سیاست میں ڈرامائی تبدیلیاں رونما ہونے ہو رہی ہیں۔شنید ہے کہ چودھری برادران میں جہاں دوریاں ختم ہورہی ہیں وہیں نواز شریف سے قربتوں میں اضافہ بھی ہو رہا ہے۔ عمران خان کا طرزِ سیاست اتحادیوں کے لیے روز نئی آزمائش کا باعث ہے۔اسی ماہ اسمبلیاں توڑنے کا ایک اور اعلان کر تے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب چاہتے ہیں کہ حکومت تھوڑی اور چلنی چاہئے لیکن جیسا میں کہوں گا وہ ویسا ہی کریں گے۔خدا جانے وہ کس گمان میں ہیں کہ وزیر اعلیٰ پنجاب چپ چاپ ان کے فیصلوں پر سر تسلیم خم کرتے چلے جائیں گے اور وزارتِ اعلیٰ کے مطالبے سے بھی دستبردار رہیں گے۔ خان صاحب کے سیاسی فیصلے ہوں یا حکومتی قدامات سبھی مفروضے اور مغالطے ہی ثابت ہوتے چلے جارہے ہیں۔ساڑھے تین سالہ دورِ اقتدار میں وزارتوں میں ریکارڈ رد وبدل کے علاوہ ایف بی آر سمیت ملک کے سب سے بڑے صوبے کی پولیس اور انتظامی سربراہان کی پے در پے تبدیلیاں ہوں یا بیانیوں سے پھرنا‘ مگرحالتِ جنگ میں سوار کون بدلتا ہے‘ لیکن خان صاحب کی افتادِ طبع نے تحریک انصاف کو مسلسل جوابدہی اور جگ ہنسائی سے دوچار کیا ہے۔نامعلوم اہلیت کے حامل مشیراورمصاحبین کی وجہ سے ریفارمز کے نام پر ڈیفارمز کا کوہ ہمالیہ بنانے والوں نے ان کی مقبولیت کو اس بلندی سے زمین پر لاپھینکا تھا کہ وزرااور ارکانِ اسمبلی اپنے حلقوں میں جانے سے گھبراتے تھے۔یہ بحث بھی عام تھی کہ آئندہ عام انتخابات میں تحریک انصاف کاٹکٹ کون اور کیونکر لے گا۔عمران خان کو تو پی ڈی ایم کا شکرگزار ہونا چاہئے کہ اگر وہ عدم اعتماد نہ لاتے توان کی تیزی سے گرتی ساکھ اور مقبولیت کو سنبھالا کیسے ملتا۔بیرونی سازش کا بیانیہ سپرہٹ کیسے ہوتا۔ناخوب‘ خوب کیسے ہوتا۔خدا جانے پی ڈی ایم کی قیادت کو یہ مشورہ کس نے دیا یا حصول اقتدار کے لیے وہ اس قدر بیتاب کیوں تھے کہ ہاتھ آیا موقع گنوا ڈالا۔ عمران خان قومی اسمبلی تو تحلیل کر ہی چکے تھے‘ ان کا شکریہ ادا کرتے اور نئے انتخابات کا مطالبہ کرتے توپی ٹی آئی کوانتخابی امیدواروں کے لیے شاید اعلان کروانا پڑتا۔سرکاری وسائل کی بندر بانٹ‘ اہم پیداواری عہدوں کی بولی اور خالی باشنوں کے ساتھ فرضی اعداد وشمار کاگورکھ دھندا کرنے والے وزیر اور مشیر اپنی دنیا سنوارتے رہے۔تختِ پنجاب پر براجمان خان صاحب کے چیمپئن نے تو تخت کی چولیں ہی ہلا ڈالیں۔چند وزیروں اور مشیروں کے علاوہ سرچڑھے سرکاری بابو خان صاحب کے کانوں میں وہ زہر گھولتے رہے کہ سارا ماحول ہی زہریلا بنا ڈالا۔احتساب کے نام پر جو کھلواڑ ملکی وسائل کے ساتھ کیا گیا اس کے بعد تو جزا اور سزا سے عوام کا اعتماد ہی اُٹھ چکا ہے۔بھاری اخراجات سے بنائے گئے مہنگے کیسز والے سبھی سستے چھوٹ گئے اور اب یہ عالم ہے کہ زندان سے ایوان کا سفر یوں طے ہوا کہ سبھی احتساب مقدمات کے اسیر حکمرانی کے مزے لوٹ رہے ہیں۔
رنگے ہاتھوں کے باوجود سبھی ہاتھ اور دامن صاف ہونے کے کیسے کیسے جواز گھڑتے نظر آتے ہیں‘مکافاتِ عمل اور قانون سے فرار سبھی ایک ایک کرکے وطن لوٹ کر کلین چٹ کے ساتھ نئی لوٹ مار کا سامان کررہے ہیں۔
قدرت نے خان صاحب کو حکمرانی کا جوموقع عطا کیا تھا انہوں نے اس عطا کو اپنی افتاد کی بھینٹ چڑھا ڈالا۔ اپنے ہی فیصلوں اور الزامات کی نفی کرتے ہوئے کبھی اپنے منصب کا لحاظ بھی نہ کیا۔نامعلوم اہلیت کے حامل افراد کا وہ ہجوم ارد گرد لگائے رکھا کہ اہل اور میرٹ پر آنے والے بتدریج بددل اور ہوکر پس منظر میں چلے گئے۔ساری پالیسیاں اور فیصلہ سازی سمیت اہم سرکاری ادارے بھی انہی کے رحم و کرم پر تھے جن سے شاید اُن کے گھر والے بھی مشورہ لینا پسند نہ کرتے ہوں۔ایسے میں بس یہی کہا جاسکتا ہے کہ
وہ جو کہتا تھا کچھ نہیں ہوتا
اب وہ روتا ہے چپ نہیں ہوتا
عمران خان ماضی میں چودھری پرویز الٰہی سے نالاں اور ان کے بارے میں نامناسب الفاظ استعمال کرتے رہے ہیں۔ دورِ بزدار کی مسلسل بربادیوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال میں جب تخت پنجاب (ن) لیگ کے ہاتھ لگ گیا تو خان صاحب کو چودھری پرویز الٰہی کی اہمیت اور ضرورت محسوس ہوئی اور انہوں نے انہیں وزارت اعلیٰ کے لیے نامزد کیا۔ یہ حقیقت بھی ناقابلِ تردید ہے کہ تختِ پنجاب کے معرکہ میں وزارت اعلیٰ کا امیدوار اگر تحریک انصاف سے ہوتا تو (ن )لیگ سے اقتدار واپس لینا ممکن نہ تھا۔ آج تحریک انصاف پنجاب میں حکمران اور پی ڈی ایم کی جوابی انتقامی کارروائیوں اور جبر سے محفوظ ہے تواس کا کریڈٹ بھی چودھری صاحبان ہی کو جاتا ہے۔ایسے میں کوئی اگر اس گمان میں ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب ہر فیصلے پر سرخم تسلیم کریں گے اور آئندہ وزارتِ اعلیٰ کا مطالبہ بھی نہیں کریں گے تو خاطر جمع رکھیں کہ ساری خوش فہمیاں اور سارے گمان دھرے کے دھرے رہ جائیں گے۔عمران خان کو یہ حقیقت قطعاً نظر انداز نہیں کرنی چاہئے کہ کوئے سیاست میں کل کے حریف آج کے حلیف اور آج کے حلیف کل کے حریف بنتے دیر نہیں لگتی۔مسلم لیگ (ق) حلیف ضرور ہے لیکن سیاست اور مجبوریاں سبھی کی اپنی اپنی ہیں۔اپنی اپنی ترجیحات کے ساتھ مستقبل کا منظر نامہ خان صاحب کی خواہشات سے مختلف بھی ہوسکتا ہے۔چودھری برادران میں دوریاں ختم اور نواز شریف سے نزدیکیاں خان صاحب کی توقعات کے برعکس حالات کا پیش خیمہ ہوسکتی ہیں۔چودھری برادران کی دوریوں کو حتمی دوریاں سمجھنے والے سیاست کی ا لف بے سے بھی واقف نہیں۔حالات اور موقع کی نزاکت کے تحت اختیار کی جانے والی دوریاں محض وقتی ہوتی ہیں۔ مصلحت اور حکمت عملی سے ہی بہترین سیاسی نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ اس حوالے سے مملکتِ خداداد میں تاک تاک کر نشانہ لگانے سے لے کر کھلی آنکھ سے ترپ کا پتا کھیلنے میں آصف علی زرداری اور چودھری برادران کا کوئی ثانی نہیں۔
چلتے چلتے عرض کرتا چلوں کہ چودھری برادران کا وزن اس بار پھر فیصلہ کن ہے۔وہ نواز شریف کے پلڑے میں ہو یا عمران خان کے‘ دونوں صورتوں میں ان کی اہمیت اور افادیت ناقابلِ تردید ہے۔انہیں خان صاحب پر یہ ضرور واضح کردینا چاہئے کہ انہیں خدمات کے صلے کے بجائے اگر اسی رویے کا سامنا کرنا پڑا جو خان صاحب ماضی کے ساتھیوں کے ساتھ کرتے رہے ہیں تو ان کے پاس بھی آپشنز ہیں۔ مزید وضاحت کے لیے چند شعر پیش خدمت ہیں۔
یہ مطالبوں کا خلوص ہے
یہ ضرورتوں کا سلام ہے
اسے اپنے کام سے کام ہے
مجھے اپنے کام سے کام ہے
یہ نوازشیں نہیں بے غرض
انہیں آپ سے کوئی کام ہے