عمران خان نے اسمبلی تحلیل کرنے کے لیے جمعہ23 دسمبرکا انتخاب کسی موافقت کے زیر اثرکیا ہو یا سیاسی وانتظامی وجوہات کے تحت‘ دونوں صورتوں میں راہ ِفرار ہی نظر آتا ہے۔اقتدار سے کیا نکالے گئے قومی و صوبائی اسمبلیوں سے دل ہی اچاٹ ہوگیا‘گویا اقتدار میں ہوں تو پارلیمان کی بالادستی کی مالا جپیں اوراقتدار میں نہ ہوں تو پارلیمانی اپوزیشن کا کردار ادا کرنے کے بجائے دمادم مست قلندر کریں۔(ق) لیگ سے سیاسی تعاون کے علاوہ اقتدار کی قربانی بھی مانگ لی۔ پہلے بھی عرض کرچکا ہوں کہ نازک دور اور نازک موڑ کا ڈھکوسلا سیاستدانوں کے سامنے منہ چڑاتا ہوا آن کھڑا ہے۔ انہوں نے مل کر مملکتِ خداداد کواس مقام پر لاکھڑا کیا کہ سچی مچی نازک موڑ آگیا۔حالات کی سنگینی کا احساس کرنے کی بجائے خدا جانے یہ کسی مغالطے کا شکار ہیں یا اپنی نہ ختم ہونے والی خواہشات کے ہاتھوں اس قدر مجبورہوچکے ہیں کہ انہیں زمینی حقائق نظر آنا ہی بند ہوچکے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ انہیں کچھ سجھائی نہیں دے رہا کہ آنے والے حالات اورکڑا وقت ان کے پاؤں کی بیڑیاں بننے جا رہے ہیں۔ اقتدار کی چھینا جھپٹی سے سیاست دانوں کے اپنے چند دن تو اچھے گزرسکتے ہیں لیکن ملک و قوم اچھے دنوں سے مزید دور ہوتے چلے جارہے ہیں۔
ماہر تعمیربھلے کتنا ہی ہائی ٹیک اور جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیوں نہ ہو لیکن تعمیراتی مسالا (سیمنٹ‘ ریت‘ بجری) کے تناسب اور اینٹ کے معیار کی بنیادی اہمیت ہوتی ہے۔ابتدائی اینٹیں ہی جب ٹیڑھی اور غیر متوازن رکھ دی جائیں تو کثیر منزلہ اور عالی شان عمارت کیسے بن سکتی ہے؟ فیصلہ ساز اور ماہرین ِریاست نے سیاسی پلازے میں گزرتے وقت کے ساتھ نئے فلور بنانے کے علاوہ حسبِ ضرورت ڈیزائن میں کچھ تبدیلیاں تو کرڈالیں لیکن اس بات کا خیال نہیں رکھا کہ پلازے کی بنیادیں اور ڈیزائن ان تبدیلیوں اور مزید تعمیر کا بوجھ بھی اٹھاسکتے ہیں یا نہیں۔ مشترکہ پلازے میں رہنے والے تمیز اورآداب سے عاری ہوں تووہ اُدھم مچاتے ہیں کہ ذرا سی دھمک ہو یا جھٹکا‘ پلازہ لرز اٹھتا ہے۔اکثر تویوں جھولتا محسوس ہوتا ہے کہ اب گرا اور اب گرا۔ یہ دھماچوکڑی مزید استحکام کا باعث بنتی چلی جارہی ہے۔ خدا خیر کرے مرے آشیانے کی۔وطنِ عزیز پر شوقِ حکمرانی پورا کرنے والے اپنے شوق کی دھن میںیہ حقیقت فراموش کر بیٹھے کہ گورننس کے بغیر اقتدار من مانی اور مزید من مانی تو ہوسکتا ہے لیکن رب کی اس عطا کا حق ادا نہیں کرسکتا۔رب کی اس عطا کو اپنی ادا سمجھنے والے ہمیشہ مغالطے اور کسی بھول کا شکاررہے ہیں۔ وہم میں مبتلا سبھی خود کو ناگزیر اور ناقابلِ تسخیر سمجھنے والے بھی یقیناغفلت کا شکار ہیں۔سدا بادشاہی رب کی ہے۔ان پچھتر برسوں میں طالع آزما اُمر اور جابرحکمران ہوں یا جمہوری لبادے اوڑھے من مانی اور میں نہ مانوں کے استعارے‘سبھی کے روپ بہروپ اور چہرے بے نقاب ہوچکے ہیں۔یہ مائنڈ سیٹ حکمرانی کو گلے کا طوق کب بناتا ہے اور کب پاؤں کی بیڑی بن جاتا ہے‘ نہ ماضی میں کسی کو سمجھ آئی اور نہ آئندہ کوئی سبق سیکھنے کو تیار ہے۔
بین الاقوامی سازشوں اور تھیوریوں کا آلہ کار بننے والے اکثر ممالک کے حکمرانوں کی نہ سہولت کاری ان کے کام آئی نہ وفاداری۔ ملک و قوم سے تغافل اور بدعہدی کے مرتکب نہ صرف اپنے ممالک کی بربادی کا باعث بنے بلکہ خود بھی عبرتناک حالات اور اذیت ناک موت سے دوچار ہوئے ہیں۔یہ سبھی حکمران طاقت اور اختیارات کے کوہِ ہمالیہ تھے۔ان کی آنکھ کا اشارہ ہو یا منہ سے نکلے ہوئے الفاظ‘قانون اور ضابطے ان کے آگے سرنگوں اور ہاتھ باندھے رہتے تھے۔ ان کی شان و شوکت اور جاہ و جلال دیدنی تھا۔جب تک یہ ضرورت رہے ان کا اقتدار اور سکہ چلتا رہا‘بدلتی ترجیحات اور وقت کے ساتھ ان کا کردار اور اہمیت جوں جوں کم ہوتی گئی ان کے اقتدار کی مٹھی سے طاقت اور اختیارات کی ریت سرکتی چلی گئی اور بالآخر یہ تہی دست ہوکر اس بے سر وسامانی کا شکار ہوئے کہ جس زمین پر ان کا ڈنکا بجا کرتا تھا‘جس کے کونے کونے پر ان کی دھاک بیٹھی ہوئی تھی وہی زمین اس طرح تنگ ہوتی چلی گئی کہ بے سر وسامانی مقدر بن گئی۔ان سبھی حکمرانوں کا انجام سبق آموز ہے۔ یہ نادان نہیں جانتے کہ عیاریاں اور مکاریاں سب دھری رہ جاتی ہیں۔مملکت خداداد پر بوئے سلطانی کے ماروں نے بھی مارومار کی وہ داستانیں رقم کی ہیں کہ پون صدی کی تباہیوں کا احاطہ کرنے کے لیے ایسے درجنوں کالم ناکافی ہیں۔بنیادی مسائل اور در پیش چیلنجز روزِ اول سے ہی کئی اضافوں کے ساتھ جاری اور جوں کے توں ہیں۔ہر دور میں مینڈیٹ دے کر حکمرانوں کے دن بدلنے والے عوام آج بھی دن پھرنے کی تمنا لیے مارے مارے پھر رہے ہیں۔یہی حسرت لیے کئی نسلیں خاک میں مل چکی ہیں۔ خاطر جمع رکھیں حکمرانوں کے دن اسی طرح بدلتے رہیں گے۔یہ مصاحبین اور حلیفوں کی تبدیلی کے ساتھ ملکی وسائل کوڈکارتے اور خزانوں پر ہاتھ کی صفائی دکھاتے رہیں گے۔کنبہ پروری اور اقربا پروری یونہی پروان چڑھتی رہے گی۔ان کے ٹھاٹ باٹ اور موج مستیاں ان کے ماضی کا منہ چڑاتی رہیں گی۔خاندان یہی رہیں گے۔باپ کی جگہ بیٹا اور دادا کی جگہ پوتا خاندانی سیاست اور اَجارہ داری کو دوام بخشتے رہیں گے۔سیاسی گدیاں یونہی بدلتی رہیں گی۔جانشیں یونہی پلتے رہیں گے۔عوام ایسے ہی رُلتے اور بلکتے رہیں گے۔آنے والے دن مزید کڑے اور مشکل ہوتے رہیں گے۔ روٹیوں کے لالے اور علاج اور دادرسی کے لیے ترلے مزید بڑھیں گے۔نجات دہندو سے نجات کی مزید دعائیں مانگنا پڑیں گی۔من مانی کی طرزِحکمرانی مزید من مانی اور میں نہ مانوں ہی رہے گی۔قانون سرنگوں اور ضابطے ہاتھ باندھے رہیں گے۔میرٹ تارتار اور گورننس شرمسار ہوتی رہے گی۔حریف حلیف اور حلیف حریف بنتے رہیں گے۔ ضرورتوں کی خریدو فروخت اور مینڈیٹ کی سودے بازی جاری رہے گی۔وفاداریوں اور اصولوں کی بولی لگتی رہے گی۔میدان سجتے رہیں گے ایوان آباد ہوتے رہیں گے۔ایوان سے زندان اور زندان سے ایوان کی آنیاں جانیاں بھی جاری رہیں گی۔صادق اور امین کے معنی الٹائے جاتے رہیں گے۔جزا و سزا کا تصوربس تصور ات میں ہی رہے گا۔مکافاتِ عمل کی چکی چکاچوند سے چوک ہوتی رہے گی۔ سرکاری اور نجی زندگیوں کی وڈیوز اورآڈیوز لیک ہوتی رہیں گی۔یہ ناقابلِ تردید حقیقتیں یونہی جھٹلاتے رہیں گے۔یونہی جوٹی سچی قسمیں کھاتے اور آسمان سرپر اٹھاتے پھریں گے۔ ان کی نیت اور ارادوں سے لے کر دلوں کے بھید کھلتے رہیں گے۔
ڈھول بجتے رہیں گے‘ پول کھلتے رہیں گے۔لیکن جب تک عوام رعایا بنے رہیں گے یہ حکمران انہیں قوم نہیں بننے دیں گے۔جب تک قوم نہیں بنیں گے‘ حکمران زمینی خدا بنتے رہیں گے۔خداہی ایسے حالات سے ملک و قوم کو بچا سکتا ہے‘ عوام تو کب کے ہاتھ کھڑے کرچکے ہیں۔مگرہینڈز اَپ پوزیشن میں عوام کو دیکھ کر ان کے مجرم ہونے کا گماں ہوتا ہے۔مینڈیٹ دینے کاناقابلِ معافی جرم کرنے والے عوام کو اتنی سزا تو ضرور ملنی چاہئے ورنہ عوام کا اپنے نجات دہندو ںاور سماج سیوک نیتاؤں کا اپنی رعایا سے اعتماد اُٹھ جائے گا۔جھانسے اور دھوکے کااٹوٹ رشتہ ٹوٹ جائے گا۔