گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ عمران خان پر کوئے سیاست کے اسرار و رموز اور بھید بھاؤ آشکار ہونا شروع ہو چکے ہیں۔ اُن کی جماعت کے ہی کچھ رہنما یہ تصدیق کر چکے ہیں کہ صدرِ مملکت عارف علوی نے عمران خان کو ''سرخ لکیر‘‘ سے خبردار کردیا ہے اور یہ کہ اب مقتدرہ پر تنقید کا سلسلہ رُک جانا چاہیے۔ عمران خان کے بیانیے ہوں یا جلسے جلوسوں میں کی جانے والی شعلہ بیانیاں‘ اِس جارحانہ طرزِ سیاست کے نتائج نہ صرف سامنے آچکے ہیں بلکہ تحریک انصاف بھگت بھی رہی ہے۔ ایک طرف صوبائی اسمبلیاں توڑنے کا اعلان کیا جا چکا ہے تو دوسری طرف پنجاب کابینہ میں نئے وزیر بھی شامل کیے جارہے ہیں۔ سسٹم بچانے اور مزید سیاسی بحران سے بچنے کے لیے حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مصالحت کی کوششیں بھی جاری ہیں۔ دونوں طرف کے سیاسی پنڈت سرگرم ہیں اور اُن کے درمیان ملاقاتیں بھی ہو رہی ہیں۔ تحریک انصاف کی اعلیٰ قیادت کی طرف سے لچک کی امید بعید ازقیاس ہرگز نہیں ہے کیونکہ اُس کے پاس خوب کو ناخوب اور ناخوب کو خوب قرار دینے کے لیے بنے بنائے جواز ہروقت موجود رہتے ہیں۔
چودھری شجاعت حسین منتظر ہیں کہ کب عمران خان مذاکرات اور مصالحت کے لیے راضی ہوں اور وہ کب وزیراعظم سے بات کریں۔ چودھری صاحب مفاہمت کی سیاست اور صلح جوئی کے قائل ہیں۔ ان کی یہی کوشش ہے کہ چلتے ہوئے سسٹم کو لپیٹنے کے بجائے اسمبلیوں کو اپنی مدت پوری کرنی چاہیے۔ یہ منظر نامہ صورحال کو روز بروز غیریقینی اور غیر مستحکم کرتا چلا جارہا ہے جبکہ مصلحتوں اور مجبوریوں میں بندھے ہوئے سبھی حلیف سمجھوتوں کی سیاست پر مجبور ہیں۔ شنید ہے کہ پی ٹی آئی کے ایک سینیٹر کو تحفظات ہیں کہ چودھری پرویز الٰہی اور مونس الٰہی کا بیانیہ پی ٹی آئی مخالف ہے اور یہ کہ چودھری صاحبان کی سیاست کا جھکاؤ طاقتوروں کی جانب ہے۔ اس تناظر میں سبھی ایک دوسرے سے شاکی اور گزارے پر مجبور نظر آتے ہیں۔ یہ سیاست عجب بے رحم کھیل ہے۔ حریف سے حلیف اور حلیف سے حریف بنتے ذرا دیر نہیں لگتی۔ مفادات کے مارے وفاداریاں تبدیل کرنے کی توجیہات اور جواز لیے نازاں اور اترائے پھرتے ہیں۔
عمران خان نئے انتخابات کی تاریخ لینے کے لیے لانگ مارچ لے کر نکلے تھے لیکن کے پی اور پنجاب اسمبلی تحلیل کرنے کا اعلان کرکے راولپنڈی سے ہی لوٹ آئے۔ پی ٹی آئی کے سرکردہ رہنما عمران خان کے اس بیانیے سے گھبرائے ہوئے دکھائی دیتے ہیں لیکن وہ اپنے چیئرمین کی طرزِ سیاست کی حمایت پر مجبور ہیں۔ اکثر کا خیال ہے کہ پنجاب حکومت سے نکلنے کے بعد ساری گیم وفاقی حکومت کے ہاتھ میں آجائے گی جس کے نتیجے میں انہیں نت نئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ کے پی اور پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت ہونے کی وجہ سے وہ وفاقی حکومت کو جس طرح ٹف ٹائم دے رہی ہے‘ اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد تحریک انصاف موجودہ پوزیشن سے محروم اور انتظامی طور پر وفاقی حکومت کے رحم و کرم پر آسکتی ہے؛ تاہم جہاں پی ٹی آئی کے اندر ایک کشمکش اور مباحثہ جاری ہے وہاں اسمبلیاں تحلیل کرنے کے حوالے سے عمران خان کا یہ اعلان پی ٹی آئی کی اتحادی جماعت مسلم لیگ (ق) کیلئے کسی نعمت سے ہرگز کم نہیں۔ عمران خان کے اس اقدام کا پی ٹی آئی کو کیا سیاسی فائدہ پہنچتا ہے‘ اس کا فیصلہ تو آنے والا وقت ہی کرے گا لیکن پنجاب اسمبلی تحلیل ہونے کی صورت میں چودھری صاحبان فیصلہ کن پوزیشن پر آتے دکھائی دیتے ہیں۔ عام انتخابات سے قبل پنجاب اگر انتخابی اکھاڑا بنتا ہے تو متوقع صورتحال چودھری پرویزالٰہی کے لیے نسبتاً زیادہ موافق ہو سکتی ہے۔
وزارتِ اعلیٰ کے امیدوار پرویز الٰہی ہوں یا ان کے صاحبزادے مونس الٰہی‘ دونوں صورتوں میں مسلم لیگ (ق) عمران خان سے بہتر ڈیل کی پوزیشن میں ہوگی‘ بالخصوص مونس الٰہی کے معاملے میں عمران خان کا رسپانس خاصا مثبت ہو سکتا ہے کیونکہ تختِ پنجاب کے سیاسی معرکے میں چودھری صاحبان کا کردار ناقابلِ تردید اور غیرمعمولی رہا ہے۔ یہ حقیقت بھی ناقابلِ تردید ہے کہ چودھری پرویز الٰہی کے بجائے وزارتِ اعلیٰ کا امیدوار اگر پی ٹی آئی سے ہوتا تو حالات اور پنجاب کا سیاسی منظر نامہ شاید پی ٹی آئی کے حق میں اس طرح نہ ہوتا۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے کی حکومت کو (ن) لیگ سے چھیننا کوئی آسان ہدف نہ تھا۔ عثمان بزدارکے خلاف عدم اعتماد کے نتیجے میں اقتدار پی ٹی آئی کے ہاتھ سے نکل کر مسلم لیگ (ن) کے پاس جانے کے بعد جس مشکل صورتحال سے تحریک انصاف کی قیادت دوچار ہوتی چلی جارہی تھی‘ اس کا ڈٹ کر مقابلہ اور خاتمہ‘ پی ٹی آئی کے بجائے (ق) لیگ نے ہی کیا تھا۔
اس طویل تمہید اور تھیوری کا مقصد صرف اتنا ہے کہ واقفانِ حال اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ خان صاحب کا کوئی بیانیہ اور پالیسی مستقل اور حتمی نہیں ہوتی۔ لمحۂ موجود سے فائدہ اٹھانے والے ہی فائدے میں رہے ہیں۔ کون جانے کہ آنے والے کل میں ان کے رویہ اور موڈ کیسا ہو۔ اگر قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک وقت میں ہوتے ہیں تو فیصلے اور بالخصوص صوبائی حکمرانوں کی نامزدگی عمران خان کے موڈ اور لمحۂ موجود کے عین مطابق ہوگی۔ دور کی کوڑی لانے والے یہ تاثر بھی اجاگر کررہے ہیں کہ چودھری صاحبان عمران خان کے بیانیے اور طرزِ سیاست کی وجہ سے شدید مشکل صورتحال سے دوچار ہیں اور پنجاب اسمبلی تحلیل ہونے کی صورت میں ان کی سیاست اور پوزیشن کو شدید دھچکا لگ سکتا ہے۔ ان سیاسی پنڈتوں اور جغادریوں کو کیا معلوم کہ پنجاب اسمبلی تحلیل ہونے اور اگلے انتخابات میں مطلوبہ نتائج فراہم کرنے کی صورت میں مونس الٰہی عمران خان سے بدلے میں وزارتِ اعلیٰ کا مطالبہ بھی کر سکتے ہیں۔ پی ٹی آئی کی مقبولیت کے تڑکے کے ساتھ پرویز الٰہی واحد شخصیت ہیں جو انتخابی نتائج میں عمران خان کے ہدف کو چھو سکتے ہیں کیونکہ تحریک انصاف کی صوبائی قیادت میں ورکنگ ریلیشن شپ کے فقدان کے علاوہ سبھی ایک دوسرے کے ناقد اور شاکی رہتے ہیں۔ ان سے نتائج کی امید لگانا نتائج کو داؤ پر لگانے کے مترادف ہے۔ ایسے میں پرویزالٰہی ہی مسلم لیگ (ن) کے انتخابی ہتھکنڈوں سے واقف سیاستدان ہیں جو انہیں کاؤنٹر بھی کر سکتے ہیں۔
چلتے چلتے خاصے کی بات بتاتا چلوں کہ اگر ملک بھر میں انتخابات ایک شیڈول کے تحت ہوتے ہیں اور عمران خان وفاق میں حکومت بنانے کی پوزیشن میں آجاتے ہیں تو عین ممکن ہے کہ وہ پنجاب میں حکمرانی کے لیے پھر کوئی عثمان بزدار جیسا نیا سرپرائز دے ڈالیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ ان کے فیصلے اور پالیسیاں وقت کے ساتھ بدلتی رہتی ہیں۔ تحریک انصاف میں تو جان اور مال لٹانے والوں کو فراموش کرنے میں دیر نہیں لگائی جاتی‘ چودھری صاحبان نے تو صرف سیاسی تعاون ہی فراہم کیا ہے جس کا بھگتان تحریک انصاف اپنے تئیں وزارتِ اعلیٰ دے کر کر چکی ہے۔ تحریک انصاف کی اعلیٰ قیادت پر انحصار ضرور کریں لیکن کھلی آنکھ کے ساتھ ماضی کے وہ کردار بھی یاد رکھیں جن کا تحریک انصاف کی طویل جدوجہد سے لے کر اُس کے برسراقتدار آنے اور خان صاحب کو وزیراعظم بننے تک کردار ناقابل تردید رہا ہے۔ جہانگیر خان ترین اور علیم خان سمیت نجانے کتنے ایسے ہیں جن سے سبق حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ایسے میں ایک شعر بے اختیار یاد آرہا ہے۔
میں جس سے پیار کرتا ہوں
اسی کو مار دیتا ہوں
اس پیار سے بچنا ہی حکمت اور عافیت ہے۔ مسلم لیگ (ق) کے لیے مفت مشورہ ہے کہ عافیت اسی صورت ممکن ہے کہ تحریک انصاف کی قیادت کے آگے ضرورت مند بننے کے بجائے قبل از وقت پنجاب اسمبلی کے انتخابات کروا کر اس کی ضرورت بنی رہے۔