گزرتے وقت کے ساتھ عمران خان صاحب کا طرزِ سیاست انہیں پوائنٹ آف نوریٹرن کی طرف لیے چلا جارہا ہے۔ پُرہجوم جلسوں سے خطاب ہو یا کوئی بیان‘ اس کی شدت اور حدت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔مقبولیت کا بخار ہو یا سحر‘دونوں صورتوں میں اس کی قیمت چکانا ہی پڑتی ہے۔ اکثر بسوں اور ویگنوں کے پیچھے لکھا ہوا ایک فقرہ بے اختیار یاد آرہا ہے کہ 'تیزی سب کو بھاتی ہے جان اسی میں جاتی ہے‘ ویسے بھی رفتار کا تیز ہونا اس وقت بے معنی ہوکر رہ جاتا ہے جب آپ کی سمت ہی درست نہ ہو۔ ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر صاحبہ کے بعد عمران خان عوامی مقبولیت کے ریکارڈ توڑتے نظر آتے ہیں‘لیکن دھیان رہے کہ جادوئی رفتارسے دوڑتی مقبولیت کی اس گاڑی کو گمراہ کن سنگِ میل دکھا کر کہیں منزل سے بھٹکایا تو نہیں جارہا؟
عمران خان صاحب جو لائن لے چکے ہیں اور جس عوامی مقبولیت کی بلندی پر وہ کھڑے ہیں‘ انہیں سیاسی بدعتوں پر گہری نظر رکھنی چاہئے۔ ہوا بھرنے والے ہوں یا اشتعال انگیزی کو ہوا دینے والے‘ لہو گرمانے والے ہوں یا خون کی بازی لگانے کا مشورہ دینے والے‘ سرفروشوں کی قطاریں ہوں یا جانثاروں کا ہجوم‘ ان سبھی کاکردار اور ماضی ہماری سیاسی تاریخ کے اور اق میں دفن ہے۔ان سبھی کا ایک ایک مشورہ اور ہلہ شیری کا ایک ایک لفظ چیخ چیخ کر گواہی دے رہا ہے کہ یہ سبھی اپنی اپنی ڈیوٹیوں پر ہیں۔ بے نظیر بھٹو کو شدید لائف تھریٹ کے باوجود عوام کے سمندر میں ہر قسم کی احتیاط سے گریز کی حوصلہ افزائی کرنے والوں نے سانحہ کارساز کے بعد ہوش کے ناخن لینے کے بجائے مزید ہلہ شیری جاری رکھی اور یوں ہدف بنانے والوں کے لیے سانحہ کار ساز کے بعد سانحہ لیاقت باغ آسان ہدف ثابت ہوا۔
آج تک سمجھ نہیں آ سکی کہ مفاہمت کی سیاست جمہوریت سے انتقام ہے یا جمہوریت ہی انتقام بن چکی ہے۔ شوقِ حکمرانی کا ایسا جنون چڑھا کہ اس ہستی کی قربانی کو بھی فراموش کر ڈالا جس کے باپ نے پھانسی کا پھندا چومنے سے پہلے کہا تھا کہ اگر مجھے قتل کیا گیا تو ہمالیہ بھی روئے گا۔ اسی کی بیٹی‘ اسی کی وارث نے جان کی پروا کیے بغیر وارننگ اور لائف تھریٹ کے باوجود دلیری سے کام لیا تو انجام وہی ہوا جس کا انہیں اپنی زندگی میں ہی اندیشہ لاحق تھا۔ ان کے خدشات اور اندوہناک موت کے بعد المناک حالات کو کمال مہارت سے اپنے حق میں کرنے والے 15 سال سے نان سٹاپ حکمرانی کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ شاید یہی جمہوریت ہے اور یہی اس کا انتقام۔
اس تناظر میں عمران خان کو خبر ہونی چاہئے کہ ان کی صفوں میں موجود کئی کردار ان کے دورِ اقتدار میں بھی خود کو متبادل قیادت تصور کر کے اشاروں کنایوں میں پیغام دیتے رہے ہیں۔تاہم کئی ایسے بھی ہیں جو ان کی کرسی پر للچائی نظریں ٹکائے ہوئے ہیں۔ تحریک انصاف میں موجود ایسے سرکردہ اور منجھے ہوئے کردار اور پرانے کھلاڑی گھاٹ گھاٹ کا پانی پی چکے ہیں؛چنانچہ بہتر ہے کہ زمینی حقائق کو کھلی آنکھ سے دیکھنے کے علاوہ ان کرداروں پر بھی نظر رکھی جائے جو ان کی صفوں میں شامل ہونے سے پہلے نجانے کتنے رہنما اور کتنی پارٹیاں اور وفاداریاں تبدیل کر چکے ہیں۔ لہو گرمانے اور ہلہ شیری دینے والے عمران خان کا متبادل بننے کیلئے ایک دوسرے سے دست و گریباں اور گتھم گتھا نظر آئیں گے۔ متبادل قیادت بننے کے خواب سجائے یہ سبھی اپنے اپنے ایجنڈے اور ڈیوٹی پر ہیں۔ ان کی خواہشات ہی ان کے نظریات ہیں اور ان کی اصل منزل اقتدار ہے۔ ان کا قائد نواز شریف ہو یا بے نظیر بھٹو‘ پرویز مشرف ہو یا آصف علی زرداری‘ انہیں کبھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اکثر الیکٹ ایبلز کو عمران خان سے جو محبت ہے دراصل اقتدار سے محبت ہے۔ یہ ایسی سیاسی مچھلیاں ہیں جو صرف کنگ پارٹی کے تالاب میں ہی زندہ رہ سکتی ہیں۔ عمران خان کو یہ خبر بھی ہونی چاہئے کہ انہیں ہمدردوں اور جانثار ساتھیوں سے دورکرکے غلط فہمیوں میں الجھانے کے ماسٹر مائنڈبھی یہی لوگ تھے۔ بالخصوص غیر منتخب شریک اقتدار مصاحبین ہوں یا سر چڑھے سرکاری بابواور وزرا‘یہ سبھی انہیں بندگلی میں پہنچانے اور پھنسانے کے ذمہ دار ہیں۔یہ کل بھی ڈیوٹی پر تھے آج بھی ڈیوٹی پر ہیں۔
مملکتِ خداداد کا سیاسی منظرنامہ اس قدر ہولناک ہو چکا ہے کہ کسی بھی حکومت کے لیے ریاستی امور چلانا ممکن نہیں رہا۔ کئی بار کہہ چکا ہوں کہ شوقِ حکمرانی کے ماروں نے وطن عزیز کو Governable ہی نہیں رہنے دیا۔ اقتدار کی چھینا جھپٹی میں گتھم گتھا عوام کے درد میں بے تاب نہیں ہیں‘ یہ سبھی بوئے سلطانی کے مارے حصولِ اقتدار کیلئے یا طولِ اقتدار کے لیے مارے مارے پھر رہے ہیں۔ الیکشن کا مطالبہ کرنے والے ہوں یا الیکشن سے بھاگنے والے‘ سبھی ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ سبھی کی حکمرانی کے جوہر عوام دیکھ چکے ہیں۔ ایک دوسرے کی بدترین حکمرانی کے ریکارڈ توڑنے کے سوا کسی نے کوئی توپ نہیں چلائی۔ نہ کسی کے کریڈٹ پر کچھ ہے اور نہ ہی کسی کے پلے کچھ ہے۔ عوام سبھی کو بھگت چکے ہیں۔ گمراہ کن بیانیوں اور جھانسوں پر مبنی آئے روز گھنٹوں بھاشن دینے والے اپنے دورِ اقتدار میں کارکردگی کے کون سے چوکے چھکے لگاتے رہے ہیں؟ تعجب ہے صفر کارکردگی کے ساتھ جلسوں میں عوام کا مجمع دیکھ کر بے قابو ہونے والوں کو اور کیا چاہئے؟کیسی بھیڑ چال ہے۔ جلسوں میں جا کر گھنٹوں سر دھننے والے آنے والے حالات کی سنگینی سے بے خبر‘ نئے جھانسوں میں آ چکے ہیں۔
کئی بار عرض کر چکا ہوں کہ یہ سبھی آزمائے جا چکے ہیں۔ عوام بھی بار بار ڈسے جا چکے ہیں۔ ایسے میں الیکشن کے بھاری اخراجات اور اس کے بعد آنے والی کوئی بھی کمزور اور پولیو زدہ حکومت عوام کے دکھوں کا مداوا کرنے کے بجائے حالات کی پریشانی میں مزید اضافے کا باعث بنے گی۔ جیتنے والی پارٹی عوامی مینڈیٹ کا دعویٰ اور ہارنے والی پارٹی دھاندلی کا واویلا کرے گی۔ قومی اداروں کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے والے ملکی استحکام کے لیے مزید خطرہ بننے کے علاوہ انتشار اور خانہ جنگی کے اسباب پیدا کرنے والے عوام کو انگار وادی کا ایندھن بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ قوم کو مزید آزمائشوں سے بچانے کے لیے جمہوری چیمپئنز کو فکری‘ اخلاقی اور انتظامی بلوغت تک طویل رخصت پر بھیج دینا چاہیے۔ مکافات ِعمل کے درد ناک مناظر ہی ملک و قوم کو سنبھالا دے سکتے ہیں۔ مقتدر حلقوں کومزید سمجھوتا کرنے کے بجائے قومی کردار ادا کرنا ہو گا۔ ملکی استحکام کے پلڑے میں اپنا وزن محسوس کروانا ہو گا۔ کہیں دیر نہ ہو جائے۔
اقتدار کی چھینا جھپٹی میں گتھم گتھا سبھی سیاسی رہنما ایک سے بڑھ کر ایک اور نہلے پے دہلا پائے گئے ہیں۔کوئی زبان سے شعلے اگل رہا ہے تو کوئی انتشار اور بے یقینی کی چنگاریوں کو ہوا دے رہا ہے۔ان سبھی کا ہدف فقط اقتدار ہے۔انہیں عوام سے کوئی سروکار ہے نہ ہی عوام کی حالتِ زار سے۔یہ سبھی مل کر وہ آگ لگانے جارہے ہیں جو شاید کل ان سے بھی نہ بجھے۔خدا خیر کرے میرے آشیانے کی۔
سن کر ابھی آیا ہوں خبر‘ آگ لگی ہے
لیکن نہیں معلوم‘ کدھر آگ لگی ہے
شعلہ بھی نہیں دکھتا دھواں بھی نہیں اُٹھتا
معلوم تو ہوتا ہے مگر‘ آگ لگی ہے
میں آگ لگاتے ہوئے جب لوٹ کے آیا
لوگوں نے بتایا میرے گھر آگ لگی ہے