من مرضی اور من مانی کا رجحان میری حکومت میری مرضی تک آن پہنچا ہے۔وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی محاذآرائی بدترین انتظامی بحران کی شکل اختیار کرچکی ہے۔وفاقی حکومت پنجاب کو مطلوبہ افسران کی خدمات دینے سے انکاری ہے اور پنجاب حکومت دستیاب افسران سے کام چلانے پر مجبور ہے۔وفاقی حکومت پنجاب میں تعینات افسران پر اپنی فرمائشوں اور مطالبوں کا بوجھ بڑھاتی چلی جارہی ہے جس کی وجہ سے افسران ذہنی دباؤ اور کشمکش کا شکار ہیں۔چیف سیکرٹری کامران افضل نے مزید سینڈوچ بننے کے بجائے رخصت لے کر وفاقی حکومت کی آئے روز کی بے جا فرمائشوں سے جان چھڑوانے کے علاوہ پنجاب حکومت کو وہ کھلا میدان دینے میں عافیت سمجھی جو تخت پنجاب کی خواہش تھی۔ اسی طرح آئی جی پنجاب بھی وفاقی حکومت کو استدعا کرچکے ہیں کہ میں پنجاب میں مزید کام جاری نہیں رکھ سکتا میری خدمات واپس لے لی جائیں لیکن وفاقی حکومت اپنی ضد اور میں نہ مانوں کی پالیسی پر قائم رہی اور انہوں نے بھی رخصت میں ہی عافیت جانی۔ اب یہ عالم ہے کہ ملک کے سب سے بڑے صوبے کے دو انتظامی سربراہ رخصت پر ہیں اور قائم مقام افسران کے ذریعے صوبہ چلانے کی کوشش جاری ہے۔ جہاں چیف سیکرٹری اورآئی جی ایڈہاک پر ہوں وہاں کیا خاک گورننس اور میرٹ قائم رہ سکتا ہے۔
اسی طرح سی سی پی او لاہور کو فرمائشی اقدامات نہ کرنے پر وفاقی حکومت ان کی خدمات واپس لینے کے احکامات جاری کرچکی ہے۔تعجب ہے کہ جو افسران وفاق کو خدمات واپس لینے کی تحریری استدعا کرچکے ہیں ا ن کی خدمات واپس لینے کے بجائے الٹا سی سی پی اوکو ہر صورت واپس بلانے کی ضد اس قدر زور پکڑ گئی کہ جوش میں ہوش گنواتے ہوئے انہیں معطل کرکے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن رپورٹ کرنے کاپروانہ بھی جاری کر ڈالا حالانکہ وفاقی حکومت صوبائی چیف ایگزیکٹو کی مرضی کے برعکس کسی افسر کا تبادلہ کرنے کی مجاز نہیں۔وفاقی سروس ٹربیونل نے وفاقی حکومت کی خواہش پر جاری کیے گئے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے احکامات معطل کرکے اس کھینچا تانی کا باب بندکیا۔ یہ وفاق پاکستان کی اعلیٰ ترین سروس کے لوگ ہیں‘ اسی وطن عزیز کے شہری اورہم سب کی طرح محب وطن ہیں‘ انہیں اچھوت بنانا اور تقسیم کرنا ہر گز مناسب نہیں۔سی سی پی او لاہور کے تبادلے اور معطلی کے احکامات نے لاہور پولیس کی سربراہی کے حوالے سے جو غیر یقینی صورتحال پیدا کی اس کا فائدہ فیلڈ فورس اور ماتحت افسران نے بھی خوب اٹھایا۔اس صورتحال کوغنیمت جان کرڈاکوؤں‘چوروں اور راہزنوں کے علاوہ موسمی وارداتیوں نے بھی خوب موج کی۔شادی کی تقریبا ت ہوں یا شادی بیاہ میں شرکت کے لیے جانے والی فیملیاں۔راہ چلتے شہریوں سے لے کر دکانوں اور مکانوں تک سبھی لوٹنے والوں کے لیے آسان شکار رہے۔تاہم غیر یقینی صورتحال کا فائدہ اٹھانے والوں کو یہ پیغام ضرور پہنچنا چاہیے کہ لاہور پولیس کا سربراہ اپنی جگہ موجود ہے۔
کوئی حکومت انتظامی ٹیم کے بغیر کارکردگی کے چوکے چھکے تو دور کی بات سنگل رن بھی نہیں لے سکتی۔وفاق اور پنجاب کی یہ محاذآرائی اور کھینچا تانی رائٹ مین فار رائٹ جاب کے تصور کی نفی اور دن بدن بدانتظامی میں اضافے کا باعث ہے۔وفاقی حکومت کی طرف سے مطلوبہ افسران کی خدمات نہ ملنے کی وجہ سے گورننس اور میرٹ کی ضد ہونے کے باوجود پنجاب میں کئی افسران کی لاٹری نکل آئی ہے۔ ایسے ایسے پیداواری عہدے ان کے ہتھے لگ چکے ہیں کہ وہ دونوں ہاتھوں سے اپنی دنیا سنوار رہے ہیں۔ ان میں سے کئی افسران سنگین انکوائریوں اور مالی بدعنوانیوں کے علاوہ پیڈا ایکٹ کی پنڈ اٹھائے اکڑی گردن کے ساتھ بغیر کسی شرمندگی کے نازاں اور شاداں ہیں جبکہ کئی تقرریاں اور تعیناتیاں دیکھ کر تودورِ بزدار کے پیداواری چیمپئنز معصوم دکھائی دیتے ہیں۔
