خدا جانے حکمرانوں سمیت تمام سیاستدان کس کیفیت میں بیان داغ دیتے ہیں۔ زمینی حقائق اور اصل واردات سمیت اپنی نیت اور ارادوں کو جانتے بوجھتے بھی کیسے انجان اور مظلوم بنے پھرتے ہیں۔ کس کس کا رونا روئیں۔ کس کس کی دہائی دیں۔ یہ کسی ایک دور یا ایک حکمران کا کیس نہیں بلکہ پون صدی میں مملکت خداداد میں شوقِ حکمرانی پورا کرنے والے سبھی حکمران ایک سے بڑھ کر ایک اور نہلے پہ دہلا ثابت ہوئے ہیں۔ وہ ایک دوسرے کی بدترین طرزِ حکمرانی کے ریکارڈ توڑ رہے ہیں۔ اب تو ان کے بیانات اور اعلانات سن کر ہنسی بھی نہیں آتی۔ تازہ ترین بیان وزیراعظم کا ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ تمام وزارتیں اخراجات پر قابو پائیں۔ حالانکہ بوئے سلطانی کے مارے صرف اپنی خواہشات اور ناختم ہونے والی حسرتوں پر قابو پالیں تو ایسی ہدایات جاری کرنے کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ ویسے بھی وزارتیں کب ایسے احکامات کی پروا کرتی ہیں۔ انہیں بھی ان شعبدہ بازیوں کا بخوبی علم ہے۔ ضرورت مندوں کے اس کلب میں سبھی کی ضرورتیں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں۔ گویا وِچوں وِچوں کھائی جا‘ اُتوں رولا پائی جا۔
ایک اور پرانی واردات کا نیا ایڈیشن سامنے آیا ہے جس میں شکر قندی والے کے نام سے اربوں روپے کی ٹرانزیکشن پکڑی گئی ہے۔ 33کروڑ روپے کی ٹیکس چوری کا نوٹس دیکھ کر ایک غریب شہری کو غشی کے دورے جاری ہیں۔ قبل ازیں فالودے والے سمیت مقصود چپڑاسی‘ ڈرائیوروں اور خانساموں کے نام پر ارب ہا روپے کی ٹرانزیکشن کے اصل بینی فشریز کا کسی نے کیا بگاڑ لیا تھا جو اب کچھ ہو سکے گا۔ اصل چہرے کل بھی محفوظ تھے‘ آج بھی محفوظ ہیں اور آئندہ بھی محفوظ ہی رہیں گے۔ شکر قندی‘ فالودہ اور غبارے بیچنے والوں کو ایف بی آر کے نوٹس دیکھ کر دن میں تارے نظر آتے رہیں گے۔ جہاں احتساب کرنے والے ہی کالے دھن کی لانڈرنگ پر مامور ہو جائیں تو دیگر داغدار دامن بھی اس دھوبی گھاٹ پر دھلائی کے بعد اجلے اور کلین چٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ ایسے میں کالے دھن سے خریدے گئے چم چم کرتے جوتے‘ بیش قیمت گھڑیاں اور پوشاکیں پہنے‘ بناؤ سنگھار کرکے سبھی حکمرانی کے مزے برابرکیوں نہ لیں۔
ملک بھر میں لگے تماشے نے نفرت اور انتشار کی ایسی فضا بنا ڈالی ہے کہ انگار وادی کا گماں ہوتا ہے۔ پارلیمنٹ غیر مؤثر ہوتی نظر آ رہی ہے۔ تحریک انصاف کے ممبران استعفے دینے کے باوجود سرکاری رہائش گاہوں اور تنخواہوں پر موجیں مار رہے ہیں۔ پنجاب اور کے پی اسمبلی کو تحلیل کرنے کا اعلان بس ہوا چاہتا ہے۔ حکمران اتحاد کے صدر عارف علوی سمیت دیگر سے مذاکرات کے سیشن پر سیشن جاری ہیں۔ تحریک انصاف حصولِ اقتدار کے لیے قبل از وقت انتخابات کے لیے بضد ہے جبکہ پی ڈی ایم حکومت طول اقتدار کے لیے قبل از وقت انتخابات سے گھبرائی نظر آتی ہے۔ دور کی کوڑی لانے والے اسمبلیوں کی مدت میں توسیع کے لیے جگاڑ اور تھیوری پلانٹ کرنے ہی والے تھے کہ عمران خان نے اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اعلان کرکے پلان ہی چوپٹ کرڈالا۔ قارئین! یہ سیاسی دنگل‘ آپس میں گتھم گتھا اور دست و گریباں ایک دوسرے کے پول کھولتے سیاستدان‘ یہ تماشا عوام کے درد میں نہیں لگائے ہوئے۔ انہیں ملک و قوم سے کوئی سروکار ہے نہ کوئی غم۔ اس سیاسی کشتی میں سبھی درشنی پہلوان اس اقتدار کے لیے لڑرہے ہیں جس کی لت ان سبھی کو لگ چکی ہے۔ ان سبھی کی حالت اور ریکارڈ گواہ ہے کہ یہ اقتدار میں ہوتے ہیں تو ان میں بجلی بھر جاتی ہے۔ ان کی آنیاں جانیاں دیکھنے والی ہوتی ہیں۔ اقتدار سے نکلتے ہی ان کے ہاتھوں پہ رعشہ طاری ہو جاتا ہے‘ ٹانگیں کپکپانے لگتی ہیں اور یہ سبھی بیمارِ سیاست بنے نظر آتے ہیں۔ یہ نوٹنکی دیکھتے دیکھتے نسلیں بدل چکی ہیں لیکن یہ ڈرامہ بدستور جاری و ساری ہے۔ باپ کی جگہ بیٹا اور دادا کی جگہ پوتا اسی ڈھٹائی اور رٹے رٹائے اور گھسے پٹے سکرپٹ کے ساتھ شعبدہ بازی کرتا نظر آتا ہے۔
پون صدی بیت گئی وہی خاندان‘ وہی چہرے‘ وہی جھانسے‘ وہی دھوکے پارٹی اور وفاداری کی تبدیلی کے ساتھ ملک و قوم پر مسلط ہیں۔ انتخابات قبل از وقت ہوتے ہیں یا طے شدہ وقت پر۔ دونوں صورتوں میں بینی فشری یہی سیاستدان ہوں گے۔ کچھ اقتدار میں ہونے اور کچھ اپوزیشن میں بیٹھ کر اسی ڈرامے کا ایکشن ری پلے چلائیں گے جو ہر دور میں ہمارے سیاسی تھیٹر میں چلایا جاتا ہے۔ نہ طرزِ حکمرانی بدلے گی‘ نہ ان کے نیت اور ارادے۔ گورننس شرمسار اور میرٹ تار تار اسی طرح ہوتا رہے گا جو ان سبھی کی حکمرانی کا خاصہ ہے۔ الیکشن پہلے بھی ہوتے رہے ہیں آئندہ بھی ہوتے رہیں گے۔ یہ سبھی آتے جاتے اور موجیں مارتے رہیں گے۔ عوام اسی طرح رلتے اور روتے پیٹتے رہیں گے۔ یہ سبھی جیتتے اور عوام ہارتے رہیں گے۔ یہ سبھی اپنا جال ایک بار پھر پھینک چکے ہیں اور عوام اس جال میں پھر پھنسنے کو تیار ہیں۔ حالات مزید پریشان کن اور بھیانک ہونے جارہے ہیں۔ مہنگائی اور گرانی سے معاملہ نکل کر بدحالی اور مزید بدحالی کی طرف چل نکلا ہے۔
برسراقتدار کوئی بھی آئے‘ اپوزیشن کسی کی بھی ہو‘ حکومت عوام کے مسائل اور حالتِ زار پر توجہ تو درکنار سوچنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرے گی۔ اپوزیشن عوام کے غم میں نہیں اقتدار سے محرومی کے درد میں واویلا کرتی نظر آئے گی۔ 1970ء کا الیکشن مملکت خداداد میں وہ واحد الیکشن تھا جس میں جانبداری اور دھاندلی کا کوئی الزام نہیں لگا لیکن عوامی مینڈیٹ اور زمینی حقائق کے برعکس ضد اور ہٹ دھرمی ایسا قومی سانحہ بنی کہ ملک ہی دولخت ہوگیا۔ گویا غیرجانبدار انتخابات کی قیمت آدھا ملک گنوا کر چکائی تو شفاف الیکشن سے ایسے خوفزدہ ہوئے کہ ہر عام انتخابات میں دھاندلی اور جانبداری کا برابر الزام لگنے کو ہی عافیت سمجھنے لگے۔ ملک ٹوٹنے کے اس قومی المیے سے سبق اور عبرت لینے کے بجائے سیاسی اشرافیہ نے ایسا گٹھ جوڑ کیا کہ آئین اور قانون سمیت سبھی کچھ توڑ ڈالا۔ ضابطے اور اخلاقیات تک کو بھی معاف نہیں کیا۔ توڑنے والوں نے کیا کچھ نہیں توڑا۔ عوام کے خواب اور آس امیدوں کے ساتھ ساتھ انہیں آپس میں بھی اس طرح توڑا کہ پوری قوم بکھری اور ٹکڑوں میں بٹی دکھائی دیتی ہے۔ سبھی اپنے اپنے سچ کے ساتھ جھوٹ کا وہ بیوپار کررہے ہیں کہ سیاہ اور سفید کے فرق سے لے کر جھوٹ اور سچ کی تمیز بھی جاتی رہی۔ پوری قوم اپنے اپنے چور اور اپنے اپنے رہنما کے پیچھے ایسی بھیڑ چال کا شکار ہے کہ اسے روایتی سیاسی نعروں کے سوا کچھ یاد نہیں۔ کہیں بیانیوں کا چورن بک رہا ہے تو کہیں جھانسوں کی پھکی دی جارہی ہے۔ عوام کو چورن اور پھکی کے علاوہ دھوکوں اور بے وفائی کی وہ لت پڑ چکی ہے کہ ہر الیکشن میں اپنے ہی ہاتھوں ووٹ کی سیاہی اپنے مقدر پر مل ڈالتے ہیں۔
ہنر مندانِ آئین و ریاست کو چاہیے کہ شفاف انتخابات کے برسوں پرانے خوف سے باہر نکلیں یا نہ نکلیں لیکن ایسے انتخابات کس کام کے۔ یہ جمہوریت کا کیسا حسن ہے کہ جس کے جلووں سے ملک و قوم مسلسل گہنائے چلے جارہے ہیں۔ 75برس سے بربادیوں اور اجاڑوں کی اس داستان میں ایسے نئے باب کا اضافہ ضرور ہونا چاہیے جس میں مملکت خداداد کے اصل بینی فشری ہونے کے باوجود ملک و قوم کے مجرموں کو قومی دھارے میں لانے کے بجائے تلوار کی اس دھار پر چلایا جا سکے جسے مکافاتِ عمل یا جیسی کرنی ویسی بھرنی سے منسوب کیا جا سکے۔ ایسے میں منیر نیازی کا ایک شعر حسبِ حال ہے:
منیرؔ اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