"AAC" (space) message & send to 7575

مفادات کا دیوتا

جب عمران خان کے لانگ مارچ میں فائرنگ سے زخمی ہونے والوں کی مرہم پٹی کا عمل جاری تھا اس وقت وقوعہ پر ایک بے یارومددگار لاش پر اس کے معصوم بچے آنکھوں میں خوف اور یہ سوال لیے باپ کے بے جان جسم کے پاس کھڑے تھے کہ ہمیں یتیمی کا روگ کس جرم میں دیا گیا۔ جس مستعدی اور برق رفتاری سے زخمی ہونے والے رہنماؤں کو طبی امدادکے لیے ہسپتال پہنچایاگیاکاش اس پھرتی کاتھوڑا بہت مظاہرہ ناحق مارے جانے والے کو ہسپتال پہنچا کر بھی کرلیا جاتا۔یہ دردناک منظر دیکھ کر یوں لگتا تھا کہ یہاں ایک نہیں دو لاشیں پڑی ہوئی ہیں۔ایک لاش اس کی جو اپنے بچوں کے ساتھ تحریک انصاف کے لانگ مارچ میں اظہارِ یکجہتی کے لیے آیا تھااور دوسری لاش احساس اور اس نظام کی تھی۔سب کو اپنی اپنی جان عزیز تھی۔سبھی اپنی اپنی جان بچانے کے لیے بھاگے چلے جا رہے تھے۔
مملکتِ خداداد کا سیاسی منظرنامہ اس قدر ہولناک ہو چکا ہے کہ کسی بھی حکومت کے لیے ریاستی امور چلانا ممکن نہیں رہا۔ کئی بار کہہ چکا ہوں کہ شوقِ حکمرانی کے ماروں نے وطنِ عزیز کو Governable ہی نہیں رہنے دیا۔ اقتدار کی چھینا جھپٹی میں گتھم گتھا عوام کے درد میں بے تاب نہیں ہیں‘ یہ سبھی بوئے سلطانی کے مارے حصولِ اقتدار کے لیے یا طولِ اقتدار کے لیے مارے مارے پھر رہے ہیں۔ الیکشن کا مطالبہ کرنے والے ہوں یا الیکشن سے بھاگنے والے‘ سبھی ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ سبھی کی حکمرانی کے جوہر عوام دیکھ چکے ہیں۔ ایک دوسرے کی بدترین حکمرانی کے ریکارڈ توڑنے کے سوا کسی نے کوئی توپ نہیں چلائی۔ نہ کسی کے کریڈٹ پر کچھ ہے اور نہ ہی کسی کے پلے کچھ ہے۔وفاقی اور صوبائی حکومت کی رسہ کشی اور ایک دوسرے پر مقدمات کے بعد اعلیٰ انتظامی افسران کا کیرئیر اور نوکریاں بھی داؤ پر لگ چکی ہیں۔چیف سیکرٹری کے بعد آئی جی پنجاب نے بھی کام جاری رکھنے سے معذرت کرلی ہے جبکہ سی سی پی او لاہور کے کیرئیر کے آخری چند ماہ بھی وفاق اور صوبے کی کشمکش کی نذر ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ہر دور میں سرکاری افسران حکمرانوں کی ذاتی خواہشات اور ترجیحات کی بھینٹ چڑھتے رہے ہیں۔اس بار مفادات کا دیوتا شاید ایک آدھ بھینٹ سے راضی ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔خدا جانے مزید کتنے نفرت و انتشار کی نذر ہوں گے۔
معاملہ انتظامی افسران سے نکل کر عسکری اداروں تک جا پہنچا ہے۔تحریک انصاف کا طرزِ سیاست حالات اور ملک کو اس نہج پر لے آیا ہے کہ ہر طرف تشویش اور سہم کا عالم ہے۔سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لیے ہرزہ سرائی اور الزام تراشی کرنے والوں نے ساری حدیں پارکرتے ہوئے لانگ مارچ میں فائرنگ کا الزام بھی ایک اعلیٰ افسر پر لگا ڈالا ہے جوغیر معمولی کارناموں کی وجہ سے ادارے میں جانا مانا جاتا ہے۔سیاستدان ایک دوسرے پر الزامات بھی لگاتے ہیں اور مقدمات کو مضبوط بنانے کے لیے اضافی جھوٹے سچے نام ڈال کر ملزمان کی فہرست طویل کرنے کا ہنر بھی خوب جانتے ہیں اس طرح نہ صرف حریفوں کو مشکل حالات سے دوچار کر ڈالتے ہیں بلکہ اپنے لیے بھی صاف راستے کی فضا ہموار کرلیتے ہیں۔سربلند کو سرنگوں کرنا ہو یا مخالفین کو زیر عتاب رکھنا ہو۔ جھوٹے مقدمات ہماری سیاست کا'حسن‘ ہیں۔کئی بار عرض کر چکا ہوں کہ سیاستدان اپنے گندے کپڑے ضرور دھوئیں لیکن چھینٹے قومی اداروں پر نہ اڑائیں۔اس بار تو چھینٹے اڑانے کے سبھی ریکارڈ توڑتے ہوئے گندے کپڑے ہی لہرانے شروع کردئیے گئے ہیں گویا کوئی جھنڈا ہوا میں لہرا رہے ہو۔