حکمران ماضی کے ہوں یا دورِ حاضر کے۔سبھی کی طرزِ سیاست اور طرزِ حکومت نے ایسا کلچر بنا ڈالا ہے کہ عام آدمی کو بھی معلوم ہوتا ہے کہ کس پارٹی کی حکومت میں کون کون سے افسران اہم اور پیداواری عہدوں پر براجمان اور کون کون سے افسران زیر عتاب ہوں گے۔ سیاستدانوں سے وابستگیوں اور وفاداریوں نے سبھی کو آشکار کرڈالا ہے۔برسر اقتدار پارٹی کے حلف اٹھانے سے پہلے منظورِ نظر اعلیٰ افسران کو سلام کرنے والوں کا تانتا بندھ جاتا ہے۔ پرچیاں اور ایڈوانس بکنگ اور سہولت کاری سے لے کر وعدے اور یقین دہانیوں تک سبھی کچھ اسی کلچر کی پیداوار ہے۔ وفاق اور صوبوں کے درمیان محاذآرائی کوئی نئی بات نہیں۔ہماری سیاسی تاریخ کے کئی ادوار ایسے ایسے چونکا دینے والے واقعات سے بھرے پڑے ہیں۔حکومت کسی کی بھی ہو سبھی کی اپنی اپنی انتظامی ٹیمیں اور اپنے اپنے سرچڑھے سرکاری بابو ہیں۔انتظامی قابلیت کے علاوہ سہولت کاری اور پرلے درجے کا درباری ہونے کے ساتھ ساتھ اکثر کردار تو فرنٹ مین بننے سے بھی گریز نہیں کرتے۔
بات بیوروکریسی کی چل رہی ہو تو تنقید کے ساتھ ساتھ ایسے کردار بھی کالم کا حصہ ضروربننے چاہئیں جو ملک میں لگے سیاسی سرکس اور محاذآرائی سے بے پروا ہوکر انتظامی مہارت اور ویژن کی وہ تاریخ رقم کررہے ہیں جس کی توفیق ماضی میں شاید کسی کو نہ ہوئی ہو۔پچھلے ہفتے ضلع دیامیر میں شرپسندوں نے رات گئے لڑکیوں کے سکول پر حملہ کرکے آگ لگادی تو عوام اور انتظامی مشینری نے اسے شرپسندوں کی وہی کارروائی تصور کیا اہلِ علاقہ جس کے عادی ہوچکے ہیں لیکن چیف سیکرٹری گلگت بلتستان نے صبح چھ بجے اپنی انتظامی ٹیم کو 72 گھنٹے کی مہلت دیتے ہوئے ٹاسک دیا کہ ا س سکول کو پہلے سے بہترانداز میں دوبارہ فنکشنل ہونا چاہئے۔ مذکورہ سکول کی تعمیر و بحالی 72 گھنٹے کے اندر نہ صرف ممکن ہوئی بلکہ لائبریری اورآئی ٹی لیب کے اضافہ کے ساتھ یہ سکول تدریس کا عمل جاری رکھے ہوئے ہے جبکہ گلگت بلتستان کے سبھی سکول اور کالجز کی سکیورٹی کو مزید مؤثر بھی بنا دیا گیا۔ ان اقدامات سے امن کے دشمنوں کو بروقت نہ صرف جواب ملا ہے بلکہ ان کے لیے کھلا پیغام بھی ہے کہ شرپسندوں کی بزدلانہ کارروائی دن کی روشنی میں ہو یا رات کے اندھیرے میں‘ انتظامیہ جاگ رہی ہے۔جدید علوم سے لے کر ہنر سکھانے تک سکولوں میں بچوں کے طبی معائنے سے لے کر کھیلوں کی صحتمندانہ سرگرمیوں سمیت غیر نصابی سرگرمیوں کے دیگر پروگرامز شروع کروانے تک صوبائی انتظامیہ کی غیر معمولی دلچسپی اہل ِعلاقہ کے لیے نعمت ہوتی ہے۔ دیگر شعبہ جات میں غیر معمولی اقدامات پر قلم آرائی کی جائے تو یقینا ایک آدھ کالم تو ضرور درکار ہوگا‘ تاہم ملک بھر میں لگے سیاسی سرکس اور انتظامی مشینری کی تقسیم سمیت کھینچا تانی کے کلچر سے کہیں دور بیٹھا یہ شخص اپنی دھن میں مگن ہے۔
چلتے چلتے ان سرکاری افسران کے لیے مفید مشورہ پیش خدمت ہے کہ وہ ایک باوقار اورقابلِ فخر سروس کا حصہ ہیں۔ ترقیاں اور تقرریاں سبھی کا استحقاق ہے۔ جلد یا بدیر سارے مراحل طے شدہ قواعد کے مطابق طے ہوہی جاتے ہیں۔ حکمرانوں کی چمچہ گیری یا سہولت کاری کے ساتھ کیرئیر کے سفر کو پہیے تو ضرور لگ جاتے ہیں ایک آدھ ایسی پوسٹنگ بھی مل جاتی ہے کہ اقربا پروری اور بندہ پروری کے علاوہ دنیا بھی سنور جاتی ہے لیکن اس کی قیمت چکانے کے لیے بعض اوقات عزت سادات گنوانے کے ساتھ ساتھ نجانے کیا کچھ ہاتھ سے جاتا ہے‘لہٰذابے صبری کے بجائے پیشہ ورانہ صلاحیتوں پر فوکس کیا جائے تو پانی اور خوشبو کا راستہ کون روک سکتا ہے۔ ایسے کئی کردارحکمرانوں کے ہاتھوں استعمال ہونے کے بعد پھرتے ہیں میر خوارکوئی پوچھتا نہیں کے تصویر بنے پھرتے ہیں۔