ستمبر کیا واقعی ستمگر ہونے جارہا ہے؟ ایک طرف عمران خان پر فردِ جرم عائد ہونے کی خبریں ہیں تو دوسری طرف صدر مملکت نے پارٹی چیئرمین کو فیصل آباد جلسے میں دیے جانے والے اپنے بیانات پر معافی مانگنے کا مشورہ بھی دے ڈالا ہے۔ پورے ملک میں عجیب تماشا لگا ہوا ہے‘ سبھی اقتدار میں ہیں اور سبھی اپوزیشن میں بھی۔ سبھی اقتدار کی موجیں بھی لوٹ رہے ہیں اور سبھی واویلا بھی کیے چلے جا رہے ہیں۔ عمران خان کا بیانیہ قریبی ساتھیوں سمیت حلیف جماعتوں کے لیے بھی روز بروز آزمائش کا باعث بنتا چلا جارہا ہے۔ آنے والے دنوں میں عمران خان کا سیاسی مستقبل کیا ہوگا‘ ان کے ساتھ کون کون کھڑا ہوگا‘ کون اُن سے دور ہو جائے گا‘ کون ان کے بیانیے کے ساتھ جڑا رہے گا‘ کون علیحدگی اختیار کر لے گا‘ عمران خان کا جارحانہ طرزِ سیاست اُنہیں مزید مقبول بنائے گا یا خان صاحب کو سیاسی تنہائی کا سامنا کرنا پڑے گا‘ ان کے بیانیے کی قیمت چکانے کے لیے کون اپنی گردن پیش کرے گا اور کون اپنی گردن بچا کر بھاگ نکلے گا‘اس کا فیصلہ آنے والے چند دنوں میں ہو جائے گا۔ خدشہ ہے کہ ستمبر مزید ستمگر بنتا چلا جائے گا۔
مملکتِ خداداد کرۂ ارض پر ایسا منفرد ترین خطہ ہے جس کے عوام کے لیے آنے والا ہر لمحہ‘ ہر دن‘ ہر مہینہ‘ ہر سال ستمگر ہی ثابت ہو رہا ہے۔ تعجب ہے‘ حکمران عدالت سے ضمانتوں پر ہیں لیکن بے چارے عوام کی ضمانت تاحال ضبط ہے۔ بے چارے‘ بے قصور عوام نے تو کچھ بھی نہیں کیا‘ وہ پھر بھی ضمانت پر رہائی کے طلبگار پھرتے ہیں۔ وہ ان حکمرانوں کے اس شکنجے سے رہائی مانگتے ہیں جو ان کے طرزِ حکمرانی کے نتیجے میں عوام کو جکڑے ہوئے ہے۔ اس طوق سے نجات مانگتے ہیں جو ان کی گردنوں میں مینڈیٹ کی صورت میں پڑ چکا ہے۔ یہ عوام آخر کب تک محصور اور یرغمال رہیں گے؟ یہ بھی رہائی اور انصاف مانگتے ہیں۔ کوئی ہے جو عوام کا مقدمہ لڑے؟بے کس اور لاچار عوام پوچھتے پھرتے ہیں کہ وہ اپنی رہائی کے لیے کون سی زنجیرِ عدل ہلائیں کہ ان کی سیاہ بختی کچھ تو کم پڑے۔ کہیں تو اس کا زور ٹوٹے اور عوام کے اوسان اور سانسیں بحال ہوں اور وہ بھی یہ محسوس کر سکیں کہ وہ بھی حضرتِ انسان کی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔
جہاں ایوان سے زندان اور زندان سے ایوان کا سفر کوئی معنی ہی نہیں رکھتا۔ پل بھر میں نصیب بنتے اور بگڑتے ہیں۔ ملک بھر میں کہیں تماشے تو کہیں سہم کا عالم ہے کہ اقتدار کی چھینا جھپٹی کے نتیجے میں ملک کو سچ مچ کے نازک دور اور موڑ سے دوچار کرنے والے کہیں ملک و قوم کواس اندھے کنویں میں نہ دھکیل ڈالیں جہاں سے نکلنا تو درکنار‘ آواز بھی باہر نہیں آتی۔ حکمرانی کے لیے ملک درکار ہوتا ہے‘ ریاستی اداروں اور تنظیمی ڈھانچے کو ڈھانچے میں تبدیل کرنے کے بعد کیسی حکومت اور کہاں کی حکمرانی؟ ملک پر سیاست کو ترجیح دینے والے ہوں یا سالمیت اور استحکام کو شوقِ حکمرانی کی بھینٹ چڑھانے والے‘ ان سبھی نے ہوش کے ناخن نہ لیے تو بھیڑ چال کی شکار قوم نما رعایا کے ایسے ہوش ٹھکانے آئیں گے کہ شاید کہیں ٹھکانہ بھی نہ ملے۔ زمینی حقائق کے برعکس گمراہ کن بیانیوں اور جھانسوں سے عوام کو بیوقوف بنا کر مینڈیٹ تو ہتھیایا جا سکتا ہے لیکن ناقابلِ تردید تلخ حقیقتوں کو ہرگز نہیں جھٹلایا جا سکتا جنہیں سمجھنے کی حس خدا جانے کہاں کھو گئی ہے۔ حکمران کوئی مسیحا نہیں ہوتا جو مردوں کو زندہ کردے اور نہ ہی اس کے پاس کوئی کرشمہ ہوتا ہے۔ اس کا کرشمہ اور مسیحائی اس کی مردم شناسی‘ فیصلہ سازی‘ وژن اور گورننس ہی ہوتی ہے۔ مردوں کو بھلے زندہ نہ کر سکے‘ لیکن اس کی گورننس اور فیصلوں کی وجہ سے نہ کوئی ناحق مرے اور نہ ہی کسی کو جیتے جی زندہ درگور ہونا پڑے۔ ہلاکت سے بچانا ہی مسیحائی ہے۔ بدقسمتی اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگی کہ حکمران ماضی کے ہوں یا دورِ حاضر کے‘ سبھی مردم شناسی اور گورننس جیسی خصوصیات سے نہ صرف عاری پائے گئے ہیں بلکہ انہی خصوصیات کے برعکس اپنی ضد اور ہٹ دھرمی پر ڈٹے دکھائی دیتے ہیں کہ ان سے بڑھ کرکوئی عقلِ کل نہیں۔
پون صدی کی بربادیوں اور من مانیوں کا کہیں تو اختتام ہونا چاہیے۔ جمہوریت کا حسن بے نقاب ہونے کے باوجود خدا جانے عوام کیوں اس حسن کے گرویدہ اور رقصاں ہیں۔ ایک دوسرے کی کردار کشی کرتے یہ سبھی سیاسی رہنما بار بار عوام کے آزمائے ہوئے ہیں۔ عوام کو مزید تجربات اور دھوکوں کا شکار ہونے کے بجائے اس سیاسی اکھاڑے میں خود اتر جانا چاہیے۔ جس دن عوام اکھاڑے میں اتر آئے‘ سارے درشنی پہلوان بھاگ جائیں گے۔ عوام کو اس جمہوریت کے حسن کے سحر سے باہر نکل کر ان بھیانک حقائق اور اس بہروپ کی حقیقت کو تسلیم کر لینا چاہیے‘ عوام ان جمہوری چیمپئنز کا ایسا بائیکاٹ کریں کہ وہ عوام سے ووٹ مانگنے سے پہلے سو مرتبہ سوچیں۔ تب کہیں جاکر ان کی بربادیوں کا اختتام ہو سکتا ہے ورنہ یہ نام نہاد جمہوری حسن ایسے اندھیرے پھیلائے گا کہ روشنی بھی پناہ مانگتی پھرے گی۔ ہمارے ہاں قدرت نے جسے بھی گورننس کی نعمت عطا کی اُس نے اس عطا کو اپنی استادی‘ مہارت اور اہلیت سے منسوب کیا۔ گویا یہ قدرت کی عطا نہیں بلکہ خود ان کی کسی ادا کا چمتکار تھا۔ برسر اقتدار آنے کے بعد یہ سبھی ایک دوسرے کے ریکارڈ‘ ریکارڈ مدت میں توڑنے کی کوشش میں اپنی آنکھوں میں اچھے خاصے شہتیر لیے پھرنے کے باوجود دوسروں کی آنکھ کے تنکے کو لے کر آسمان سر پہ اُٹھا لیتے ہیں۔ یہی ان کی جمہوریت ہے اور یہی ان کی جمہوریت کا حسن۔ اخلاقیات سے لے کر تحمل‘ برداشت اور رواداری سمیت آئینی و قانونی تقاضے تارتار ہو چکے ہیں۔ جن کے منہ کو اقتدار کا مزہ لگ گیا ہو پھر انہیں اور کچھ نہیں بھاتا۔ یہ وہ مچھلیاں ہیں جو اقتدار کے تالاب سے نکالے جانے کے تصور سے ہی تڑپنے اور گھبرانے لگ جاتی ہیں اور اسی گھبراہٹ میں وہ ہر طرح کے ہتھکنڈوں کو جمہوریت کا حسن سمجھتی ہیں۔
سیاست کے کیسے کیسے شہزادے جمہوریت کو رسوا کرکے اس طرح شاداں اور نازاں ہیں کہ سنبھالے ہی نہیں جا رہے۔ ایک سے بڑھ کر ایک عوام کے درد میں بے حال ہونے والے کو دیکھ کر یہ سوچ بڑھتی ہی چلی جاتی ہے کہ عوام کے مسائل اور تکلیفوں کے ازالہ کے لیے ڈھیروں رہنما دن رات تو ایک کیے ہوئے ہیں‘ عوام کو اور کیا چاہیے؟ ایسے لیڈر کہاں ملتے ہیں کہ رات کو سونے جاؤ تو یہ سٹیج لگائے ہوتے ہیں‘ صبح اٹھو تو اسی سٹیج پر موجود اپنے اوصاف اور مخالفین میں پائے جانے والی خامیوں کے بارے میں عوام کو مطلع کرتے نظر آتے ہیں۔ آج کل یہ سبھی رہنما شفٹوں میں دستیاب ہیں۔ ملک میں آئینی بحران ہو یا انتظامی‘ کسی کو رتی برابر پروا نہیں۔ اپنے بیانیوں سے جو اخلاقی بحران یہ پیدا کر چکے ہیں اسے دیکھ کر بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ آئینی و انتظامی بحران مزید معاشی تباہیوں کے ساتھ روز ایک نئے بحران کا باعث بنتاہے۔ ان سبھی کی قیمت ہو‘ خمیازا یا بھگتان‘ قربانی کا بکرا ہمیشہ کی طرح عوام کو ہی بننا پڑے گا۔ یہ جمہوری چیمپئن کہیں خود دھمال ڈالتے نظر آتے ہیں تو کہیں جمہوریت کو دھمال ڈلوا رہے ہیں۔ تعجب ہے کہ عوام اس منظر نامے سے عبرت پکڑنے کے بجائے مزید سردھنتے اور دادِ عیش دیتے نظر آتے ہیں۔