ امر بھی باعثِ تکلیف اور حیرت تھا کہ ایک طرف بھوک‘ غربت اور بد حالی تھی اور دوسری جانب وزیراعظم ہاؤس اور کئی سرکاری عمارتوں کی شاہانہ شان و شوکت تھی۔انجلینا جولی نے اقوام متحدہ کو مشورہ دیا کہ پاکستان کو مجبور کیا جائے کہ امداد مانگنے سے پہلے شاہی پروٹوکول‘ عیاشیاں اور فضول اخراجات ختم کریں۔ اس پورے دورے کے دوران انجلینا جولی نے پاکستان کے میڈیا اور فوٹو سیشن سے دور رہنا پسند کیا۔
ملک کے چاروں صوبوں میں تباہی اور بربادی کے ڈیرے ہیں ۔بستیاں ملیا میٹ اور شہر خموشاں کا استعارہ ہیں۔سندھ میں انسانی المیے کے ایسے دردناک مناظر دیکھنے اور سننے کو مل رہے ہیں کہ یوں لگتا ہے کہ وہاں صرف کہنے کی حد تک ہی آبادی رہ گئی ہے۔اسی طرح خیبرپختونخوا کا ہیلی کاپٹر حکمران جماعت کے چیئرمین کے جلسوں اور سیاسی سرگرمیوں کے لیے وقف نظرآرہا ہے ۔ تخت پنجاب کے والی بھی اپنی چولیں مضبوط کرنے اور انتظامی معاملات پر گرفت حاصل کرنے کے لیے مصروف عمل ہیں۔ بلوچستان کے حالات جوں کے توں اور اسی تباہی کا تسلسل ہیں جو سیلاب بن کربستیاں اجاڑتی چلی آرہی ہیں۔تن ڈھانپنے کو کپڑا نہیں ‘رہنے کے لیے گھر نہیں‘علاج معالجے کے لیے ادویات نہیںاور سب سے بڑھ کر یہ کہ پیاروں سے جدائی اور گھر بار کی بربادی پر رونے کے لیے آنکھوں میں آنسو اس لیے نہیں کہ پتھرائی ہوئی آنکھوں میں آنسونہیں وحشت اور مایوسی ہوتی ہے۔ابھی تو این جی اوز اور درد دل رکھنے والے عوام سیلاب زدگان کی بحالی کے لیے خیمے ‘ خوراک اوردیگراشیائے ضروریہ فراہم کررہے ہیں لیکن ان کی آبادکاری اور زندگی کو معمول پر واپس لانے کے لیے بڑے اور کٹھن مراحل طے ہونا باقی ہیں۔پانی تو اُتر جائے گا ‘یہ وقت بھی گزر جائے گا۔آنے والا وقت ایک اور دریا بن کر سیلاب زدگان کے سامنے کھڑا ہے گویا ؎
ایک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں اک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا