وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے علی امین گنڈاپور کی نامعلوم شخص سے گفتگو کی مبینہ آڈیو جاری کرکے ' لیک سیریز‘ میں ایک اور پوائنٹ سکور کرڈالا ہے۔ہماری سیاسی تاریخ لاشوں کی سیاست سے بھری پڑی ہے۔اس تناظر میں علی امین گنڈا پور کی مبینہ آڈیو کوئی اچنبھے کی بات ہے نہ اس پر حیران اور پریشان ہونے کی ضرورت ہے۔سیاسی فائدے اور ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے سماج سیوک نیتا ایسے ایڈونچر اپنا استحقاق سمجھتے چلے آئے ہیں۔شوقِ اقتدار کے مارے جب مرنے مارنے کی سیاست پر اترآئیں تو ا نتشار کا خدشہ کیوں لاحق نہ ہو۔یوں لگتا ہے کہ اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے۔لانگ مارچ کا اونٹ کسی کروٹ بیٹھتا ہے یا کسی مقام پر جالیٹتا ہے‘اس کا فیصلہ آئندہ چند روز میں ہو جائے گا۔دیکھنا یہ ہے کہ میدان لگانے والے اس سیاسی معرکہ کوحق و باطل کا معرکہ بنانے کے لیے کیسے کیسے ہتھکنڈے اورحربے آزما رہے ہیں۔
ہمارے ہاں قدرت نے جسے بھی گورننس کی نعمت عطا کی بدقسمتی سے اُس نے اس عطا کو اپنی استادی‘ مہارت اور اہلیت سے منسوب کر ڈالا‘ گویا یہ قدرت کی عطا نہیں بلکہ خود اس کی کسی اَدا کا چمتکار ہے حالانکہ گورننس کی عطا نہ تو کسی کی مہارت ہے اور نہ ہی کسی کی اہلیت۔ یہ تو بس قدرت کا انمول تحفہ ہے۔ وہ جس کو بھی عطا کرے۔ خطا در خطا کے باوجود مہلت کا میسر رہنا یقینا کسی معجزے سے کم نہیں۔ ہمارے سبھی حکمرانوں کو یہ عطا اور مسلسل مہلت کثرت سے میسرآتی رہی ہے۔ جوں جوں یہ معجزے اور مواقع انہیں میسرآتے رہے توں توں یہ سارے بوئے سلطانی کی دلدل میں دھنستے چلے گئے۔ کبھی جھرلو تو کبھی دھاندلی‘ کبھی ڈنڈی تو کبھی ڈنڈا۔ کبھی صفائی تو کبھی صفایا‘ حتیٰ کہ بیلٹ کو بُلٹ سے منسوب کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا گیا۔ حصولِ اقتدار سے لے کر طرزِ حکمرانی تک یہ سبھی نظارے چشمِ فلک نے کثرت سے دیکھے ہیں۔
حکمران ماضی کے ہوں یا دورِ حاضر کے کیا ان سے یہ پوچھا جانا عین منطقی نہیں کہ جس کام کی تکمیل کے لیے یہ حکمرانی آپ کو عطا کی گئی جب وہ ہی نہ ہو سکا تو یہ ساری مراعات‘ عزت افزائی‘ شکم سامانیاں‘ کنبہ پروری سے لے کر بندہ پروری تک‘ تام جھام اورآنیاں جانیاں کس کھاتے میں ہیں؟ ان سب کو کس طرح حلال قرار دیں گے؟ ان سے یہ پوچھنے میں بھی حرج نہیں کہ جس انتظامی قابلیت کا ڈھول بجاتے رہے ہو وہ کہاں رہ گئی؟ وہ علمی اور تکنیکی مہارت کیا ہوئی‘ جس کا ڈنکا صبح شام بجایا جاتا تھا۔کیا یہی ہے وہ گورننس؟ کیا اسی لیے آپ کو عوام پر مسلط کیا گیا تھا؟ وہ نتائج برآمد کیوں نہ ہو سکے جن کی آس عوام لگائے بیٹھے تھے؟سچ کو جاننے‘ ماننے اور تسلیم کیے بغیر اب کام نہیں چلے گا۔ سچ کیا ہے؟ سچ یہی ہے کہ آدمی آدمی کو کیا دے گا جو بھی دے گاوہی خدا دے گا۔ ان زمینی خداؤں نے عوام کو کیا دینا ہے اور یہ دے بھی کیا سکتے ہیں؟ بوئے سلطانی کے مارے یہ حکمران کنبہ پروری اور بندہ پروری کے سوا کر بھی کیا سکتے ہیں؟ ان کی اپنی پوری نہیں پڑ پا رہی۔ ایسے میں یہ عوام کو کیا دے سکتے ہیں؟ گورننس اور میرٹ سے مشروط اداروں میں جب حکمرانوں کے ذاتی رفقا اور مصاحبین کا دور دورہ ہو تو کیسی گورننس اور کہاں کا میرٹ؟ سیاہ بختی اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگی کہ مملکت خداداد میں بسنے والی ان حکمرانوں کی رعایا کو کچھ بھی تو راس نہیں آیا۔ ایسے میں مرحوم و مغفور مربی عباس اطہر(شاہ جی) کی ایک آزاد نظم بے اختیار یادآرہی ہے۔جس کا پہلا مصرع کچھ یوں ہے کہ 'اے ماں! تو نے ہمیں کن زمانوں اور کن زمینوں پر جنم دیا‘۔ زمین ہو یا زمانے دونوں ہی عوام کو موافق نہ آئیں‘ کہیں زمین تنگ اورکہیں زمانہ گرگٹ کی طرح رنگ بدلتا ہو تو جنم سے موت تک کا سفر صدمات اور سانحات میں لتھڑی ہوئی دھتکار اور پھٹکار سے شروع ہوکر ذلت اور بے بسی سے ہوتی ہوئی تہی دستی اور تہی دامنی پر ہی ختم ہوتا ہے۔ اس خطے میں پیدا ہونے والے تو پہلا سانس لیتے ہی زندگی کی آدھی بازی ہار جاتے ہیں۔ عوام کے نصیب میں کہیں مرچنٹ تو کہیں پاور گیم کے منجھے ہوئے کاریگر حکمران ہوں تو اُن کی بدنصیبی کو کون ٹال سکتا ہے۔ جس معاشرے میں ٹریفک سگنل سے لے کر قوانین اورآئین توڑنے والے خود کو ماورائے قانون اور ناقابلِ گرفت سمجھتے ہوں اور طرزِ حکمرانی ذاتی مفادات کے گرد گھومتی ہوتو بندہ پروری سے لے کر کنبہ پروری تک‘بندر بانٹ سے لے کر لُوٹ مار تک‘ ساز باز سے لے خورد برد تک‘ اقربا پروری سے لے کر شکم پروری تک‘ بیانیہ سازی سے لے کر بیانیہ فروشی تک اور ذخیرہ اندوی سے لے کر چور بازاری تک‘بدلحاظی سے لے کر بہتان تراشی تک‘بدتہذیبی سے لے کر زبان درازی تک اور ریفارمز کے نام پر ہونے والی ڈیفامز تک کس کس کا رونا روئیں۔
شخصیت پرستی کے سحر میں مبتلا عوام اپنے اپنے بت اور اپنے اپنے صنم خانے سجائے ان سیاستدانوں کی اندھی تقلید میں اس قدر مصروف ہوچکے ہیں کہ اب تو کچھ سجھائی ہی نہیں دیتا۔ محبوب رہنمائوں کی نیت اور ارادوں سے لے کر دلوں کے بھید بھائو
کھلنے کے باوجود کوئی ہوش میں آنے کو تیار نہیں۔کمال مہارت ہے کہ ان کے ہاتھ اور دامن بھی صاف ہیں اور ملکی خزانہ بھی صاف ہے۔ نہ کسی کو شرمندگی ہے نہ احساسِ ندامت۔
عمران خان کے لانگ مارچ کے بعد انتخابات قبل از وقت ہوتے ہیں یا اپنے وقت پر اس سارے تماشے سے عوام کا کیا لینا دینا۔ یہ میدان عوام کے لیے تھوڑی لگایا گیا ہے۔کوئی حصولِ اقتدار کے لیے عوام کو گمراہ کررہا ہے تو کوئی طولِ اقتدار کے لیے جھانسہ دے رہا ہے۔ یہ سبھی ایک ہی ڈرامے مختلف سین ہیں۔انہیں نہ عوام کی حالتِ زار کی پروا ہے نہ مسائل سے کوئی سروکار۔پون صدی کی بربادیوں اور من مانیوں کا کہیں تو انت ہونا چاہیے۔ ہوسِ اقتدار کے ماروں کے منہ کو عوام کی آسوںاور مجبوریوں کا خون لگ چکا ہے۔ ان کے بیانیوں‘بھاشنوں‘ دعوؤں اور وعدوں کے پیچھے ایک ہی بازگشت سنائی دیتی ہے۔آدم بو‘آدم بو۔ مخصوص خاندان نجانے کتنی نسلوں کو اپنے شوقِ حکمرانی کی بھینٹ چڑھا کر یہ شوق اپنی اگلی نسلوں کو منتقل کر جائیں گے اور عوام کی بوٹیاں اسی طرح نوچی جاتی رہیں گے اور وہ اپنے محبوب رہنمائوں کی پرستش برابر کرتے رہیں گے۔...آوے ای آوے اور... جاوے ای جاوے‘ قدم بڑھائو... ہم تمہارے ساتھ ہیں‘ ...تیرے جانثار بے شمار بے شمارجیسے دلفریب نعرے لگا کر خود فریبی کے ساتھ ساتھ اپنی بربادیوں کی داستانیں رقم کرتے رہیں گے۔
عوام الناس کے لیے قیمتی مشورہ ہے کہ مزید تجربات اور دھوکوں کا شکار ہونے کے بجائے اس سیاسی اکھاڑے میں خود اتر جانا چاہئے۔ جس دن عوام اکھاڑے میں اترآئے سارے درشنی پہلوان اپنے لنگوٹ سنبھالتے سرپٹ بھاگتے نظرآئیں گے۔ اپنے اس مقدمے میں عوام کو خود مدعی اور گواہ بننا پڑے گا۔ طویل قطاروں میں لگ کر انہیں جب جب ووٹ دیا تب تب یہ سماج سیوک نیتا وہی ووٹ کی سیاہی عوام کے مقدر پر ملتے رہے ہیں۔ اس بار قطاریں لگانے کے بجائے کچھ ایسا ضرور ہونا چاہئے کہ یہ سبھی انتخابی امیدوار عوام کے ووٹوں کے منتظر ہی رہیں۔ان کے ڈبے اسی طرح خالی رہیں جس طرح ہر الیکشن کے بعد عوام کے ہاتھ خالی رہتے ہیں۔