ایک عدالتی فیصلے کے نتیجے میں نواز شریف کو نااہل ہوکر کوئے اقتدار سے نکلنا پڑا تو اپنے اعمال اور الفاظ پر غور کرنے کے بجائے نواز شریف صاحب نے اداروں کے بارے ہرزہ سرائی کو باقاعدہ پالیسی بنا لیا۔ ہر دور میں ووٹر کی تذلیل اور مینڈیٹ کی خرید و فروخت کرنے والوں کو ووٹ کو عزت دلانے کا وہ بخار چڑھا کہ علاج کے نام پر بیرونِ ملک جانے میں ہی عافیت سمجھی۔ اسی طرح عمران خان بھی شاید کسی مغالطے کا شکار ہیں۔ 2018ء کے انتخابات میں وہ کس طرح عوام کے کندھوں پر بیٹھ کر اقتدار میں آئے تھے۔وہ کیا چمتکار تھا کہ الیکٹ ایبلز بھی اپنی پارٹیاں چھوڑ کر تحریک انصاف میں جوق در جوق شامل ہوتے چلے گئے ؟ زمینی حقائق سے آنکھیں چرانے والوں کو حالات اس نہج پر لے آئے ہیں کہ وہ خود پرستی کے سحر میں اس طرح مبتلا ہو چکے ہیں کہ یہ حقیقت بھی تسلیم نہیں کر پا رہے کہ وہ اب اقتدار میں نہیں رہے اور کوئے اقتدارسے وہ کوئی اچانک نہیں نکالے گئے اس کے لیے ان کے کانوں میں زہر گھولنے والے مصاحبین ہوں یا ذاتی رفقا‘ سرچڑھے سرکاری بابوہوں یا قریبی لوگ جن سے جڑی ہوشربا داستانیں اس کا سبب بنیں اور ضد اور ہٹ دھرمی پر مبنی فیصلوں نے انہیں اس مقام پر لاکھڑا کیا کہ جن بیساکھیوں کے سہارے وہ کوئے اقتدار میں داخل ہوئے تھے انہی پر تنقید کرتے نظر آتے ہیں۔ یقینا مردم شناسی میں کہیں بھول یا کوتاہی ہوئی ہوگی کہ خان صاحب آج ایسے شعلے اگل رہے ہیں جن سے لگی آگ شاید وہ خود بھی نہ بجھا پائیں۔ سیاستدان رنگے ہاتھوں پکڑے جانے کے باوجود خود کو دودھ کا دھلا ثابت کرنے کے لیے کیسی کیسی نوٹنکیاں کرتے دکھائی دیتے ہیں۔مکافاتِ عمل کی پکڑ کو کس طرح سیاسی انتقام کا رنگ دینے کے لیے کیسے کیسے ڈھکوسلے اور جواز لیے پھرتے ہیں‘جبکہ ان کا ماضی شاندار‘حال عالیشان ٹھاٹھ باٹھ اور ہوشربا ترقی کا منہ چڑاتے ہیں۔ماں باپ نے نام بشیر احمد رکھا لیکن بشیر احمد نے طے کرلیا تھا کہ وہ اعظم سواتی بنے گا۔ اقاموں سے لے کر اثاثوں اور اور کیش اکاؤنٹس سمیت غیر معمولی ترقی تک کی معلومات پوشیدہ رکھ کر سینیٹر بننے اور سینہ زوری کی کیسی کیسی داستانوں کا بوجھ اٹھائے نجانے ایسے کتنے عوامی نمائندے عوام کا مقدر بنے ہوئے ہیں۔
چلتے چلتے ایک بار پھر باور کرواتا چلوں کہ بغیر ثبوت‘ محض سیاسی فائدے کیلئے اعلیٰ فوجی افسر پر الزام تراشی پاک فوج کے خلاف گھناؤنی سازش سے کم نہیں۔مذکورہ فوجی افسر پروفیشنل سولجر اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پیش پیش رہے ہیں۔کلبھوشن یادیو کو پکڑنے سے لے کربلوچستان اور کراچی کے امن میں ان کا کردار ناقابلِ تردید ہے۔تحریک انصاف کی شعلہ بیانیوں پر جو تیل بھارتی سرکار ڈال رہی ہے وہ ہماری حب الوطنی اور غیرتِ قومی پر سوالیہ نشان ہے۔ہم سیاسی مقاصد کی حصول کی دھن میں اس قدر مست ہو چکے ہیں کہ ہوش ہی نہیں کہ ہمارایہ طرزِ سیاست دشمن ملک اور وطن دشمن دیگر عناصر کے لیے نعمت سے کم نہیں۔ہمارے سیاستدانوں کے بیانیوں کو لے کر پاک فوج کے بارے بھارتی میڈیا میں اٹھائے جانے والے طوفان کو دیکھ کر یہ گماں ہوتا ہے کہ ہمارے رہنما چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے بھارتی عزائم کے ترجمان بن چکے ہیں یا بھارتی میڈیا ان کا۔وردی دہشت گردی کے لیے کل بھی خوف کی علامت تھی اور آج بھی۔ نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کے تحفظ کے علاوہ اندرونی انتشار اور خارجہ محاذ سے لے کر سی پیک جیسے میگا پروجیکٹس کے پیچھے بھی یہی ہے۔ گمراہ کن نعرے لگانے والوں کو خبر ہو کہ ہم سب کی سلامتی اسی وردی سے ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں